John Hendrick Aur Aaj Ke Course Sellers (1)
جان ہینڈرک اور آج کے کورس سیلرز
ابراہم لنکن نے کہا "آپ کچھ لوگوں کو ہر وقت بیوقوف بنا سکتے ہیں، اور تمام لوگوں کو کچھ وقت میں، لیکن آپ تمام لوگوں کو ہر وقت بے وقوف نہیں بنا سکتے"۔
اسے عالمگیر فیکٹ کہہ لیں یا قدرتی میکانزم کا نام دے لیں مگر حقیقت صدیوں سے اب تک ہر فراڈ اور دھوکہ دینے والے کا تعاقب کرکے اسے کسی وقت اور مقام پر دبوچ لیتی ہے۔ کسی جھوٹے دعوے اور دکھاوے کو حقیقت سے مفر ممکن نہیں۔
سائنس کی فیلڈ میں ہونے والی تمام ریسرچ اور ریسرچرز کو بے حد سخت ضابطوں اور مسلسل امتحانات سے گزار کر درست تسلیم کیا جاتا ہے کسی ایک سائنسی پہلو کی دریافت اور تصدیق کے لیے تحقیق کرنے والوں کی زندگیاں لگ جاتی ہیں۔ کوئی فیک ریسرچ کرے اور اس پر درست ہونے کی تصدیق سائنسی کمیونٹی سے کروا لے یہ ناممکنات میں سے ہے۔ مگر سن دو ہزار دو میں سائنسی فیلڈ کا یہ بھرم اور غرور شاید پچاس برس میں پہلی بار اس درجہ چالاکی سے ایک شخص نے توڑا کہ سائنس کے ریسرچ حلقوں میں آج تک اس کے قصے سنائے جاتے ہیں اور طالبعلموں کو اس کی مثال دے کر ڈرایا جاتا ہے۔
جان ہینڈرک (jan hendrik schön) جرمنی کا ایک فزیسٹ تھا۔ جس کی ریسرچ فیلڈ کا فوکس کنڈیسڈ میٹر اور نینو ٹیکنالوجی تھا۔ جان 1997 تک بالکل عامیانہ اور گمنام سا ایک طالب علم تھا جس نے اپنے شعبے میں بغیر کسی اعزازی کام اور گریڈز کے گریجویشن مکمل کی۔ پھر جرمن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی شروع کی، پی ایچ ڈی کے دوران اس کے جرمن سپروائزر نے اسے امریکہ کی مشہور زمانہ بیل لیب (جو گراہم بیل کے نام پر ہے) میں انٹرنشپ کے لیے بھیج دیا۔ یاد رہے، جان کی لیب تک رسائی مکمل اتفاق تھی اور صیحیح وقت اور جگہ پر اسکی موجودگی اس کی وجہ بنی۔ جان کے سپروائزر نے جان کی بجائے دو ہونہار ڈاکٹریٹ اسٹوڈنٹس کو امریکن بل لیب میں کام کے لیے منتخب کیا تھا مگر انہوں نے ذاتی وجوہات پر وہاں جانے سے انکار کردیا اور یوں پروفیسر کے پاس جان کے علاوہ بھیجنے کو کوئی آپشن نہیں بچی۔
