Cinema Industry
سینما انڈسٹری
پٹھان فلم کے ایچ ڈی پرنٹ آنے کا انتظار نہ کریں ہر فلم اچھے پرنٹ میں دیکھنے کے قابل نہیں ہوتی۔ فلم کا ٹریلر دیکھ کر بھی سینما جانے والوں کو جج کرنا مقصود نہیں اور نہ ہی کرنا چاہیے مگر کم آن۔ زمانہ چیٹ جی پی ٹی پہ چلا گیا، مریخ پر پلاٹ خریدنا ممکن ہو چکا، انٹرٹینمنٹ کے ہر ذریعے نے اپنی نیچر تو وہی رکھی مگر انداز، ساخت بیان اور ہیت یکسر بدل ڈالی مگر پھر وہی بالی وڈ اور پکوڑوں کی دکان۔ بات سینما میں جدت پر چلی تو تھری ڈی کا حیرت کدہ کُھلا۔ سونی کے قد آدم جدید آڈر پر تیار کیے بھاری کیمروں کو جیمز کیمرون اپنے کاندھے پر رکھے فلم میں جدت کا عملی داعی بنتا نظر آیا اوتار در اوتار کھڑی کر دی۔
بات سینما میں ایکشن ہیرو، اسسٹنٹ، دماغ مخبوط، آنکھیں ساکت، سانسیں جامد کر دینے والے حقیقت کو چھوتی پرفیکشن کی انتہا کو پہنچی ایکشن فلموں کی چلی تو ٹام کروز اور ٹام کروز کی مشن امپاسبل سے ابتداء ہوتے ہوئے جیکی چن، بروس ولز سے ہوتی سلویسٹر اسٹیلون کی روکی فلموں تک جا پہنچی۔ ان فلموں اور ان کو بنانے والے ایکٹرز دنیا بھر کی سینما انڈسٹری میں ایکشن فلم بنانے سے پہلے اسٹڈی کیے جاتے رہے۔
سینما کا بنیادی مقصد انٹرٹینمنٹ اور فقط انٹرٹینمنٹ رہا۔ اب آگے اس انٹرٹینمنٹ میں انفرادی مزاج، مشاغل اور جہاں تک ذہنی اپروچ کا بھوکا شیر پنچے مارنے کی جستجو رکھے وہاں تک ہر کسی کا لیول بٹا ہوا ہے۔
فلمیں شخصیت کا عکاس بن جاتی ہیں۔ اگر کسی کے بارے میں یہ پتہ چل جائے کہ وہ کیسی انٹرٹینمنٹ کنزیوم کرتا ہے، کونسی غزل لُوپ پہ سنتا ہے، کس طرح کے شعر کو شعر سمجھتا ہے اور کس طرح کی فلمیں دیکھتا ہے تو ایسے شخص کی ذہنی قابلیت اور انٹلکچوئل زرخیزی کا جائزہ لینا آسان ہو جاتا ہے اور ایسے شخص سے کنارا کرنے اور قریب رہنے کا فیصلہ اس سے بھی آسان ہو جاتا ہے۔ مزاج میں ہم آہنگی جاننے کا بڑا حصہ انٹرٹینمنٹ کے ان ذریعوں کا فلٹر لگا کے جانا جا سکتا ہے۔
سلمان خان کے فینز سینما میں کہانی کی گہرائی، سنجیدگی سے ناواقف ہوتے ہیں، عامر خان کو پرفیکشن کے درجے پر لانے والوں نے دوسرے سینما کے دیگر اداکاروں کی فلمیں جھانک کر نہیں دیکھی ہوتی۔ شاہ رخ خان کی اداکارانہ صلاحیتوں پر شک ممکن نہیں۔ دیوداس میں شاہ رخ کا کام دلیپ کمار کی دیوداس سے کہیں زیادہ نکھرا، ستھرا اور دیکھنے لائق تھا اور یہی شاہ رخ کا اعزاز ہے۔ اسکرپٹ کا فقدان بالی وڈ میں بہت پہلے کا ہے جس پر شاہ رخ کا کوئی زور نہیں، کسی اداکار کا کوئی زور نہیں بالی وڈ ڈائریکٹرز اس کے ذمہ دار ہیں۔ برے اسکرپٹ پر شروع کی فلم کو مارلن برانڈو بھی نہیں سنبھال سکتا شاہ رخ تو پھر نوخیز ہے۔
نوے سے بالی وڈ نے جو ایکشن فلموں کے نام پر دکھایا وہ لکی ایرانی سرکس زیادہ معیاری دکھا رہی تھی۔ بات نوے سے نکلی دو ہزار بائیس تک آ پہنچی اس بیچ پان سنگھ تومر، مقبول اور ستیا جیسی شاندار فلمیں بھی بنی مگر انہیں برقرار رکھنے والے اداکار و ڈائریکٹرز ثابت قدم نہیں رہے کوئی دنیا چھوڑ گئے، کوئی انڈسٹری چھوڑ گئے اور پیچھے ٹائیگر پٹھان بھائی جان اور مجنوں رہ گئے۔
ایک بار پھر وہی بات کہ پٹھان جیسا کونٹینٹ کنزیوم کرنے والوں کو جج کرنا بری بات ہے مگر کم آن۔۔