Baba Its Okay
بابا اٹس اوکے
والدین کا موبائل چیک کون کرے، کون ڈانٹ کر تھپڑ لگا کر کونٹینٹ رسٹرکشن لگائے؟ ہم اپنے والدین کو چالیس سال کی عمر میں صیحیح سے دیکھ پاتے ہیں ماں باپ سے ہٹ کر ایک انسان کے طور پر انہیں سمجھنے کی پہلی کوشش کرتے ہیں، ہم خود اس وقت لیٹ ٹین ایج میں داخل ہوکر میچورٹی کی جانب جا رہے ہوتے ہیں اور رستے میں ہمیں ادھیڑ عمر والدین کو ٹھہر کر قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔
اسّی کی دہائی میں شادی کرنے والے والدین اور نوے کی اختتامی دہائی میں پیدا ہونے والے ان کے بچے ایک ساتھ اکیسویں صدی میں داخل ہوئے، اکیسویں صدی جس میں ٹیکنالوجی نے پلٹا کھایا، ٹیلی فون کی لمبی تار ٹوٹ کر موبائل میں بدل کر جیب میں آگئی، ریڈیو نے دم توڑ دیا ٹی وی کی اسکرین ویران پڑ گئی میگزین معدومیت کا شکار ہونے لگے اور یہ سب ایک اسکرین میں سمو گیا جس تک ہر کسی کی رسائی عام ہوگئی۔ یہ تاریخ کا حیرت انگیز موڑ تھا کہ کسی چیز کی افادیت سے محض ایک جنریشن محظوظ نہیں ہوئی بلکہ اس نے نئی اور پرانی جنریشن کو بھی برابر موقع فراہم کیا کہ وہ بھی اسے سمجھ کر اسے برابر استعمال کرسکے۔
کی پیڈ سے ٹچ اسکرین کا سفر اکیسویں صدی کا سب سے دلچسپ سب سے مفید اور برق رفتار رہا۔ ہم نے ہوش سنبھالنے کے چند سالوں بعد اپنے والد کی جیب میں کوئی نہ کوئی نوکیا کا بٹنوں والا موبائل دیکھا، جس کی اسکرین پر ہندسوں کے علاوہ کچھ نہ آتا تھا مگر پھر بھی وہ سہولت اور اپنے کام میں پورا تھا۔ زیادہ بڑے ہوئے تو ٹچ موبائل دیکھ چکے اور پھر ٹین ایج میں ٹچ موبائل تک رسائی بھی ممکن ہوگئی، مگر اس دوران ہمارے والدین اسی بٹنوں والے موبائل تک محدود رہے ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہونے کی الجھن اور نہ سمجھی کہیے کہ وہ ٹچ اسکرین تک فوری نہ پہنچ سکے، اور ٹین ایجرز کو انہیں ٹچ اسکرین سکھانے کی فرصت کہاں تھی مگر ٹین ایج سے نکل کر زرا آگے نکلے تو زمانہ بھی تیزی سے بدلا بٹن والے موبائل مذاق بن گئے اور ٹچ موبائل نہ چاہتے ہوئے بھی سہولت، اور یوں والدین کی بھی ان تک رسائی ہوگئی، بچوں نے بھی وقت لگا کر انہیں ٹچ کے اسرار و رموز سے واقف کروایا اور یوں کسی حد تک ان کے ہاتھوں نے اسکرین سمجھ لی۔
اب یہاں سے وہ سلسلہ شروع ہوا جسے فرائیڈ دبی ہوئی خواہشات کا بھیانک صورت میں وارد ہونا کہتا ہے۔ بچے تو ٹچ اسکرین سے ہر طرح کی ہیجانی ذومعنی اور ٹیبو انٹرٹینمنٹ کشید کرکے تھک بھی چکے تھے اور یہ اب ان کے لیے نئی بات بھی نہیں رہی تھی مگر والدین کے لئے پہلے ٹچ اسکرین اور پھر انٹرنیٹ سوشل میڈیا تک رسائی نئی بات تھی۔
بچوں نے انہیں موبائل چلانا سکھایا تھا چھپانے کا علم نہیں دیا تھا اور پھر بچوں کی بھاری اکثریت اس نفسیاتی تنوع سے گزری جب کبھی انہوں نے اپنے والد کا موبائل چیک کیا اور انہیں سرچ ہسٹری میں ہر وہ چیز ملی جو وہ اپنے والد کے موبائل میں ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ والدین کو پورن کا نہیں پتہ تو سیدھے سیدھے اڈلٹ الفاظ پر مشتمل فیس بک اور گوگل پر سرچیں دیکھنے کو ملی، انہیں ہسٹری ہٹانے کا علم نہیں تو ان کی ہسٹری ہچکچاتے اور پشیمان ہوئے بچوں نے خود ڈلیٹ کی۔
