Raymond Reddington
ریمنڈ ریڈنگٹن
بریکنگ بیڈ کا سادہ لوح اسکول کمسٹری ٹیچر والٹر وائٹ کا میکسیکو کے باڈر سے پورے امریکہ میں ڈرگ لورڈ مینوفیکچرر ہائزنبرگ بننے کا ارتقاء ہو، نفیس تراش خراش میں لپٹا میڈز مکلسن ڈاکٹر ہنیبل لکیٹر کا روپ دھارے انسانی جسم میں ہاتھ ڈال کر خون میں لتھڑے اعضاء کو نچوڑ کر کھانے کی میز پر سجاتا ہو یا سپرینوز میں مافیا ڈان ٹونی سپرینو صبح اپنے بچوں کے ماتھے پہ بوسہ دیے انہیں اسکول چھوڑے اور دوپہر سے پہلے ہی درجنوں بچوں کے سر سے ان کے باپ کا سایہ اٹھا لے اور اپنے بچوں سمیت فیملی کو اپنے کام کی بھنک تک نہ پڑنے دے۔
اس طرز کے بیک وقت کولڈ، حساس، چارمنگ اور خطرناک حد تک الجھی مورل ویلیوز رکھنے والے کرداروں کو نبھانے کے لیے جو اداکار چنے گئے، وہ امر ہوئے۔ ان کے کیرئیر میں یہ کردار ونس اِن آ لائف ٹائم آپرچونیٹی بن کر آئے اور انہوں نے یہ موقع ضائع نہیں کیا، یہ کردار ایسے نبھائے کہ جیسے یہ صرف یہی نبھا سکتے تھے اور دوسرا کوئی اداکار ان کے رولز میں تصور کرنا بھی ناممکن تھا۔
اسکرپٹ میں کاغذ پہ لکھا کردار بےجان ہوتا ہے یہ پہلے آڈینس کے پاس ناول کی صورت میں نہیں پہنچا ہوتا کہ جسے پڑھ کر وہ کردار کے متعلق ذہن میں ایک خاکہ بنا لیں، یہ رائٹر اور اس کے گرد پروڈکشن کا محدود سا سرکل سر جوڑے یہ سوچ رہا ہوتا ہوتا ہے کہ اس لکھے ہوئے کردار کو نبھانے کے لیے کونسا ایسا چہرہ لایا جائے جو اس میں روح پھونک دے، جو کردار میں ایسے ڈھلے کے کردار کے ارتقاء میں کوئی جھول نظر نہ آئے اگر ہو بھی، تو نظر نہ آئے۔
یہ حسن کاسٹنگ ڈائریکٹر کی سلیکشن کا کہیے یا صیحیح وقت اور موقعے پہ صحیح انسان کی موجودگی کا کہ جو اس طرز کے لکھے کرداروں کو اس طرز کے اداکار مل گئے۔
ٹی وی شو، بلیک لسٹ کا ریمنڈ ریڈنگٹن ایک ایسا ہی کردار ہے جس کے کاندھے پر پورے دس سیزن استوار ہیں۔ ایسا بہت کم ہو پاتا ہے کہ ایک کریکٹر دیرپا دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں باندھ کر رکھے، اور ایسا تو بہت ہی کم ہوتا ہے کہ اگر وہ کچھ نہ بھی بولے تب بھی اسے اسکرین پر فقط چلتا پھرتا دیکھنے کے لیے اگلے سین کا انتظار ہو۔
پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر سے پیدا ہوئے ریڈنگٹن مے کردار میں ہر رنگ نمایاں ہے، ذہانت، تدبر، نفاست سلیقے سے بات کرنے کا اور ہوشیاری سے بات منوانے کا ہنر بدرجہ اتم موجود ہے اور وہ اپنے بارے میں یہ جانتا بھی ہے کہ وہ کس قابل ہے۔ ٹراما بے حس انسان کو حساس ترین بنا سکتا ہے اور حساس انسان سے بے حسی کی ہر حد پھلانگ کر پتھر کا بت بنا سکتا ہے، ٹراما نے ریڈنگٹن کا بت تراشا، مگر اتنا ہی جتنا ریڈنگٹن نے چاہا۔