اٹھائیس سالہ جان ہینڈرک، اب دنیا کی معتبر ترین ریسرچ لیب کا حصہ تھا۔ وہ اپنی فیلڈ میں بوڑھے ہوئے فزیسٹ کے ساتھ لیب میں رہتا، انہیں قریب سے ریسرچ کرتا اور سائنٹیفک پیپر لکھتا دیکھتا۔ جیسا کہ پہلے بتایا، جان کوئی جینئس نہیں تھا، وہ فزیکس کا کرئیٹو ذہن بھی نہیں رکھتا تھا۔ مگر جان میں ایک خاص بات تھی۔ وہ ہر چیز کا پیٹرن بڑے غور سے دیکھتا، اس کی نظر دوسروں کے کیے تجربات کے رزلٹ پر رہتی۔ وہ پہلے کتاب میں لکھی اب تک کی غیر حل طلب تھیوری دیکھتا، ان کے متعلق فیلڈ کے ماہر سائنسدانوں کی قیاس آرائیاں سنتا اور پھر اس کے ممکنہ جوابات جو قیاس آرائیوں کے قریب ترین ہوتے انہیں نکالنے کا سوچتا۔ وہ فزکس کی تھیوریز کو حل کرنے کے لیے لیب میں تجربات کے بعد انہیں ثابت کرنے یا رد کرنے جیسی مشقت نہ اٹھاتا بلکہ وہ انہیں ممکنہ جوابات کے ساتھ میچ کرنے کے لیے فرضی ڈاٹا بنانے کا ماہر تھا۔
جان ہینڈرک امریکن بِل لیب میں سر جوڑے فزیسٹ کے ہمراہ روایتی سیمی کنڈکٹر جو سلیکون پر مشتمل ہوتے ہیں انہیں کرسٹل آرگینک میٹر (کاربن) سے تبدیل کرنے جیسا منفرد کام کرنے میں لگا تھا۔ یہ تجربہ اگر کامیاب ہوتا تو یہ فزیکس میں ایک بڑا بریک تھرو مانا جاتا اور جو یہ کام کرتا اسے ممکنہ طور پر نوبیل انعام کے لیے نامزد کر لیا جاتا۔
جان یہ بات جانتا تھا اور وہ بس یہی بات جانتا تھا، جان نے یہاں سے کانٹا بدلا، وہ اب تک درجن کے قریب ریسرچ پیپرز کے ڈرافٹ لکھ چکا تھا مگر وہ سب بیکار تھے اور قابلِ اشاعت نہ تھے۔ اس کے کام میں کوئی گہرائی اور منفرد پن نہیں تھا۔ جان اپنی خامیاں جانتا تھا وہ ریسرچ کا آدمی تھا ہی نہیں۔ وہ اگر ساری عمر لگا رہتا تو نہ فزکس میں کوئی نام کما سکتا نہ زندگی میں کوئی پیسہ۔
جان نے ایک دن ریسرچ پیپر لکھنا شروع کیا، اس نے لیب میں کوئی تجربات نہیں کیے، اس نے کسی سے مشورہ نہیں کیا، کسی سے گائیڈنس نہیں لی۔ اس نے سلیکون کے سیمی کنڈیکٹر کو آرگینک کنڈکٹر کے ساتھ بدلنے کے متعلق وہ ڈاٹا تیار کیا جو تجربات کے زریعے وہ لیب میں حاصل کرنا چاہ رہے تھے۔ اس نے فرضی ریڈنگ پر فرضی گراف اور چارٹ بنائے اور ریسرچ پیپر میں ثابت کیا کہ آرگینک میٹریل کو سپر کنڈکٹیوٹی کے ڈسپلے کے طور پر بنایا جاسکتا ہے اور لیزر میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
یہ فزکس میں دھماکہ تھا۔ جان کی فرضی ریڈنگ چند تھیورٹیکل پیشن گوئیوں پر پورا بھی اتریں، جان کا یہ ریسرچ پیپر دنیا کےدو بڑے سائنٹیفک جریدوں 'سائنس' اور 'نیچر' نے شائع کیے۔ جان ہینڈرک کا نام اور کام فزکس کے حلقوں میں زیر بحث لایا جانے لگا۔ جان صرف ایک پیپر تک محدود نہیں رہا۔ وہ ہر آٹھ دن بعد ایک نیا ریسرچ پیپر شائع کرنے لگا۔ فزکس میں جان جس بھی رکے ہوئے تجربے کو ہاتھ لگاتا وہ کام کرنے لگتا۔ جان ہینڈرک کو فزکس کے اعلی ترین ایوارڈز میں کیش انعامات دیے گئے۔ وہ کم عمر ترین فزیسٹ تھا جو اس وقت امریکہ کی بل لیب میں فُل ٹائم ریسرچ ڈاکٹریٹ کے عہدے پر تھا۔ یہاں رکیے زرا، منظر بدلتے ہیں۔