ان کے دور میں اڈلٹ کونٹینٹ عام تھا بھی تو اس کی رسائی کے ذریعے عام نہیں تھے، ہیجان انگیز میگزین اور ہوشربا پوسٹروں کے علاوہ انہوں نے شاید ڈی وی ڈی یا وی سی آر پر کوئی الف ننگا بدن دیکھا ہو مگر اب ایسے کونٹینٹ تک ان کی کی رسائی جیب میں آچکی تھی وہ ایک طرح سے پاگل ہوگئے، ٹک ٹاک کی ریلیز فیس بک پر سافٹ پورن "دیور بھابھی" جیسا کونٹینٹ عام ملنا ان کے لیے حیران کن بھی رہا ہوگا پریشان بھی ہوئے ہوں گے مگر وہی بات کہ ان چیزوں کے متعلق کہیں نہ کہیں انہوں نے جوانی میں سن رکھا ہوگا اور اب دیکھنے کا موقع ملنا یقیناً ان کے لیے بھلے guilty pleasure بنتا ہو مگر وہ ایسا کونٹینٹ چھپ کر یا نادانی میں بے دھڑک دیکھتے ہوئے پائے گئے، اور یہ سب اولاد کو جھیلنا پڑا۔
ٹی وی پر زرا سا لڑکا لڑکی قریب آتے ہی چینل بدلنے والے والدین کو ایسا کونٹینٹ دیکھتے ہوئے پانا اولاد کے لیے پروسیس کرنا مشکل ہے اور خاموشی سے ڈائجسٹ کرنا نہایت کڑوا، مگر آپشن کوئی نہیں بچتا والدین اولاد کو ایسا کونٹینٹ دیکھتے ہوئے پکڑے ڈانٹے اور سیخ پا ہو یہ نارمل سی بات ہے مگر اس پختہ عمر میں والدین کو پکڑ کر کون سمجھائے کون ڈانٹ ڈپٹ کرے۔
بچے والدین کو ہمشیہ والدین ہی دیکھتے، وہ بمشکل پہلے انہیں ایک کامن گوشت پوست کا انسان جو ان کی ہی طرح بھلے پچاس پچپن سال کی ہی عمر میں کیوں نہ ہو ہیجانی جزبات رکھ سکتا ہے جس کا دماغ دن میں بیسیوں بار سیکس کا سوچ سکتا ہے جو ان سے چوری چھپے پورنو گرافی نہ صرف دیکھ سکتا ہے بلکہ اس سے ہر طرح کا لطف کشید کرسکتا ہے جیسے پہلوؤں کو سمجھ کر اور پھر والدین کے رتبے پر رکھ کر نہیں سوچ سکتے مگر اس میں غلطی اولاد کی ہی ہے کہ انہوں نے اس سے آگے والدین کو کبھی نہیں سوچا۔
والد کے موبائل پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی اگر وہ اڈلٹ کونٹینٹ رُک کر دیکھنے بھی لگے تو ساتھ بیٹھی جوان اولاد میں اتنا حوصلہ جمع نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنے باپ کے رتبے پر فائر اس شخص کا موبائل کھینچ کر اس سے اس بات پر کوئی سیر حاصل بحث کرسکیں، ان کے متعلق ماؤں کو آگاہ کرنا تو بہت ہی پرے کی بات ہے۔ ایسے میں اولاد چپ بھی رہے تو وہ شدید نفسیاتی دباؤ میں رہتی ہے، موبائل میں بکھرے اڈلٹ کونٹینٹ تک والدین جب خود رسائی کرلیتے ہیں تو وہ اولاد کا جینا بھی مشکل کردیتے ہیں، موبائل کسی بھی مقصد کے لیے استعمال کرتا بچہ یا بچی انہیں مشکوک لگتا وہ اسے بغیر وجہ بتائے ڈانٹنے لگتے اور یہی سمجھتے کہ یہ موبائل پر یقیناً ہر وقت یہی مواد دیکھ رہا۔ ایسے والدین کو ہمت کرکے سمجھانا کھٹن تو ہے مگر ایک طرح سے اولاد کا فرض بن جاتا ہے کہ انہیں بٹھا کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بے حد نرمی سے سمجھایا جائے کہ بابا اٹس اوکے۔