Jubilee A Tale Of Bombay Talkies (1)
جوبلی اے ٹیل آف بمبے ٹاکیز (1)
کچھ چیزیں بڑے خلوص سے بنتی ہیں اور اتنی ہی بےدردی سے بکھرتی ہیں مثالیں بہت ہیں مگر انڈیا کا قدیم اور اب تک ناپید ہوچکا فلم اسٹوڈیو بمبے ٹاکیز اسی خلوص اور چاؤ سے بنا اور جب بکھرنے پہ آیا تو ایسا بکھرا کہ اس کے ٹکڑے آج تک سمیٹے جارہے ہیں۔
ہر چیز اپنی پیدائش کے ساتھ ہی بکھراؤ اور مرگ کی طرف گامزن ہونے لگتی ہے۔ شے جتنی قد آور اور عالیشان ہو وقت کا قہر اس پر اتنی ہی آہستگی سے وار کرے گا یہ وقت کا اس شے کے عظیم مرتبے کا احترام نہیں بلکہ عظیم چیزوں کو ٹھہر ٹھہر کر ٹکڑوں میں گرانا وقت کی لطف اندوزی کا ذریعہ ہے۔
بمبے ٹاکیز فلم اسٹوڈیو کی دیواریں 1932 میں بمبئی شہر سے دور پرسکون مضافاتی گاؤں' ملاڈ ' میں کھڑی کی گئی۔ جدید مشینری منگوائی گئی، کیمرہ مین ڈائریکٹر اور ٹیکنیشن کا عملہ جرمنی سے ملاڈ کے بمبے ٹاکیز میں لایا گیا۔ بمبے ٹاکیز میں پورا بمبے شہر لا بسایا۔ اس جہاز کا نا خدا، اس قلعے کا تخت نشین اور موجودہ بالی وڈ کو بمبے ٹاکیز کے بطن سے جنم دینے والا بمبے ٹاکیز کا گاڈ فادر ہمانسو رائے تھا۔
ہمانسو رائے یہ نام اپنے آپ میں ایک علیحدہ سیارہ تھا، وہ دنیا گھوما نگر نگر پھرا، جرمنی سے فلم کے اسرار و رموز سیکھے، اک جرمن سے ہی شادی کی، طلاق ہوئی، پھر وہیں فلمیں بنائیں مشہور ہوا پھر اپنے سے دس برس چھوٹی دیوکا رانی سے دوسری شادی کی اور دونوں بمبے لوٹے اور یہاں سے اُس فلمی کارخانے کی شروعات ہوئی جس کی پروڈکٹ میں اشوک کمار، راج کپور، دلیپ کمار جیسے نام نکلے۔
ایمازون پرائم کا سیزن ' جوبلی ' بمبے ٹاکیز کے عروج و زوال کامیابی و ٹریجڈی کی داستان تاریخ کے لبادے پر فکشن کی سلائی سے سِل کر پیش کیا گیا ہے۔
ایک طرف دیوکا رانی کی داستان ہے جو ہندی سنیما کی پہلی ہیروئن تھی جس کے مدمقابل کوئی دوسری ہیروئن تھی ہی نہیں تھی جس کا رول ہیرو سے بڑا ہوتا تھا اور ساتھ میں بمبے ٹاکیز میں اپنے شوہر ہمانسو رائے کے ساتھ بطور بزنس لیڈی بھی نظام دیکھتی۔
ذہین عورت تھی اور خوبصورتی قدرتاً مہرباں تھی۔ ذہانت اور خوبصورتی کا یہ ڈیڈلی امتزاج محبت میں پڑ گیا اور محبت بھی اگلے لیول کی یعنی عشق۔ دیوکا رانی کا ذہین دماغ اور حسین سراپا اپنی ہی ایک فلم کی شوٹنگ میں آئے مدمقابل ہیرو نجم الحسن پر فریفتہ ہوگیا۔ نجم الحسن کل کا لڑکا اور دیوکا رانی بمبے ٹاکیز کے مالک کی بیوی یہ جوڑ غریبی اور امیری سے ہٹ کر بے وفائی اور بے وفائی بھی ایکسٹرا میرٹل افیئر والی پر استوار تھا۔ دونوں بمبے ٹاکیز سے کراچی کی ٹرین پر بھاگ نکلے۔۔ بقول منٹو کے۔
"نجم الحسن دیوکا رانی کو اُڑا لے گیا"
