Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sultan Ahmed
  4. Asli Superman

Asli Superman

اصلی سپر مین

سال ہے 1938 اور گریٹ ڈپریشن زوروں پر ہے۔ حال ہی میں آسٹریا کے جرمنی کے ساتھ الحاق کے بعد یورپ میں حالات کشیدہ ہونے لگے ہیں۔ دریں اثناء کلیولینڈ، اوہائیو میں دو نوجوان ایک ایسے خواب کو پورا کرنے والے ہیں جو امریکی عوام کے لیے امید پیدا کرے گا اور اب تک کے سب سے مشہور کرداروں میں سے ایک کو شائع کرے گا۔

یہ 18 اپریل 1938 تھا جب نیشنل پبلی کیشنز نے ایکشن کامکس کا پہلا شمارہ جاری کیا جس میں سپرمین نامی ایک سپر ہیرو کو نمایاں کیا گیا تھا۔ وہ اپنے جاسوس کامکس (بعد میں ڈی سی کے نام سے جانا جاتا ہے) کے ساتھ جانے کے لیے ایک ساتھی سیریل کی تلاش میں تھے اور پہلے شمارے میں جانے کے لیے کہانیوں کی ضرورت تھی۔ زتارا نامی جادوگر کے ساتھ، انہوں نے ایک ایسے کردار کا پریمیئر کیا جسے بعد میں پہلا امریکی سپر ہیرو کہا جانے لگا۔

جیری سیگل اور جو شسٹر دونوں یہودی تارکین وطن کے ہاں پیدا ہوئے، سیگل کا تعلق لیتھوانیا سے اور شسٹر کا نیدرلینڈ اور یوکرین سے ہے۔ 1931 میں دونوں کلیولینڈ کے گلین ویل ہائی اسکول میں پکے دوست بن گئے اور ایک ساتھ کامکس تخلیق کرنا شروع کیا۔ 16 سال کی عمر میں، سیگل اور شسٹر دونوں پہلے کامک فنکار تھے۔ شسٹر نے جیری دی جرنلسٹ نامی ایک کردار کے بارے میں ایک مزاحیہ خاکہ تیار کیا، اور سیگل نے ہیو لینگلے کے تخلص کے تحت اپنے کام بیچے۔

وہ ایک ساتھ مل کر سائنس فکشن سے متاثر کامکس یا جان ہنری کی لوک کہانی سے متاثر کہانیوں پر کام کرنے کا رجحان رکھتے تھے۔ انہوں نے ایک ولن کے بارے میں ان خیالات پر مبنی ایک کہانی تخلیق کی جسے وہ "سپرمین" کہتے ہیں۔ اگرچہ، ایک ولن کے طور پر سپرمین زیادہ دیر نہیں چل سکا۔ اس جوڑے نے ایک نیا ہیرو بنایا، جس کا نام بھی سپرمین ہے، جو آج ہم جانتے ہیں اور ایک بہت مشہور کردار ہے جس پر کئی فلمیں بن چکی ہیں، سپرمین نے ہالی ووڈ انڈسٹری کو بدل کر رکھ دیا۔

18 اپریل 1938 کو ایکشن کامکس کا پہلا شمارہ جاری کیا گیا جس میں سپرمین کی گاڑی کو سر کے اوپر اٹھائے جانے کی تصویر تھی۔ سپرمین جلد ہی دنیا کے مشہور ترین کرداروں میں سے ایک بن گیا۔ سپرمین کی کہانیاں شیلف سے ہاتھوں ہاتھ بکنے لگیں۔ آج سپیشل ایفیکٹس کا دور ہے اور میٹرکس جیسی فلموں نے ہالی ووڈ نگری کو ایک ایسی تخیلاتی دنیا میں بدل کر رکھ دیا جس کے بعد سوپر ہیروز میں نئی جان پڑ گئی۔ سپرمین، بیٹ مین، سپائڈر مین اور آئرن مین جیسے تخیلاتی اور آفاق الفطرت کردار انسانی زندگی سے جڑنے لگے اور نئی پیڑھی کو ان کرداروں میں اپنے آئیڈیل دکھائی دینے لگے۔

انسانی ذہن کی نفسیات ہے کہ وہ جو کچھ پردہ سکرین پر دیکھتا ہے اسکے اندر چھپا سوپر ہیرو اسے سچ ماننا شروع کر دیتا ہے۔ مارول اور ڈی سی کے سوپر ہیروز اتنی صلاحیتوں کے حامل کردار ہیں کہ وہ ہمیں حقیقت سے دور پر فریب دنیا میں لے جاتے ہیں جنھیں ہم وقتی سکون اور ایک امید کے طور پر قبول کر لیتے ہیں کہ شاید کبھی ہمارے مسائل اور دکھوں کا مداوا کرنے اسی طرح کوئی سوپر ہیرو آئے گا اور ہماری مدد کرے گا۔

