Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sultan Ahmed
  4. 86,400

86,400

86,400

استاد کا سوال انتہائی اچھوتا اور حیران کن مگر دلچسپ تھا۔ کلاس میں موجود تمام طلبہ و طالبات اپنی اپنی باری پر سامنے آتے اور اس سوال پر اظہار خیال کرتے۔ استاد نے بچوں سے سوال کیا تھا کہ اگر انہیں ہر روز 86,400 روپے دیے جائیں تو وہ اس کا کیا کریں گے؟

یہ حیرت انگیز سوال سن کر بچوں کے چہرے پر خوشی اور تعجب کے ملے جلے تاثرات تھے۔ ان بچوں نے اتنی بڑی رقم اپنے پاس ہونے کا کبھی سوچا بھی نہیں تھا اور یہ بھی کہ یہ رقم انھیں روزانہ دی جائے گی۔ ایک طالب علم نے بتایا کہ وہ اس پیسے سے نئی کار اور آئی فون خریدے گا۔ ایک اور طالب علم کا جواب تھا کہ وہ اس پیسے سے نیا گھر خریدے گا۔ بہت سے طالب علموں نے دوسروں کی مدد کرنے، ہسپتال اور اسکول بنانے، خیراتی اداروں کی امداد، مسجد کی تعمیر اور ماں باپ کو حج اور عمرہ کرانے کا بتایا۔

بہت کم طلبہ وطالبات نے اس پیسے سے کاروبار شروع کرنے کا ذکر کیا۔ چند ایک نے دنیا گھومنے کا پروگرام بھی بنایا۔ الغرض پوری کلاس ہی پیسے کا استعمال جانتی تھی۔ انسان بھی ایک عجیب مخلوق ہے۔ یہ دنیا کی 87 لاکھ مخلوقات میں سے واحد مخلوق ہے جو پلاننگ یعنی منصوبہ بندی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جانور اس صلاحیت سے یکسر محروم ہیں۔ دنیا کے پہلے گدھے اور آج کے گدھے کی زندگی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ وجہ پلاننگ کا نا ہونا۔

ہم انسان کافی کا ایک کپ پینے سے لے کر آئندہ دس سالوں تک کی منصوبہ بندی کرکے رکھتے ہیں۔ گرمیوں کی چھٹیاں کہاں گزارنی ہیں، بچوں کو کون سے اسکول میں داخل کرانا ہے، کون سے کاروبار میں انویسٹ کرنا ہے۔ حج اور عمرے پر کون سے سال جانا ہے۔ ویک اینڈ سے لے کر اگلے سال عید کی شاپنگ تک ہم انسان ہر کام کی منصوبہ بندی کر کے رکھتے ہیں۔

کلاس کے اختتام پر ایک اسٹوڈنٹ نے سوال کیا، سر، آپ نے 86,400 کا نمبر ہی کیوں لکھا؟ جب کہ آپ پانچ دس کروڑ یا پچاس ساٹھ ارب روپے بھی تو لکھ سکتے تھے؟ اس طالب علم کے سوال میں یقینا لاجک تھی۔ استاد اس کے سوال پر مسکرائے اور اسے سراہتے ہوئے کہا، "تم سوال کی جڑ تک پہنچ گئے۔ باقی تمام طلبہ و طالبات نے اس سوال کو بھی ایک عام سوال کی طرح لیا اور وہ اس کی اصل روح تک نہ پہنچ سکے"۔

استاد نے بتایا کہ ایک دن میں 24 گھنٹے ہوتے ہیں اور یہ 24 گھنٹے سیکنڈز میں چھیاسی ہزار چار سو بنتے ہیں۔ یہ 86,400 سیکنڈز ہمیں روزانہ ملتے ہیں۔ یہ وقت ایک ایسا اثاثہ ہے جو سب سے قیمتی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہم اس اثاثے کو کس طرح استمال کرتے ہیں۔ یاد رکھیں جو 86,400 سیکنڈز کل گزر گئے وہ کبھی واپس نہیں آسکتے۔ دنیا کی کل معیشت تقریبا پانچ سو کھرب ڈالر بنتی ہے۔ ہم یہ سارا پیسہ خرچ کر کے بھی ایک دن کے 86 ہزار چار سو سیکنڈز واپس نہیں لا سکتے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وقت کتنا قیمتی اور نایاب شے ہے۔ آپ نے وہ محاورہ ضرور سنا ہوگا کہ وقت کی قدر کرو۔ یقین جانیے وقت کی قدر کرنے سے بھی فرق نہیں پڑے گا۔ صرف قدر کرنے اور احساس کرنے سے بھی وقت واپس نہیں آ سکتا۔ وقت کا درست، صحیح اور بھرپور استعمال ہی قابل قدر ہے۔

بوریت یا boredom کا لفظ 1852 میں پہلی مرتبہ مشہور مصنف چارلز ڈکنز نے استعمال کیا۔ اس سے قبل کی دنیا بوریت کے اس معنی سے ناآشنا تھی جو موجودہ دور میں رائج ہے۔ آپ حد ملاحظہ کریں آج کل لوگ باقاعدہ "بور" ہو جاتے ہیں۔ زندگی آسائشوں سے بھرپور ہے، انٹرنیٹ، کمپیوٹر، فیس بک، واٹس ایپ، یوٹیوب اور سمارٹ فون کے ہوتے ہوئے بھی لوگ بور ہو جاتے ہیں۔ یہی اسمارٹ فون، سوشل میڈیا اور گیجٹس کو بوریت دور کرنے کی کنجی بھی سمجھا جاتا ہے۔ آج کا نوجوان ہر وقت ہر آن اس بوریت کو دور کرنے کے درپے ہے۔ جبکہ درحقیقت وقت آپ کے ہاتھ سے پھسل رہا ہوتا ہے۔