چوبیس سال کی عمر میں یونائٹیڈ اسٹیٹ نیول اکیڈمی میں اپنے بیچ کا ٹاپر گریجویٹ ریمنڈ ریڈنگٹن جسے ایڈمرل کے عہدے کے کے لیے تیار کیا جا رہا تھا 1990 کی ایک ٹھٹھرتی کرسمس کی شام میں گھر جاتا ہے اور واپس چار سال بعد دوبارہ سامنے آتا ہے، اور کچھ ایسے آتا ہے کہ امریکن فیڈرل بیورو کا ہر فرد ششدر رہ جاتا ہے۔ ریڈنگٹن کے نام دشمن کو خفیہ دستاویزات اور اسلحہ سمیت ہر وہ شے بیچنے کا جرم ہے جو بیچنے کی نہیں تھی۔ نیول اکیڈمی کا سابقہ ٹاپر گریجویٹ غدار قرار پایا، اور پھر اگلے 20 سالوں میں اس نے جاسوس، ڈکیتوں، اسمگلرز، منشیات مافیا، ہیومن ٹریفکنگ، اسلحے کی تسکری، جعل سازی، ہیکرز، کرائے کے قاتلوں اور دہشت گردوں کا ایسا نیٹورک بنایا جس کا دائرہ ماسکو، اسلام آباد اور بیجنگ تک پھیلا۔
ریڈنگٹن کی ناک دنیا کے ہر گورنمنٹ سے لے کر پرائیویٹ سیکٹر میں گھسی تھی، اور کوئی ایسی صنعت نہیں تھی جو اس کی دسترس سے باہر تھی، بشمول ٹیکنالوجی، شپنگ، کمیونیکیشن، سیکورٹی/ملٹری کنٹریکٹنگ اور فارماسیوٹیکل۔ وہ راز بیچنے سے جنگیں شروع کرنے، حکومتوں کو گرانے اور اپنی ضروریات کے مطابق جغرافیائی سیاست پر اثر انداز ہوتا۔
بلیک مارکیٹ میں اپنی متاثر کن زبان اور سموتھ سودے بازی کی صلاحیت کی وجہ سے وہ جرائم کی دنیا کا دربان مشہور ہوا۔ وہ فیڈرل بیورو کی لسٹ میں پہلے چوتھے نمبر پر، اور بعد میں، ٹین موسٹ وانٹڈ مفرور کی فہرست میں پہلے نمبر پر تھا۔
ریڈنگٹن کے ہاتھ میں رابطے کی کڑیاں تھیں، اس کا حسن اور فن بیس سال سے دنیا کی ہر اکانومی میں بنایا اسکا نیٹورک تھا۔ وہ ہر طرز کے کرائم میں سہولت کار تھا، بلیک مارکیٹ میں اس کے ریٹ ہائی تھے وہ جرم میں لگنے والا ہر خام میٹیریل مہیا کرسکتا تھا، دو ملکوں نے جنگ لڑنی ہو تو وہ بیک وقت دونوں کے لیے جنگی سامان مہیا کر سکتا تھا، کسی ملک کی سائبر اسکیورٹی تک رسائی حاصل کرنی ہو تو خود ٹیکنالوجی سے دور رہنے والا ریڈنگٹن کروا سکتا تھا۔ پوشیدگی اور پراسراریت میں ڈوبا ریڈنگٹن کہتا تھا وہ اس لمحے بھی کام آسکتا ہے جس لمحے خدا بےبس ہو۔
سماجی ضابطوں کی ڈور دانتوں سے کترتا، قانون کے تقدس کو بے توقیر کرتا، دل کو شعلہ اور زبان کو ہردم برف پر رکھے بھرے کمرے میں موجود تمام افراد سے تین قدم آگے رہنے والے ریڈنگٹن کا بولنا تو سحر انگیز ہے ہی مگر اسکے پہناوے میں رکھ رکھاؤ اور نفاست کے ایکسٹرا نمبر ہر دم موجود رہتے ہیں۔
کم نہ زیادہ، ساڑھے پانچ فٹ قد، دونوں جانب گوشت سے بھرے ہم آہنگ گال جو ہنسنے پر اوپر کی جانب اٹھ کر آنکھوں میں دھنستے نہیں بلکہ ہونٹوں کے ساتھ پھیل کر کھلے جبڑے میں ترتیب سے جُڑے دانتوں کو واضح کرتے ہوئے خوشنما دکھائی دیں، سر اور ماتھا بالوں سے خالی، مگر ایسا خالی پن شاید ہی کہیں اور جچا ہو۔ اگر بال ہوتے تو شاید ماتھا اتنا پرکشش نہ دکھائی دیتا۔
