Versatile Adakar
ورسٹائل اداکار
اداکار کا ورسٹائل ہونا اہم ہے، ضروری نہیں۔ ال پچینو ورسٹائل نہیں ہے، باڈی ٹرانسفارمیشن میں نہیں پڑتا، کریکٹر رول میں بھی اپنا حلیہ نہیں بدلتا کردار کی زبان بھی نہیں پکڑتا، جسٹس فار آل ہو یا سینٹ آف آ وومن دونوں میں شدید غصے سے ڈائیلاگ بولنے ہوں تو لہجہ ڈلیوری اور باڈی لینگویج ایک ہی ملتی ہے۔
دوسری جانب رابرٹ دنیرو ہے، جو ورسٹائل ہے، جو کردار کی زبان جسم اور چال بن کر کریکٹر اوڑھ لیتا ہے، دنیرو غائب ہوجاتا ہے اور صرف کردار بچتا ہے۔ ینگ گاڈ فادر سے ٹیکسی ڈرائیور اور ٹیکسی ڈرائیور سے درجنوں کرداروں میں ڈھلا رابرٹ دنیرو ہر طرح سے ہر بار ورسٹائل دکھا ہے، مگر اس فیکٹر کی موجودگی اور عدم موجودگی سے پچینو کا رتبہ کم ہوا یا دنیرو کو اضافی نمبر ملے؟ یہ بحث طول پکڑے آرگومنٹ کی بوچھاڑ ہو تو تب بھی کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچا جاسکتا کیونکہ دونوں نے جو کردار نبھائے وہ مکمل لوازمات کے ساتھ تھے۔ ان میں کسی طرح کی کمی نہیں تھی وہ ایسے ہی ہونے چاہیے تھے جیسے انہوں نے نبھائے اور یہ سب آئیکونیک کے درجے کو پہنچے۔
اچھا اداکار اپنی خوبیاں بھلے نہ جانتا ہو اپنی خامیاں ضرور جانتا ہے اور اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے سکرپٹ کی چوائس رکھتا ہے، برا اداکار اپنی برائیاں جان نہیں پاتا جان جائے تو مان نہیں پاتا، کیانو ریوز ایکشن میں اترا تو بھلا لگا، لمبے جزبات سے لبریز ڈائیلاگ بولنے والے کرداروں میں کامیاب نہیں ہوا، ٹام کروز کو آ فیو گڈ مین، لاسٹ سیمورائی جیسی سیریس ڈرامہ فلموں پر اداکاری کے لیے ایوارڈ ملے سراہا بھی گیا مگر یہ اس کی پہچان اور ٹام کروز کا نام ہمیشہ کے لیے ایکشن فلمیں ٹاپ گن اور مشن امپاسبل سے جڑا، مگر کیوں؟ کیونکہ ان سب میں وہ خالص تھا نیچرل اور تصنوع سے پاک۔ ایتھن ہنٹ کے کردار میں اترنے کے لئے اسے بہت کچھ نیا نہیں کرنا پڑا وہ سب اس کے لیے موضوع تھا اور اسی لیے کامیاب رہا۔ عامر خان کی حالیہ ناکامی کی وجہ یہی ہے کہ وہ کردار میں اترنے کے لیے ہر حد تک جاتا ہے جو کسی حد تک چلتا ہے مگر اب وہ اس حد سے بھی آگے نکلنے لگا جسے غیر ضروری حد تک پہنچنا کہتے ہیں۔
بقول پنکج ترپاٹھی اداکاری اور کوکنگ ایک جیسا ہی کام ہے ایک بھی مصالحہ زیادہ یا کم ہوجائے تو بدمزا ہوجاتی ہے۔
ہالی وڈ اور بالی وڈ میں اسکرپٹ کہانی ڈائرکشن اور ایکٹنگ کی ٹریٹمنٹ یکسر مختلف ہے، اگر بالی وڈ رائٹرز انسپشن، شٹر آئی لینڈ، آئیز وائڈ شٹ طرز کی فلموں کی کہانی لکھ بھی لیں تو ڈائریکٹر کہاں سے ڈھونڈیں گے، اور سب سے بڑھ کر بالی وڈ کی ورلڈ وائڈ اور انڈیا دونوں میں آڈینس اس طرز کی فلموں کو دیکھنے سمجھنے سراہنے اور کمرشلی ہٹ کروانے والی نہیں ہے جبکہ ہالی وڈ میں اس طرز کی فلمیں نہ صرف بنتی ہیں بلکہ کمائی کے ریکارڈ قائم کرتی ہیں، اوپن ہائمر تازہ مثال ہے۔
شاہ رخ خان پچھلے پچیس سالوں سے اپنے اسکرپٹ کی چوائس میں ورسٹائل رہا ہے، یاد رہے، اسکرپٹ کی چوائس میں ورسٹائل ہونا اور کردار کا ورسٹائل ہونا الگ الگ ہے، ڈر، ڈوپلیکیٹ، اشوکا، دیوداس، چک دے انڈیا اور ڈئیر زندگی جیسی مثالیں ہیں جن کے زیادہ تر کردار مین اسٹریم بالی وڈ اداکاروں نے کرنے سے انکار کیا کیونکہ یہ ہٹ کر تھے اور ان میں کوئی ہیرو فیکٹر موجود نہیں تھا مگر شاہ رخ نے یہ نبھائے اور بہت حد تک کامیاب رہے۔