آپ نے کسی آن لائن سکل کورس بیچنے والے کو سنا ہے؟ پینٹ کوٹ پہنے، ٹائی لگائے بڑے بڑے سمینارز اور میٹ اپس میں بیٹھے بیس سے پچیس سال کے نوجوانوں کے سامنے کسی آن لائن سکل کی اہمیت اور اسکا فریم آف ورک سمجھانے سے بھی پہلے اپنی قابلیت اور اس فیلڈ میں ذاتی مہارت اور کامیابی کی کہانی سناتے کہ کیسے وہ پہلے اس فیلڈ میں ناکام ہوا، پھر کوشش کی اور ایک دن کامیاب ہوا اور بہت سا پیسہ کمایا اور پھر اسے خیال آیا کہ وہ یہ طریقہ بےروزگار نواجوان کو بھی سکھائے گا۔
سکل کے متعلق کسی ٹکنیکل سوال، جیسا کہ اسے سیکھ کر مارکیٹ میں بیچنے اور اس فیلڈ میں کوشش کے باوجود مسلسل ناکام ہونے کے متعلق جیسے سوالوں پر مسکراہٹ اور نہایت تحمل کے ساتھ سوال کی داد دیتے اور پھر اسے کسی اور طرف لے جا کر یا گھوما کر جواب دیتے یا جواب میں کہتے کہ آپ کی محنت میں کمی ہے یا طریقے میں غلطی ہے۔ یقیناً ہر کورس سیلر کو اسی طرز کی گفتگو مشکل یا سادہ الفاظ و زبان کے فرق کے ساتھ کرتے سنا ہوگا۔
فزکس کی تھیوری کا منجن سیلر، جان ہینڈرک بائیس سال پہلے بالکل یہی کرتا تھا۔ وہ بڑے بڑے سمیناروں اور سائنسی حلقوں میں مدعو کیا جاتا جہاں وہ ٹھہر ٹھہر کر اپنے کام میں شروعاتی ناکامی اور مایوسی کا بتاتا۔ پھر مسلسل محنت سے کامیابی حاصل کرنے کا بتاتا۔ وہ مشکل سوال تحمل مزاجی سے سنتا، پوچھنے والے کو سوال پر داد دیتا وہ غلطی تسلیم بھی کرتا کہ یہ تھوڑی سی غلطی ہوئی ہے یا میری ریسرچ اس پر چل رہی ہے اور جلد مزید شائع ہوگی۔
وہ کسی کو لیب میں لے جاکر کبھی اپنی ڈسکوری کے متعلق لائیو تجربات نہ دکھاتا۔ وہ ریسرچ کے طریقے پر بات کرتا مگر کبھی اپنے کام کے بنیادی طریقوں پر بات نہ کرتا۔ اسے لوگ بغیر کسی ثبوت کے ماننے لگے حالانکہ اس کے نکالے رزلٹ کو بہت سے لوگوں نے لیب میں پریکٹیکلی دیکھنا چاہا مگر وہ ناکام رہے۔ مگر یہ سوچ کر خاموش رہے کہ شاید ہمارا طریقہ کار غلط ہے اور جان جینئس ہے، جان نے دن رات محنت کی ہے اسی لیے اس کے تجربات کے رزلٹ درست آئے ہیں اور وہ کامیاب ہوا ہے۔
تو جیسا ابراہم لنکن نے کہا آپ تمام لوگوں کو ہر وقت بیوقوف نہیں بنا سکتے، جون ہینڈرک 2002 میں پکڑا گیا۔