Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sultan Ahmed
  4. Brain Drain

Brain Drain

برین ڈرین

مرحوم ڈاکٹر عبدالقدیر خان 1974 میں نیدرلینڈ سے انتہائی پرکشش ملازمت جس میں بہترین مراعات شامل تھیں، چھوڑ کر وطن عزیز وطن کی محبّت میں واپس لوٹ آئے اور واپس آ کر وہ کارنامہ سر انجام دیا جس پر قوم ہمیشہ ان پر فخر کرے گی۔ ڈاکٹر صاحب ایک انتہائی اعلیٰ دماغ کے حامل ان چند سائنس دانوں میں شمار ہوتے تھے جو اپنے پیشے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا ملک واپس آنا یقیناََ اس ملک پر ایک احسان تھا تو ان کا ملک سے چلے جانا ایک تشویشناک مسئلہ جو آج تک سلگ رہا ہے اور اس کی تپش ہمارے ملک کی بنیادوں کو جلا رہی ہے۔

یہ مسئلہ ہے برین ڈرین (Brain drain) کا۔ برین ڈرین کو دنیا بھر میں مختلف مقامات پر بہتر معیار زندگی، بہترین مراعات، اعلیٰ تنخواہوں، جدید ٹیکنالوجی تک رسائی اور زیادہ مستحکم سیاسی حالات کی تلاش میں پیشہ ور افراد کی نقل مکانی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پیشہ ور افراد کی یہ نقل مکانی بہتر مواقع کے لیے، دونوں ملکوں کے اندر اور بین الاقوامی سرحدوں کے پار، ترقی پذیر ممالک میں اس کے اثرات کی وجہ سے دنیا بھر میں تشویش کا باعث ہے۔

باصلاحیت لوگ اپنے ملک چھوڑ کر بیرون ملک کیوں جاتے ہیں؟ خاص طور پر تعلیمی شعبے پر ایسی نقل مکانی کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ ترقی پذیر ممالک سے ترقی یافتہ ممالک کی طرف ایسی تحریکوں کو روکنے کے لیے کیا پالیسیاں اپنائی جا سکتی ہیں؟

دنیا کے 48 سب سے کم ترقی یافتہ ممالک (LDCs) کے "برین ڈرین" کے اعداد و شمار بہت خطرناک اور دہلا دینے والے ہیں۔ ایل ڈی سی کے لوگوں میں سے یونیورسٹی کی سطح کی تعلیم کے ساتھ، تقریباً ہر پانچ میں سے ایک ملازمت کے لیے اپنے وطن کو چھوڑ دیتا ہے، جبکہ ترقی یافتہ ممالک کے 25 میں سے صرف ایک شخص اپنا وطن چھوڑتا ہے۔ برین ڈرین کی شرح ایل ڈی سی کے لیے سب سے زیادہ ہے۔ 48 ایل ڈی سی میں سے چھ میں اعلیٰ ہنر مند شہریوں کی تعداد اندرون ملک کے مقابلے بیرون ملک مقیم ہے۔

بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کی فراہم کردہ رپورٹ کے مطابق دس ملین سے زائد پاکستانی شہریوں نے بہتر پیشہ ورانہ اور مالیاتی مواقع کے لیے ملک سے دوری اختیار کی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ انجینئرنگ کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ چیئرمین پاکستان انجینئرنگ کونسل (پی ای سی) جاوید سلیم قریشی نے کہا کہ ملک میں ترقی اور تعمیراتی شعبے میں کام نہ ہونے کی وجہ سے انجینئرنگ کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔

پی ای سی کے چیئرمین نے مزید کہا، "اس شعبے میں تقریباً کوئی نوکریاں نہیں ہیں۔ یہی انجینئرز کے ملک چھوڑنے کی پہلی وجہ ہے۔ " ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، غیر یقینی اور سنگین معاشی صورتحال کے ساتھ، زیادہ سے زیادہ ہنر مند پیشہ ور افراد پاکستان چھوڑنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ بے روزگاری ایک اور عنصر ہے جو پیشہ ور افراد کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرتا ہے۔

بیورو آف ایمگریشن میں سرکاری رجسٹریشن کے مطابق، صرف پچھلے دو سالوں میں، تقریباً آٹھ لاکھ چوراسی ہزار بہترین پاکستانی دماغ ملک چھوڑ چکے ہیں۔ ریکارڈ بتاتا ہے کہ 2018 میں 300000 سے زیادہ پاکستانی ملک چھوڑ گئے۔ بیورو کا ڈیٹا اس بڑھتے ہوئے رجحان کو ظاہر کرتا ہے جو ملک سے انسانی سرمائے کی پرواز کے طور پر آسانی سے اہل ہو جاتا ہے۔ ان افراد میں سے زیادہ تر مقامی یونیورسٹیوں سے نئے فارغ التحصیل ہیں۔

دستاویز میں مزید بتایا گیا ہے کہ اس عرصے کے دوران 29 ہزار سے زائد اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانیوں نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اسی طرح، 17000 سے زیادہ اعلیٰٰ تربیت یافتہ اور 369000 ہنر مند افراد نے دنیا میں کہیں اور ملازمتوں کے لیے ملک چھوڑا۔ ہنر مند افراد کے علاوہ، لیبر فورس سے 340000 سے زیادہ افراد ملک چھوڑ گئے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ سراسر خسارے کا سودا ہے اس برین ڈرین سے کثیر زر مبادلہ بھی ملک کو حاصل ہوتا ہے مگر نقصان کہیں زیادہ ہے۔

ملک کے اعلیٰ دماغ اپنے وطن میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد دوسرے ملکوں کو سنمبھالنے، پرواز کر جاتے ہیں۔ ان ملکوں کے لیے برین گین ہوتا ہے۔ وہ جدید سہولیات، پرآسائش زندگی، پرکشش ملازمت اور لائف سٹائل دے سکتے ہیں۔ ہمارے وطن کا نوجوان اپنے اوپر اٹھنے والے اخراجات سے جب ملنے والی ملازمت کا موازنہ کرتا ہے تو اس کے پاس باہر جانے کے سوا کیا آپشن رہ جاتا ہے؟

ہمارے ڈاکٹرز غیر ملکیوں کا علاج، انجینئرز غیروں کی عمارات، اساتذہ دوسروں کے بچوں کی تدریس اور ہنر مند افراد دیار غیر کو ترقی دینے میں مصروف ہیں۔ جب کہ ہمارے مریض مر رہے ہیں، ڈیموں اور انفراسٹرکچر کی کمی ہے، بچے در بدر اور شہر گندگی کے ڈھیر۔ یہ آفت بھی کسی سیلاب، کسی زلزلے سے کم نہیں۔ ایک ڈاکٹر پر تقریباََ چالیس سے پچاس لاکھ خرچ اٹھتا ہے۔ اساتذہ کا وقت اور محنت الگ۔

اسی طرح ایک انجینئر تقریباََ دس سے پندرہ لاکھ میں پڑتا ہے اور کسی بھی پیشہ ور فرد پر پانچ سے دس لاکھ خرچ ہوتے ہیں۔ یہ کالج، یہ یونیورسٹیاں اعلیٰ ترین دماغ تیار کرتی ہیں اور پھر ایک دن وہ اعلیٰ ترین دماغ کسی اور جسم میں پیوست ہو جاتا ہے۔ یہ سارا خرچہ، یہ ساری محنتیں وطن کے کسی کام نہیں آتے۔ واقعی ڈاکٹر عبدالقدیر خان صرف ایک ہی تھا۔

Check Also

Khyber Pakhtunkhwa Ka Jahannam

By Najam Wali Khan