جبکہ حقیقت اس کے برعکس اور شاندار ہے حقیقی زندگی میں انسانوں کی مدد اور ان کے مسائل کے حل عام انسانوں نے ہی دریافت کیے ہیں تو کیا ایک عام انسان بھی ایک سپر ہیرو ہے؟ کیا عام انسان کسی سپرمین کی طرح اڑ سکتا ہے یا بیٹ مین کی حیرت انگیز گاڑی رکھتا ہے؟ ہوائی جہاز سے لے کر فیراری تک اور انسولین سے لے کر کمپوٹر چپ تک سب عام سے دکھنے والے انسانوں نے بنایا ہے۔

واٹس ایپ بنانے والا جین کوم ایک گروسری سٹور میں کام کرنے والا عام سا یوکرینی نوجوان جس کی ماں اس کے لڑکپن میں کینسر سے لڑ کر انتقال کر گئی اور باپ یوکرین میں پھنس گیا، جین کوم کی پروگرامنگ میں دلچسپی اسے امریکہ لے آئی اور پھر یہیں سے اس کے سپرمین اسٹیٹس کا آغاز ہوا۔

نیکولا ٹیسلا کو کون نہیں جانتا جس نے بجلی، ایکسرے مشین، جدید ریڈیو اور وائرس ٹیکنالوجی جیسی ایجادات کیں۔ ٹیسلا 1943 میں انتہائی غربت میں نیویارک کے ایک ہوٹل میں فوت ہوگیا جہاں وہ گزشتہ دس سال سے رہ رہا تھا کیونکہ ایک اور ہوٹل نے اسے کرایہ ادا نہ کرنے کی پاداش میں نکال دیا تھا۔ نکولا ٹیسلا جیسا سوپرمین سائنسدان دنیا نے پھر نہ دیکھا۔

اگر آپ آج یہ کالم پڑھ رہے ہیں تو اس کے پیچھے ٹم برنر لی کا ایجاد کردہ ورلڈ وائڈ ویب یعنی انٹرنیٹ ہے۔ ٹم برنر نے یورپین سائنسدانوں کے لیے انٹرنیٹ ایجاد کیا تاکہ وہ باآسانی اور تیزی سے فائلز ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر سکیں۔ حیرت انگیز طور پر ٹم برنر نے اپنی ایجاد کو پینٹ نہیں کرایا۔ اس کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ کی کامیابی کا راز دراصل اس کے مفت ہونے میں ہی ہے۔

نک ہولنیک جونیئر 1928 میں امریکہ میں پیدا ہوا اس کا باپ کوئلے کی کان میں کام کیا کرتا تھا ایک مرتبہ اس نے بھی تیس گھنٹے لگاتار کوئلے کی کان میں کام کیا اور آخر کار فیصلہ کیا کہ محنت اس کے بس کا روگ نہیں اور اسے اپنی زندگی بدلنے کے لیے تعلیم حاصل کرنی پڑے گی۔ وہ اپنے خاندان کا پہلا بچہ تھا جس نے اسکول کی شکل دیکھی۔ اسی نک ہولنیک نے ایل ای ڈی ایجاد کی۔ اس کا کہنا تھا کہ ایک دن ایل ای ڈی ایڈ یسن کے بلب کا متبادل بن جائے گی اور آج اس کی بات بالکل درست ثابت ہو چکی۔

سوپر مین اگر فلموں میں اڑتا ہے تو ہم بھی حقیقی زندگی میں اڑنے کے قابل ہیں، رائٹ برادرز نے انسان کو فضا میں پرواز کرنے اور آسمان کو مسخر کرنے کی آس دلائی۔ یہ دونوں بھائی ایک عام سی دکان چلاتے تھے جس میں مختلف چیزوں کی مرمت کیا کرتے تھے مگر ان کے خواب آسمان میں اڑنے کے تھے۔ انہیں دو بھائیوں نے محدود وسائل کے ساتھ دنیا کی پہلی کامیاب پرواز کی اور باقی تاریخ ہے۔

یہ کیسے نادر و نایاب سوپرمین تھے جنہوں نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا اور یہ سب عام انسان تھے، حالات سے لڑتے، مسائل میں رہ کر دوسروں کے لیے زندگی میں آسانیاں پیدا کرتے، نشیب و فراز سے گزرتے، مگر چٹان کی طرح مضبوط، پانی کی طرح ہر پل آگے بڑھتے اور ستاروں پہ کمند ڈالتے۔ ہم سب حقیقی زندگی میں کسی بھی سوپر ہیرو سے کم نہیں بس تھوڑا جنون، تھوڑا سا پاگل پن، پکا ارادہ اور نیت درکار ہے۔ ایڈیسن نے کہا تھا کی کامیابی میں ذہانت کا حصہ محض ایک فیصد اور سخت جدوجہد کا حصہ 99 فیصد ہے۔

Check Also

2025 Kya Lekar Aaye Ga?

By Muhammad Salahuddin