Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sondas Jameel
  4. Artificial Intelligence

Artificial Intelligence

آرٹیفشل انٹیلیجنس

مصنوعی گوشت بن رہا ہے، آرٹیفشل بچہ دانیاں بن رہی ہیں، آرٹیفشل انٹیلیجنس پینٹنگ بنا رہی ہیں یہ خبریں سن کر کوئی ڈر نہیں رہا، چونک نہیں رہا، تشویش کا اظہار نہیں کر رہا۔ حالیہ جنریشن میں جدت اس قدر عام ہوئی کہ حیرانی ناپید ہوگئی۔ مصنوعیت نئی حقیقت بن رہی بغیر ریگولیشن کے نارملائز ہو رہی اس کا انجام و نقصان کیا ہے؟ فائدوں کی تہہ میں کچھ تو چھپا ہے جس کا خلاصہ نہیں ہو رہا۔

باقی چھوڑیں آرٹ پر آرٹیفشل انٹیلیجنس کے قبضے کے بارے میں سوچیں۔ آرٹ تخلیق یہ شعور کی اکائیاں اور یونٹ جو انسان کو ہومو سیپین بنا کر دیگر نوع سے جدا کرتی ہے۔ اپنی ذات میں، سوچ میں، ساخت میں محدود و محروم ڈھانچوں کو سوچنے، سمجھنے، ریزننگ والی نوع سے علیحدہ کیے ہوئے ہے۔ جس نوع کا تعارف اور پہچان تخیل ہے، پہیلی ہے، حسن ہے، تمام تر زندگی کا مقصد اور امید ہے۔

یہ تخلیق، یہ آرٹ، یہ تخیل اس نے دھیرے دھیرے سب سوفٹ ویئر کو تیاگ دیا۔ انسان آرٹ سے باقاعدہ دستبردار ہونے کو ہے یہ سب وہ بےروح جزبات سے عاری مشینری اور کوڈز میں لپٹے سوفٹ ویئر کے حوالے کرنے کو ہے۔ اس سے ہوگا کیا؟ آسانی؟ سہولت؟ دماغی چھٹی؟ یہ آرٹ اور تخلیق سے چھٹی لے کر سارا کام ماتحتوں کے حوالے کر کے کرے گا کیا؟ مزید آوارگی؟

ایک پینٹگ پر بنانے والے آرٹسٹ کا دل لگتا ہے۔ ہر پوائنٹ پر پھیرا ہوا برش اس کی سوچ، تخیل اور اپروچ کا بیان دیتا ہے۔ وہ باریک سی ایک لائن کھینچتے ہوئے نجانے کتنے مختلف زاویوں سے سوچتا ہے، تولتا ہے، رد کرتا ہے، بےچین ہوتا ہے، کھانا چھوڑ دیتا ہے، اپنی ظاہری حالت سے بےنیاز ہو جاتا ہے وہ اس ایک لائن کو کھینچنے کے ہزار ممکنہ زاویوں میں سے چھانٹ کر ایک لائن فقط ایک لائن تصویر میں جوڑتا ہے اور ایسی ہی بےتحاشا لائنز سے مزین ہوتی ہے ایک مکمل پینٹنگ۔

ڈا ونچی نے چار سال لگا دیے مونا لیزا پر۔ آج، ابھی ایک کلک پر کوئی شخص جس نے کینوس نہیں دیکھا، برش زندگی میں کبھی نہیں تھاما وہ لنچ بریک سے پہلے تین سو نئی پینٹنگ چند لفظوں کی کمانڈ دے کر سوفٹ ویئر سے جنریٹ کر دے گا جس پر گوگل یونیک ہونے کی تصدیق بھی کر دے گا مگر کوئی جاننے کی کوشش نہیں کرے گا کہ اس سوفٹ ویئر میں خیالات کہاں سے اترے؟

ان سوفٹ ویئر کو نجانے کتنے آرٹسٹوں کی بنائی لاکھوں کروڑوں پینٹنگز فیڈ کروائی گئی تب جا کر ان کے الگورتھم میں جان آئی۔ وہ آرٹسٹ جو مر گئے وہ جو زندہ ہیں کسی کو کچھ نہیں پتہ، کسی سے کوئی اجازت نامہ نہیں، آرٹسٹ اور مصنوعی ذہانت کے مابین اس پیراسائٹ ریلیشن میں آرٹسٹ کو مصنوعی ذہانت کا پیٹ بھرنے کا صلہ کچھ نہیں ملا۔

