Muft Ki Dolat Ke Nuqsan
مفت کی دولت کے نقصان
مال و متاع آسانی سے میسر آیا ہو تو شوق عامیانہ ہوجاتے ہیں، امیر باپ کی بیشتر اولاد شہوت ہوس اور نشے سے آگے بہت کچھ کرنے کی سہولت دستیاب ہونے کے باوجود بھی کچھ نہیں کرتی، کسی مخصوص معاشرے میں جہاں یہ کلاس پروان چڑھتی ہے وہاں کی ترجیحات خواہشات اور مرحومیت کی اثر پذیری ان کی صلاحیتوں اور شوق کے پنپنے میں کار فرما رہتی ہے۔
ہمارے معاشرے کی امیر کلاس جس کا زیادہ تر تعلق بیوروکریسی سے ہے ان کی اولاد میں روپے سے بد سے بدترین شوق پالنے اور پورا کرنے کا رجحان بدرجہ اتم ہے۔ امیر بچوں کے نام تھانوں کے رجسٹرڈ پر اترنے سے پہلے تھانے سے رجسٹر غائب کروا لیے جاتے ہوں تو ایسے میں کوئی ایک لسٹ نہیں مل سکتی جس سے ریکارڈ بنا کر اس چیز کا اندازہ ہوسکے کے سوسائٹی میں ایسے کیسز کی تعداد کتنی ہے جن کے پیچھے کھڑے مجرم کی ولدیت میں شہر کے رئیس انسان کا نام درج ہے۔
پیسے کا استعمال غریب اور مڈل کلاس کے لیے الجھن ہے تو امیر کے لیے تذبذب ہے مگر اس کی نوعیت الگ ہے جسے اکثر غریب اور پسا ہوا طبقہ سمجھ نہیں پاتا۔
شوق اور ہنر میں فرق ہے، ایک شوق ہے کہ گٹار سیکھنی ہے، طبلے میں ماسٹر ہونا ہے تو اس شوق کی نوعیت مختلف ہے، سرمایہ دارانہ نظام میں لطیفہ سنانا بھی ہنر ہے، آمدن کا مستقل ذریعہ اور اربوں کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کا حصہ ہے تو اسی طرح یہ میوزک سیکھنے کا شوق اپنی نوعیت میں ایک ہنر کا درجہ ہے، جس پر محنت لگتی ہے، دماغ کی تمام تر باریکیوں کو کام میں لانا پڑتا ہے یعنی کہ یہ ریاضت والے شوق/ہنر ہیں جس میں پیسہ صرف ایک اچھا استاد دے سکتا ہے ماحول دے سکتا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتا۔
مگر دوسری جانب، کسی ملک کے سفر پر نکلنا، کوئی بحری جہاز خرید کر رقص و سرور کی محفل کا اہتمام، من چاہے مشروب و جسم تک رسائی اس جیسے دیگر شوق کی تکمیل میں زرا برابر دماغی ہنر جسمانی مشقت ذہنی الجھن ناکامی کے ہارمونز لگن کی مقدار ریاضت کی عادت وغیرہ جیسے عناصر نہیں چاہیے ہوتے، پیسہ آپ کے یہ تمام شوق بخوبی انجام دیتا رہتا ہے۔
جن کے پاس پیسہ ڈھیروں میں اور بغیر مشقت کے آیا ہو ان کے شوق میں ہنر کا ایلیمنٹ صفر ہوتا ہے، تخیل منجمد ہوجاتا ہے وہ کتابیں نہیں پڑھتے، وہ ادیبوں سے ملنے کی خواہش نہیں رکھتے، وہ خود کچھ لکھنے کا شوق نہیں پالتے، وہ جھیل کنارے خیمہ لگا کر کوکنگ کرنے جیسی فینٹسی نہیں رکھتے، ان میں کے ٹو سر کرنے کی خواہش نہیں جاگتی، وہ شعر سمجھنے کی صلاحیت نہیں سیکھتے، ان کے شوق عامیانہ کلیشے اور جسمانی نقصان دہ ہوتے ہیں۔ ان میں اموشنل انٹیلیجنس غائب ہوتی ہے یا کم ہوتی ہے۔
آسان اور وراثت سے منتقل ہوئی دولت تک ان کی رسائی کرائم میں ڈوبا دیتی ہے، یہ قہر ڈھاتے ہیں اور اکثر سیلف ڈسٹرکشن کی راہ پر نکل جاتے ہیں۔ ہمارے اردگرد مثالیں بکھری پڑی ہیں، ہر ماہ ایک ایسا بڑا سکینڈل جو انسانیت سوز ہو، جس میں کسی غریب کا ناحق قتل ہو، کسی لڑکی کی عصمت دری ہو، کسی سوئے ہوئے کو سڑک کنارے گاڑی کے ٹائر سے کچلنے کا واقع ہو، نشے میں دھت کوئی پولیس کے ہاتھ بری حالت میں لگا ہو ان سب میں کوئی کسی رئیس گھرانے کے کم عمر سپوت کا نام ملتا ہے۔
والدین چاہے امیر ہو یا غریب وہ قطعاً نہیں چاہتے کہ ان کی اولاد ایسے شوق پالے جو اُنہیں رسوا کرے اور غم میں مبتلا رکھے، حتی کہ چور بدمعاش قاتل بھی اپنی اولاد کو ان کاموں سے بچا کے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، اکثر تو امیر والدین بچے کی پرورش مڈل کلاس گھرانوں کی طرز پر کرتے ہیں، عام سکول میں بھیجتے، گاڑی نہیں دیتے پیسے بے حد نہیں دیتے مگر یہ رویہ بھی اولاد میں نفرت اور والدین سے ہی دشمنی جیسے جزبات پیدا کرکے بچوں کو ذہنی بیمار کردیتا ہے۔
امیر کی اولاد اسکا سب سے بڑا امتحان ہے، مناسب تربیت کا درمیانی راستہ چننا والدین کے لئے بے حد مشکل ہوتا ہے، ایسی صورت میں تو ناممکن ہوتا ہے جب والدین نے اپنی دولت اسٹیٹس اور سوسائٹی میں مقام غلط زرائعوں سے پیدا کیے ہوں یا انہیں بھی دولت وراثت میں ملی ہو۔
وراثتی دولت کے گھنے جنگل میں پھلدار بوٹے کم ہی پروان چڑھتے دیکھے ہیں۔