Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sultan Ahmed
  4. 2047

2047

2047

کاش کچھ تو بدل جاتا۔ آج 14 اگست 2047 ہے اور پاکستانی اپنے وطن کی 100ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ سال کے اس ایک دن وطن سے محبّت کے عہد و پیمان کیے جاتے ہیں، اسکی تعمیر نو کرنے کی قسمیں کھائی جاتی ہیں اور باقی 364 دن اس دن کی نفی میں گزرتے ہیں۔ ارباب اقتدار کی ہوس، وہی آئی ایم ایف، وہی شاہ خرچیاں، کبھی نہ ختم ہونے والی مہنگائی، ٹیکس در ٹیکس، الیکشن کے نام پر بندر بانٹ، ابتر سڑکیں، گندگی و غلاظت کے ڈھیر، تعلیم، صحت اور بنیادی سہولیات کا رونا، زلزلوں کے بعد کی روایتی بے حسی، طوفانی بارشیں اور سیلاب اور سب سے بڑھ کر مجموعی بے حسی۔

کاش کچھ تو بدل جاتا۔

وزارت اعلیٰ اور وزارت عظمیٰ کے لیے آج بھی بھٹو خاندان، ہاؤس آف شریف، زرداریز، خان سلطنت، چودھریز، فضل الرحمان اینڈ کمپنی، گیلانیوں اور قریشیوں ہی کے درمیان نورا کشتی زور و شور سے جاری ہے۔ یہ 2047 کے پاکستان کا نقشہ ہے۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ سب کچھ ویسا ہی ہے۔ صرف پاکستان کی عمر میں اضافہ ہو کر یہ 100 سال ہو چکی ہے۔ عوام کے حالات، شہری اور دیہی زندگی اور ان میں سسکتی بلکتی بھوک، افلاس اور پسماندگی، انفراسٹرکچر۔

ہر سال سیلاب آنے کے بعد ڈیم کے وعدے جو کبھی وفا نہ ہو سکے اور اہل اقتدار کی بھوک، سنگ دلی اور ہوس۔ سب کچھ ویسا ہی ہے۔ دراصل ہم جس ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے ہیں وہ یہی سیاسی رہنما اور ایلیٹ کلاس ہے جس نے ہمیں اپنے پیچھے لگا رکھا ہے۔ ہم سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی انہیں کے نام کی مالا جپتے ہیں۔ انہی کی لینڈ کروزر کے آگے پیچھے بھنگڑے ڈالتے ہیں، ان ہی کی پرستش کرتے ہیں۔

اگر ہم واقعی اپنے حالات بدلنا چاہتے ہیں تو ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے سے ہٹنا ہو گا۔ یہ قوم بے سمت سفر کر رہی ہے کیونکہ اس کا کوئی رہنما نہیں ہے اور ایسی قومیں جتھوں میں بٹ جاتی ہیں۔ وہ صرف اپنے مفاد کا خیال اور تحفظ کرتے ہیں۔ ان میں جو سمجھدار، پڑھے لکھے اور اہل ثروت ہوتے ہیں وہ دیار غیر میں جا بستے ہیں۔ پیچھے ایک بھیڑ ہے، تماش بین ہیں، بے سمت رواں دواں ایک کارواں۔ جس کی کوئی منزل نہیں اور جس کا کوئی رہنما نہیں۔ ہم ایک سراب کے پیچھے ہیں۔

ہم دائرے کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ ہمارے مصائب، آفتیں اور دکھڑے سال بھر کے ہیں، ہمیں پتا ہے کب بارشیں ہوتی ہیں، کب برف باری ہوتی ہے اور کب سیلاب آتے ہیں اور کب امداد کا سیزن شروع ہو گا۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والی آفات کی وجہ سے آٹھویں سب سے زیادہ غیر محفوظ ملک کے طور پر رکھتا ہے، حالاں کہ یہ ملک دنیا کو گرم کرنے والی گیسوں کے 1 فیصد سے بھی کم کا ذمہ دار ہے۔ ایک قیمت ہے نا اہلی کی، کچھ نہ کرنے کی، بے حسی اور مردہ ضمیری کی جو ہر سال چکائی جارہی ہے۔

