Film Download Kar Ke Dekhna
فلم ڈاونلوڈ کرکے دیکھنا
کسی پائریٹ اور ٹورنٹ سائٹ سے فلم ڈائنلوڈ کرکے دیکھنے پر دل ملامتی بن جاتا، اوسان پہ خطا طاری ہو جاتی، دماغ سکون کی نسیں دبا کر جھنجھوڑے مارنے لگتا آنکھوں میں بے چینی اتر کر اسکرین پر چلنے لگتی۔
اب اس سوچ کے محرکات سراسر نفسیاتی اور انفرادی ہوسکتے، قطعی ضروری نہیں کہ جو ایسا نہیں سوچتا وہ غلط ہے اور اسے سوچنا چاہیے مگر میرا ماننا ہے کہ انٹرٹینمنٹ میں فلم کتاب اور موسیقی سے لطف کشیدگی کا پہلا جُز جو دبا دیا جاتا ہے وہ یہی ہے کہ اسے پائریٹ اور یہاں وہاں سے اٹھا کر اس سے محضوض ہونے کی کوشش کی جانے لگتی ہے، بجائے جس پلیٹ فارم کی وہ پروڈکشن ہو یا جس کے پاس اس کے اسٹریمنگ رائٹس ہوں اس سے دیکھنے سننے اور پڑھنے کی درخواست کی جائے۔
ایسا ہرگز نہیں بلکہ کہنے کو یہ احمقانہ بات ہوگی کہ ٹورنٹ سے گیم آف تھرونز دیکھنے والے شروع سے آخر تک وہ لطف لینے سے قاصر ہوں جنہوں نے گیم آف تھرونز HBO کی ماہانہ سبسکریپشن دے کر دیکھا ہو مگر، شاید مجھ اکلوتے دماغ میں یہ خلل یا مینوفیکچرنگ ایرر آیا ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے بنائے اور پھیلائے کرنسی کے مادوں سے بنے بادلوں سے بغاوت کی بجائے ان کے عین نیچے کھڑے ہو کر پیسوں سے ان کے اسٹریمنگ پلیٹ فارم کی سبسکریپشن خریدنے پر اکسائے ہوئے ہے۔
یہاں تک کہ اگر سبسکریپشن نہیں خرید ہوئی، خریدنے کی سکت نہیں، مجبوری جائز بن گئی ہے کہ کہیں سے بھی محض دو گھنٹے کی فلم ڈائنلوڈ کرکے دیکھ لی جائے، قانون بھی اس پر نابینا ہے سب کچھ اٹس فائن ہے مگر نہیں صاحب، یہ اوریجنل پلیٹ فارم پہ دیکھنے کا دماغی خلل یہ چسکا یہ مہنگی عیاشی کسی دوست کے آگے خودداری کا بھرم توڑ کر سبسکریپشن مانگنے پر بھی مجبور کر دیتی ہے۔
حد ہے۔
صدیوں سے مائیکروسافٹ کی ونڈو سے لے کر ورڈ ڈاکومنٹ، ایکسل شیٹ اور دنیا بھر میں کہیں سے بھی لانچ ہوئے نیٹ پر موجود ہر پیڈ سافٹ ویئر کو ان پیڈ چلانے کا طریقہ نکال لیا جاتا ہے، کسی ڈویلپر کی محنت اور چاؤ سے بنائے اور پھر قیمت متعین کیے سافٹ ویئرز کو اتنی ہی محنت سے کریک کیا جاتا ہے اور نہایت مطمئن ہو کر استعمال کیا جاتا ہے۔
بے دھڑک کیا جاتا ہے، ایمان کی جانب سے ملامت کرنے کا تو سوال ہی نہیں، یہ خیال بھی نہیں کہ آجو باجو فرشتے ہیں معاملات ریکارڈ میں رکھے جانے، رب بے نیاز کے مزاج کے بارے میں بھی سنا ہے کہ کہیں سے بھی پکڑ کر سب نیکیاں منفی کر سکتا ہے، اعمال ضائع کر سکتا ہے مگر شاید کچھ جرم اتنی تعداد میں اور اتنے پرامن طریقے سے ہونے لگتے ہیں کہ وہ نارملائز ہو جاتے ہیں اور جرم کے دائرے سے باہر نکل آتے ہیں، ایسے جرائم نہ کرنا وقوفی سمجھا جاتا ہے ناکہ انہیں ترک کرنے جیسی بے معنی سوچ رکھنا قابل داد سمجھا جائے۔
اس سوال کے ساتھ اس نفسیاتی کتھارسس کو گِرہ باندھتے ہیں کہ ہیرو کون ہوا؟ ان تھک محنت سے کوئی سافٹ ویئر بنا کر اس پر معاوضہ رکھنے والا یا کریک کرکے سب کو فری میں دکھانے والا؟