آپ کے 86,400 سیکنڈز یوں ضائع ہو رہے ہوتے ہیں جیسے بارش کے بعد بہت سارا پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق سمارٹ فون استعمال کرنے والے لوگ ایک دن کے پانچ سے سات گھنٹے اس کی نذر کر دیتے ہیں۔ یہ سال کے 72 دن بنتے ہیں۔ اسمارٹ فون کو بنے ہوئے کم وبیش دس سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ 72 دن کو اگر ایوریج مان لیا جائے تو دس سال میں پورے 2 سال۔۔ 62,208,000 سیکنڈز۔۔ صرف اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا کی نذر ہو گئے۔ اس وقت سے حاصل وصول کیا ہوا، اپنی زندگی کی بیلنس شیٹ سے ہر انسان بخوبی واقف ہے۔ کیا وقت کی اس سے زیادہ بے قدری ہو سکتی ہے؟

سوشل میڈیا اور اسمارٹ فون کا استعمال یقینا وقت کا زیاں نہیں ہے اگر اسے کسی جائز فائدے اور مقصد کے لئے استعمال کیا جائے۔ فی زمانہ ہمیں ہارڈ ورک کی بجاۓ سمارٹ ورک کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی کم وقت میں زیادہ کام۔ یہ سمارٹ فون، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ پیسے کا سب سے بہترین استعمال کیا ہے؟ آپ کہیں گے کاروبار کرنا، یعنی پیسے سے پیسہ بنانا۔ انویسٹمنٹ پیسے کا بہترین استعمال ہے۔ انویسٹمنٹ کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

نمبر ایک دنیاوی انویسٹمنٹ۔ اس میں کاروبار، تجارت اور دکان وغیرہ شامل ہیں۔ دوسری انویسٹمنٹ آخرت کی انویسٹمنٹ ہے۔ صدقہ و خیرات، زکوۃ، کسی غریب، مسکین، ضرورت مند کی مدد کرنا یا کسی عبادت میں مال خرچ کرنا آخرت میں آپ کے مال یعنی نیکیوں میں اضافے کا باعث بنے گا۔ بالکل اسی طرح وقت کی سب سے بہترین انویسٹمنٹ بھی دو حصوں میں تقسیم کی جاسکتی ہے۔ اپنا قیمتی اثاثہ یعنی وقت دین و دنیا کے بہترین کاموں میں ہی خرچ کریں بصورت دیگر یہ ضرور خرچ ہو جائےگا۔

امریکی صدر ابراہم لنکن نے وقت کے بارے میں کہا تھا کہ time is money۔ مگر وقت اور پیسے میں بہت فرق ہے۔ روپیہ پیسہ آپ خرچ کر سکتے ہیں، ادھار لے اور دے سکتے ہیں۔ یہ آپ سے چوری ہو سکتا ہے اور آپ کنگال ہو سکتے ہیں تاہم پیسہ آپ دوبارہ کما سکتے ہیں مگر وقت دوبارہ نہیں کمایا جا سکتا۔ وقت ہر حال میں آگے کی طرف سفر جاری رکھتا ہے۔ دوسروں کا آپ کو دیا ہوا وقت سب سے قیمتی تحفہ ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں سے آپ کے لیے وقت نکال رہا ہے تو اس کے وقت کی ہر حال میں قدر کریں۔

ہمارے ہاں وقت پر پہنچنے والے کو بیوقوف اور فارغ سمجھا جاتا ہے جب کہ تاخیر سے پہنچنے والے کو سمجھدار اور زمانہ شناس سمجھا جاتا ہے۔ وقت کی اس سے زیادہ بے قدری اور کیا ہوگی۔ ترقی یافتہ ملکوں کی ترقی کا ایک اہم راز وقت کی قدر کرنا ہے۔ ویسے اب یہ راز کوئی راز تو رہا نہیں۔ پھر بھی ہم اس راز کو نا اپنائیں تو اسکا سیدھا سا مطلب ہماری سستی، معاملات کو آسان لینا اور وقت کی بے قدری ہے۔ ہمارے ہاتھ میں قسمت کی لکیریں ضرور موجود ہیں مگر وقت کی لکیر قدرت نے کھینچی ہی نہیں کہ انسان کو اس انمول تحفے کی قدر نصیب ہو۔

انسان اس ان دیکھی نعمت کو یوں ضائع کر دیتا ہے جیسے اسے پتہ ہو کہ اس کے نصیب میں ابھی بہت وقت باقی ہے۔ ہر گزرتا دن، ڈھلتا سورج اور گہری رات کے پھیلتے سائے ہماری زندگی کے 86,400 سیکنڈز ہماری زیست کی کتاب سے اس طرح مٹا دیتے ہیں کہ یہ پھر کبھی واپس نہیں لوٹ سکتے۔ ابھی جو وقت میسر ہے اسے بہترین استمعال کریں۔ اپنی زندگی میں بیلنس لائیں۔ نوکری، کاروبار، فیملی، رشتے دار، دوست احباب، مذہب، سماج، اور اپنی ذات پر اپنے قیمتی اور ختم ہوتے وقت کو خرچ کریں۔ آپ کا وقت بدل جائیگا۔

Check Also

Ye Dunya Magar Bohat Zalim Hai

By Nusrat Javed