انتہائی سنگین موسمی حالات نے ملک کو غیر یقینی کی کیفیت پر رکھ دیا ہے، جہاں موسمی نمونوں کا مزید اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اس سال کے شروع میں، ملک کو سندھ اور بلوچستان میں غیر معمولی گرمی کی لہروں اور مہینوں طویل خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا۔ صرف چند ماہ بعد پاکستان نے اپنا دہائیوں پر محیط بارش کا ریکارڈ توڑ دیا اور دونوں صوبوں میں سالانہ اوسط سے 500 فیصد زیادہ بارش ہوئی۔

یہ تو روز روشن کی طرح واضح ہے کہ کسی سے امیدیں رکھنا خام خیالی ہے، خود کچھ کرنا ہو گا، سیلاب کے راستے متعین ہیں اور زیادہ بارشوں والے علاقے اور سیلابی پانی کی گزر گاہیں معلوم۔ ان علاقوں میں رہنے والے باشندوں کو اپنا بندوبست خود کرنا ہو گا۔ گھر دریائی راستوں سے ہٹ کر بنائیں اور بنیادیں اونچی رکھیں، مون سون کے موسم میں اگر ممکن ہو نقل مکانی کر جائیں یا گھروں میں بچنے کے حفاظتی بندوبست رکھیں۔

خشک خوراک اور پانی کا ذخیرہ کر لیں، جانوروں کی حفاظت کے لیے تدبیر کریں۔ بس یوں سمجھ لیں آپ نے خود جنگی بنیادوں پر اس محاذ کی تیاری کرنی ہے کیوں کہ حکومتیں صرف مرنے والوں کے لیے اعلان، چندہ اور بچ جانے والوں کے ساتھ فوٹو سیشن کرانے آتی ہیں۔ اس کے بعد کشکول دنیا بھر سے بھرنے کی ترکیبیں۔ یہ اس چوکیدار کی طرح ہے جو رات بھر آواز لگاتا پھرتا ہے "ساڈے تے نہ رہنا"۔

1953 کے موسم سرما میں، نیدرلینڈ کی تاریخ کا سب سے خوفناک سیلاب بغیر کسی وارننگ کے آیا، جس میں 1، 800 سے زیادہ افراد ہلاک اور 70، 000 سے زیادہ بے گھر ہوئے۔ جیسا کہ طوفان، جس کا نام واٹرسنوڈرامپ ہے، رات میں پیدا ہوا، سوئے ہوئے باشندوں کو معلوم نہیں تھا کہ ان کے ارد گرد سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ یاد رہے کہ نیدر لینڈ سطح سمندر سے نیچے ہے۔ مقامی ریڈیو اسٹیشنوں کی نشریات اور بیشتر ویدر اسٹیشن بند ہونے کی وجہ سے لوگ تیاری نہیں کر سکے۔

ایمسٹرڈیم میں رہنے والی ایک اکاؤنٹنگ فرم مینیجر Annerie Houterman ہمیشہ اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ رہی ہے۔ اس کی والدہ واٹرسنوڈرامپ کے سال پیدا ہوئیں۔ اس کے خاندان کے لیے اور ہالینڈ میں باقی سب کے لیے سیلاب اتنا تکلیف دہ تھا کہ یہ وقت کی پیمائش کرنے، پیدائش اور موت کو نشان زد کرنے، عمروں اور نسلوں کو تقسیم کرنے کا ایک طریقہ بن گیا۔ انہوں نے کہا کہ "لوگ سمندر کے ساتھ ایسے رہتے ہیں جیسے یہ ان کا صحن ہو، لیکن وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ یہ ناقابل قبول ہے کہ یہ جان لے لیتا ہے، " انہوں نے کہا۔ "یہ زندگی کے لیے ضروری ہے، لیکن خطرناک بھی۔ یہ آپ پر چڑھ دوڑتا ہے۔ "