شاہ رخ، اداکار کے علاو اپنے فینز میں ایک سے زائد حوالوں سے پسندیدہ ہوسکتا ہے، ہم بچپن نہیں بھولاتے یا بھولتا نہیں ہے ہمیں ہر اس چیز سے انسیت ہے جو ہمارے بچپن کا حوالہ دے، کرن ارجن، کوئلہ اور بادشاہ والا شاہ رخ ہمارے بچپن کا حوالہ ہے، بڑا اسٹار ارتقائی مراحل سے گزر کر بڑا بنتا ہے اور ارتقاء کے عمل کو کوئی موجودہ نسل نہیں دیکھ سکتی کیونکہ اسکا دورانیہ کئی سالوں پر محیط ہوتا ہے، مگر اسے شاہ رخ کی خوش قسمتی کہیں گے جو کہ وہ خود اپنے بارے میں کہتا ہے کہ شاہ رخ کا بطور اداکار ارتقاء ایک سے زائد نسلوں نے دیکھا وہ ماضی کا وہ حصہ نہیں بنا جسے حال میں سمجھنے کے لیے مستقبل کا انتظار رہے۔ جیسے ہم نے راجیشن کھنہ بطور ماضی کا میگا سپر اسٹار سنا ہے، دیکھا نہیں اسی لئے اس سے کونیکٹ نہیں ہو پائے۔
شاہ رخ اب اپنے کیرئیر کے جس ارتقائی دور میں ہے جو فلم دل والے سے شروع ہوکر پٹھان تک آیا اور اب جوان میں داخل ہوا اسے ہم شاہ رخ کا "کئیرلس اسکرپٹ چوائس ایرا" کہیں گے، جس کا مقصد محض کمرشلی ہٹ فلمیں جو چند مہینوں کے لیے باکس آفس کے نمبر گھما کر جھاگ ہوجائیں، جن کا امپیکٹ وقتی ہو، جن کا اثر لمحاتی ہو اسکرپٹ پلاٹ ٹوسٹ اتنا اُتھلا ہو کہ جس پر مختلف انداز سے گفتگو کرنے کا کوئی پہلو ہی نہ نکل سکے۔
ہم سلمان اکشے اور اجے وغیرہ کی فلم اسکرپٹ چوائس پر بات نہیں کر رہے ان سے کوئی واسطہ نہیں ان کی فلموں کو ہٹ ہونے میں فلم اسکرپٹ کا کردار واجبی تھا، ہم بات شاہ رخ کی کر رہے جس کو اداکاری سے زیادہ اسکی فلموں کے اسکرپٹ چوائس نے منفرد رکھا، وہ ایکشن ہیرو نہیں تھا، کیا وہ رومنٹک ہیرو تھا؟ بحث ہوسکتی ہے۔ مگر وہ بول چال والا لمبے ڈائیلاگ میں بور نہ کرنے والی فلمیں محبتیں، کل ہو نہ ہو، ویر زارا قسم والا اداکار تھا۔
شاہ رخ نے چند ایکشن فلمیں رام جانے ٹائپ پہلے بھی کی مگر ان سب میں بھی ایک منفرد اسکرپٹ تھا جو اگر کہیں ہالی وڈ کا چربہ بھی تھا تو اس میں شاہ خان فیکٹر نظر آتا تھا مگر اب پٹھان اور پھر جوان اس میں شاہ رخ تو ہے شاہ رخ فیکٹر بھی ہے مگر اسکرپٹ اور اداکاری پر بغیر سر پیر والے تیلگو ایکشن کا رنگ گہرا ہے جس میں کوئی تاثیر کوئی نیا پن کوئی دیرپا اثر والے عناصر نہیں۔
شاہ رخ کا عمر سے کوئی لینا دینا نہیں، ہوسکتا ہے وہ اگلے بیس سال میں بھی ایسا ہی نظر آئے شاہ رخ کو اب اداکاری میں کچھ ثابت کرنے کی ضرورت بھی نہیں وہ بس اب جس مقام پر ہے اس پر قائم رہنے کی کوشش میں ہے اور اس میں اسے کامیابی شاید یوں ہی مل سکتی تھی جس طرز کی فلمیں وہ ہر چار ماہ بعد ریلیز کر رہا ہے، سینما ھال میں نام گونجتا ہے شاہ رخ کے نام کے ساتھ فلم ٹرینڈ پہ رہتی ہے پروڈیوسر جو کہ اسی کے گھر کی ہے وہ بھی خوش اور آڈینس تو ہر وہ کچھ دیکھ لے گی جس میں شاہ رخ ہے تو بظاہر سب راضی، مگر زوم آؤٹ کریں اور بڑے کینوس پر شاہ رخ کی موجودہ فلموں کو رکھیں اور دیکھیں کہ اس میں ہے کیا سوائے فضولیات کے اور شاہ رخ کا اپنے ہی لیول سے نیچے آکر بدھے اسکرپٹ پر فلمیں بنانا اور آڈینس کو وہ انٹرٹینمنٹ دینا جو یوٹیوب پر پڑی وہ کسی تامل فلم سے کشید کرسکتی ہے۔
پٹھان اور جوان سے نکلا شاہ رخ کا یہ سلسلہ رکنے والا نہیں اور ڈر یہی ہے کہ یہ زیادہ دیر چلنے والا بھی نہیں اگر اسے مزید سمجھنا مقصود ہو تو امیتابھ بچن کی مثال سامنے رکھ لی جائے۔