ریڈنگٹن لباس پہننے کے انداز میں بے حد پیچیدہ، ہمیشہ اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ لباس موقع کے مطابق ہو۔ عام طور پر ہاتھ سے سلا ہائی اینڈ تھری پیس سوٹ، ٹائی (عام طور پر رنگین)، اطالوی چمڑے کے جوتے، اور اس کے ساتھ اپنی ٹریڈ مارک گلابی رنگ کے شیڈ والی عینک اور فیڈورا کیپ، کیپ کے متعلق ریڈنگٹن بڑا حساس واقع ہوا ہے وہ کہتا ہے کہ دھیان رہے ہر سر اور چہرا کیپ کے لیے نہیں بنا ہوتا۔ کبھی کلائی ننگی نہیں چھوڑتا ہمیشہ کلائی پہ گھڑی باندھتا ہے۔
ویسے تو فنکشن پر منحصر ہے مگر اپنی مرضی کے مطابق ٹکسڈو بھی پہن لیتا ہے۔ وہ یا تو سوٹ کے اوپر نیلے رنگ کا ونڈ بریکر پہنتا ہے یا سردی کی صورت میں اوور کوٹ پہنتا ہے۔ اس کے پاس بہت ٹھنڈے درجہ حرارت کے لیے کھال سے تراشی ہوئی پارکا جیکٹ بھی ہے۔ چونکہ وہ ایک ماسٹر مجرم ہے، اور زیادہ تر اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث رہتا ہے تو وہ بےتکا لباس بھی پہن لیتا ہے، اگر اسے ماحول میں گھل مل جانے کی ضرورت ہو تو چمکدار لباس کے قریب بھی نہیں بھٹکتا۔
ریڈنگٹن کو کچھ بھی سمجھا جاسکتا ہے مگر کسی بھی لمحے کمزور نہیں سمجھا جاسکتا، وہ ایک انتہائی بے رحم قاتل بھی ہے جس کو قتل کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہے اور اکثر مقتول کی موت پر مسکراہٹ کے ساتھ قہقہہ بھی لگاتا ہے، ہاں لیکن وہ بلا ضرورت اپنی خوشی کے لیے قتل نہیں کرتا اور نہ ہی وہ تمام جرائم کو ختم کرنے کے لیے سرے سے جرائم پیشہ لوگوں کی نسل کشی کرنے جیسا پاگل پن رکھتا ہے، بلکہ وہ جرائم پیشہ افراد کو معلومات حاصل کرنے کے لیے ایک مؤثر ذریعہ کے طور پر دیکھتا ہے جس سے مزید بلیک لسٹر مجرموں کی نشاہدہی ہوسکے۔
ریڈنگٹن لوگوں کو مارتے وقت تقریباً کوئی ہمدردی ظاہر نہیں کرتا، اس نے خود کہا کہ جب وہ کسی کو مارتا ہے تو وہ اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ وہ کیسا محسوس کرتا ہے۔ اس نے گولی ماری، خنجر گھونپا اور ان کا دم گھٹا کھیل ختم لیکن وہ مارنے سے پہلے ان کے ساتھ مذاق نہیں کرتا کیونکہ یہ بے عزتی اور بدتمیزی ہے اور ریڈنگٹن نہ خود بدتمیز ہے نہ بدتمیزی کرنے والوں کو زندہ چھوڑتا ہے۔
انسان کے علاوہ شاید کوئی اور نوع زمین پر پائی جاتی ہوں جو محبت اور وعدہ نبھاتے ہوئے اپنا سب کچھ دان کرنے کا جزبہ رکھتی ہو، جو محبت کی ایک نظر پہ اپنا حق اپنی انا اپنے اندرون کی میں سے دستبرداری دے۔ ریڈنگٹن جیسے پہاڑ کو ایک ایسے ہی کمزور لمحے میں محبت کے ہاتھوں دیے وعدے نے بیس سال کی کمائی سلطنت سے دستبردار ہوکر ایک چمکتی صبح ایف بی آئی کے داخلی دروازے پر دونوں ہاتھ گردن کے پیچھے دیے زمین پر ٹخنے جھکائے مفروری سے گرفتاری پر آمادہ کردیتی ہے۔