ڈچوں (نیدر لینڈ کے لوگ) نے عزم کیا ہے کہ وہ دوبارہ کبھی حیران نہیں ہوں گے، فعال طور پر ایسے منصوبے تیار کر رہے ہیں جو مستقبل میں ایک صدی یا اس سے زیادہ تک پہنچ جائیں۔ ایسا ہی ایک منصوبہ ڈیلٹا پروگرام ہے، جو ایک سالانہ اپ ڈیٹ کی جانے والی حکمت عملی ہے۔ ملک بھر میں 30 مقامات پر دریاؤں کو محفوظ طریقے سے مختلف مقامات پر راستہ دیا گیا ہے۔ اس طرح کے اقدمات کام کرنے کے فوائد سامنے آ رہے ہیں۔ Watersnoodramp کے بعد سے کوئی قابل ذکر سیلاب نہیں آیا۔

سیلاب سے بچاؤ کا وہ نظام جو واٹرسنوڈرامپ کے سانحے سے ابھرا۔ زیلینڈ میں، جہاں شمالی سمندر دریا کے راستوں سے ملتا ہے، ڈیلٹاورکن کے پیچھے ہٹنے والے طوفان کے اضافے کی رکاوٹوں کو ہنگامی حالات میں بند کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کی ترقی کے ساتھ سیاحوں کی دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے، اور اس علاقے میں اب ایک واٹر پارک، ایکویریم، شوز اور نمائشیں شامل ہیں۔

تاہم، دفاعی نظام کنکریٹ کا اتنا بڑا مجموعہ جسے مکمل ہونے میں 50 سال سے زیادہ کا عرصہ لگا۔ یہ ایک دیکھنے والی چیز ہے۔ اسے جدید دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک نامزد کیا گیا ہے۔ ہمارے دیہاتوں کے لوگ جو سیلابی پانی کے راستوں کے اطراف بستے ہیں، سیلابی ریلوں کے پانی کی گزر گاہوں کو وسیع کر سکتے ہیں۔ مضبوط پشتے بنا سکتے ہیں۔ کچھ دیہات مل کر خود چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا لیں۔ انھیں دیہاتوں سے اٹھ کر نوجوان انجینیرز دنیا بھر میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

وہ واپس اپنے دیہاتوں کا رخ کریں اور اس آفت کا مستقل حل تلاش کر کے اپنے دیہات اور دیہاتوں میں ڈوبتی زندگی بچائیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ خیرات کرنے والی قوم خود کو خیرات دے دے اور سانحات کا انتظار کرنے کے بجاۓ سانحات کی روک تھام اور نقصان سے بچنے کا ذمہ اٹھا لے۔ اگر ہمارے دیہات پورے ملک کو کھلا سکتے ہیں، زمین کا سینہ چیر کر اس میں سے اناج اگا سکتے ہیں تو یہ زمین کے اوپر رواں پانی کا رخ موڑنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

کچھ دنوں میں پانی اتر جائیگا پھر امدادی کارکن اور فوٹو سیشن واپس گھر کی راہ لینگے۔ آئندہ الیکشن کا بگل بجے گا اور میڈیا اور "عوامی نمائندہ" اس میلہ کی تیاری شروع کر دینگے۔ سیلاب زدگان والا سالانہ میلہ پھر آئندہ سال سجے گا۔ سیلاب زدگان کو اب اس "زدگان" کے لیبل کو خود سے ہٹانا ہو گا۔ ڈچ لوگ کر سکتے ہیں تو آپ بھی کر سکتے ہیں۔ اوپر والا ہاتھ بن جائیں۔ اپنی فصلوں، مویشیوں، زمینوں، گھروں اور بچوں کو بچانے کے لیے کوئی منصوبہ بنائیں اور دنیا کے لیے مثال بن جائیں۔

Check Also

Taunsa Barrage

By Zafar Iqbal Wattoo