اب منٹو کا بمبے ٹاکیز سے کیا رشتہ تھا اسکا بیان آگے کرتے۔
ایمازون کا سیزن جوبلی تقسیم سے پہلے، بیچ اور فوراً بعد ابھرنے والے فلمی ہیروز اور ہیروئنز کی بیک اسٹوریز سے انسپائر ہے۔ اس میں پہلا کردار مدھن کمار عرف بندود داس کا ہے۔
جب دیوکا رانی نجم الحسن کے ساتھ فلم کی شوٹنگ کے درمیان کراچی کی ٹرین سے بھاگ گئی تو ایک تو چلتی فلم کی شوٹنگ رک گئی دوسرا ہمانسو رائے بیوی کی بے وفائی سے ٹوٹ گیا، اسی دوران ایک بائیس سال کا لڑکا جو بمبے ٹاکیز میں ہی بطور ٹکنیشن بغیر تنخواہ کے کام کررہا تھا اچانک سے بہت سے بیچ کے ذریعوں سے ہمانسو رائے کے سامنے لایا گیا، نین نقش بھلے تھے اور ہمانسو رائے اس طرح کے رسک لینے کے لیے مشہور تھے اور سب سے بڑھ کر انہیں نجم الحسن بطور ہیرو کے فلم میں رپلیسمنٹ کی اشد ضرورت تھی، ادھر کچھ ہمانسو کے خیر خواہ دیوکا رانی کو بے وقت عمر کے بپھرے عشق سے کسی طرح کھینچ کر بمبے ٹاکیز میں دوبارہ لانے میں کامیاب ہوئے اور یوں اِس رکی فلم کی بکھری کاسٹ کو پھر سے یوں جوڑا گیا کہ ہیروئن دیوکا رانی کے ساتھ اُس نئے لڑکے کو بطور ہیرو اتارا گیا۔ فلم بن گئی اور فلاپ گئی وہ لڑکا ہٹ ہوگیا اور لڑکا کئی دہائیوں تک فلمی دنیا میں اشوک کمار کے نام سے چمکا۔ اسی اشوک کمار کے چھوٹے بھائی کو دنیا کشور کمار سے جانتی ہے۔
فلم میں بنود کا کردار اشوک کمار سے انسپائر ہے، جسے اپرشکتی کھرانہ جیسے لاعلم اداکار نے ایسا نبھایا کہ وہ اب اس کی ایکٹنگ سی وی میں بولڈ کرکے لکھا نظر آئے گا۔
اگلا کردار بٹوارے کی خاک چھانتے رفیوجی، جے کھنہ کا ہے۔ جو فلم ڈائریکٹر بننا چاہتا ہے مگر آب و ہوا اس کے لیے ناسازگار ہے یہ کردار واضح طور پر ہندی سینما کے کم عمر ترین ڈائریکٹر راج کپور کی جھلک ہے۔
ایک ست رنگی کردار نیلوفر کا ہے۔ الھڑ، آزاد، شاطر دماغ اور بھولا چہرہ لیے نیلوفر کے کردار میں بمبے ٹاکیز کی فلموں میں کام کرنے والی درجنوں ہیروئنوں کا مسکچر ہے۔ یہ کردار کہیں مے نوش مینا کماری کی یاد ہے، کہیں ہوشربا زینت امان کا عکس تو کہیں شوخ و غمگین مدھو بالا کی داستانِ حیات ہے۔ نیلوفر کے اس کردار میں پنجاب سے ومیکا نامی نئے چہرے نے ایسا انصاف کیا ہے کہ ریل گاڑی سے اترتے بیگ ہاتھ میں تھامے اپنے پہلے ہی انٹری سین سے آخری سین تک دیکھنے والی نگاہیں اس چہرے کو بار بار اسکرین پر ڈھونڈتی رہتی ہیں۔
دیوکا رانی کا کردار آسان تھا کاسٹنگ ڈائریکٹر کو بس ایک خوبصورت شاہی رکھ رکھاؤ والا چہرہ چاہیے تھا جو ادیتی رائے حیدری کے علاوہ اور کس میں ہوسکتا تھا تو دیوکا رانی کا کردار ادیتی نے اوڑھ لیا اور اس پر نہایت سجا بھی۔