یہاں سے وہ جرائم کی وہ بلیک لسٹ ایف بی آئی کے حوالے کرنے لگتا ہے جو اس کو ہر بار موت کے داہنے پر لاکھڑا کرتی ہے، ریڈنگٹن جیسی قیمتی جان الزبتھ کین نامی لڑکی پر قربان ہونے کو ہمہ وقت تیار ہے۔ مگر کیوں؟
یہ سوال اتنا الجھا ہے کہ جس کا جواب دیتے دیتے ریڈنگٹن کے کئی روپ کُھلتے ہیں۔ کہیں ہمیں کمزور ریڈنگٹن ملتا ہے، کہیں زنجیروں میں جکڑے گیارہ سالہ سیاہ فام بچے کی بیڑیاں توڑ کر اسے اپنا بیٹا، اپنا خون کہہ کر اپنے سائے کے ساتھ رکھتا ہمدردی میں ڈوبا ریڈنگٹن ملتا ہے، کہیں مخالفوں کے ہاتھ لگا، رسیوں میں بندھا ریزہ ریزہ خون سے تر بے بس ریڈنگٹن ملتا ہے، ریڈنگٹن کہیں انتقام ہے، کہیں سمجھوتہ۔ کہیں خوش ہے تو کہیں پرنم۔ کہیں وہسکی کے جام ٹکراتا رونقِ محفل ہے تو کہیں اندھیرے میں ڈوبا گلاس کو تکتا تنہا ریڈنگٹن، ریڈنگٹن پر ہر رنگ جچا سوائے موت اور بےبسی کے۔۔
ریڈنگٹن کو یقین نہیں ہے کہ وہ ایک نفسیاتی مریض ہے۔ اس کی نظر میں، اس نے مجرمانہ دنیا میں جو کچھ کیا ہے وہ سب اس کے خاندان کے قتل کا اثر ہے۔ ریڈنگٹن زمانے کی دین ہے جو ذہر اس نے نگلا وہ اس کا دوگنا چوگنا کرکے لوٹا رہا ہے۔ اس نے اپنے ملک اور اپنے کیریئر سے منہ موڑ لیا کیونکہ وہ کسی نہ کسی طرح اس کے خاندان کے خاتمے کے ذمہ دار تھے۔ وہ اپنی الگ جداگانہ اخلاقیات کے ساتھ کام کرتا ہے، جو کے بیشتر کریمنل اور سیریل کلر کرتے ہیں اور جسے کوئی بھی معاشرہ نہ سمجھ سکتا ہے نہ متفق ہوپاتا ہے۔
ریڈنگٹن کا کردار لکھنے سے زیادہ اسے نبھانے والے جیمز اسپیڈر کا سر پہ سوار ہوتا حسن اور دل میں پیوست ہوتا انداز ہے جو اس شو کو زندہ کیے ہوئے ہے، ورنہ امریکن FBI کریمنل، خفیہ مشن اور نجات دہندہ ہیرو جیسے اسکرپٹ پر ہر ہفتے کوئی نہ کوئی فلم اور سیریز بنی پڑی ملتی ہے۔
پورے شو بلیک لسٹ کی ایک قسط سے بھی ریڈنگٹن نکال دیں تو مایوسی ہے، دیکھنے والوں نے پورے دس سیزن بھی دیکھ رکھے ہیں اور چھوڑنے والوں نے پائلٹ دیکھ کر بھی چھوڑا ہوا ہے ہر کسی کا اپنا مزاج ہے مگر شو اکثریت میں پسندیدہ ہے کیونکہ کہانی اور پلاٹ عامیانہ ہے جس کا محور وہی دقیانوسی ایف بی آئی کی انوسٹیگیشن، عین آخری سیکنڈ میں بم ڈسپوزل کرنے والا تجسس اور مجرم تک رسائی حاصل کرنے کے کلیشے زدہ طریقے ہیں۔
ایک بات طے ہے کہ شو کی ایک سے دو اقساط دیکھنے کے بعد ریڈ ریڈنگٹن کا فین ہونا اور اس کے لب و لہجے کا ٹھہراؤ کاپی کرنا ویورز کے لیے ناگزیر ہے۔