انسانی آرٹ پر مصنوعی ذہانت کا شب خون دیکھیے کہ امریکہ کے ایک آرٹ مقابلے میں کئی آرٹسٹوں نے اپنی بنائی پینٹنگز رکھیں اور اسی مقابلے میں ایک شخص سوفٹ ویئر سے ایک پینٹگ جنریٹ کر کے لے آیا اور جیت کا انعام لے اڑا دیگر آرٹسٹ اپنی تخلیق بغل میں دبائے دہائی دیتے رہ گئے کہ یہ جیتنے والی پینٹنگ حقیقی نہیں تھی چیٹنگ تھی۔

انسانی ہاتھ اور مصنوعی پینٹنگ میں فرق ختم ہو رہا ہے۔ لوگ آرٹ کیوں پڑھیں، پینٹنگ کی بنیادی تعلیم کیوں لیں جب ایک سوفٹ ویئر کی فیس ادا کر کے وہ آرٹسٹ بن سکتے ہیں، من چاہے کی ورڈز لکھ کر من چاہی پینٹنگ بنا کر خود کا نام آرٹسٹ رکھ سکتے ہیں ایسے میں حقیقی آرٹسٹ اپنی دکان کا سامان کہاں بیچے؟ جب حقیقت اور مصنوعیت میں لکیر ہی مٹ گئی تو کوئی کیا لکیر پیٹے۔

آرٹیفشل انٹیلیجنس سے دشمنی بےمعنی ہے۔ یہ مشین نہیں انسان ہے جو اسے تخلیق کرتا ہے، استعمال کرتا ہے تو اچھے برے کی اخلاقی اور قانونی بحث مشین کے ساتھ نہیں انسانوں کے ساتھ ہونی چاہیے۔ یہ بات طے ہے کہ ریسٹورنٹ سے پیزا آڈر کر کے منگوانے سے کوئی شیف نہیں بن جاتا اسی طرح سوفٹ ویئر سے پینٹنگ جنریٹ کرنے والا آرٹسٹ نہیں کہلاتا۔ اب اگر کوئی کہے کہ اس نے سوفٹ ویئر میں promts لکھا، کمانڈ دی تو وہ جان لے کہ پیزے کے ساتھ ایکسٹرا چیز کا آڈر دینے کے باوجود بھی وہ شیف نہیں بنتا۔

آرٹیفشل انٹیلیجنس سے پینٹنگ بنانے والا تیزی سے پھیلتا کلچر کنزیومر برتاؤ کی شرمسار اونچائی ہے جہاں سب کو زیادہ اور سستا چاہیے، باریکیوں کی پرواہ نہیں بس کم وقت میں ایک کلک پر چاہیے۔ اس کے مخالف ایک حقیقی آرٹسٹ کو وقت چاہیے خاص طور پر باریک سے باریک تفصیل پر وہ واقعات و تجربات سے سیکھتا ہے آب بیتی کھنگالتا ہے، کہانی بناتا ہے، پوری روح کینوس میں رکھ دیتا ہے اور انسان یہ حقیقی آرٹ تب سے بنا رہا ہے جب اسکا مسکن غاریں تھیں۔

جب وہ کسی بھی تہذیب، زبان اور علوم سے پرے تھا وہ ان سب سے ناآشنا ہو کر جو محسوس کرتا اس کا بیان کسی کھردرے پتھر سے غار کی دیواروں پر لکیریں کھینچ کر کرتا۔ تخلیق اور ارتقاء کے اس صدیوں پرانے سفر میں سے یہ قدیم اظہاریہ چھین کر کسی اور کو سونپ دینا انسانیت سے انسانی روح کو نکال کر پھینک دینے جیسا ہے۔ ہمیں پینٹنگز کپڑوں کی طرح فاسٹ فیشن کی طرز پر کیوں چاہیے؟ تھوڑا بنا لیں تھوڑا دیکھ لیں۔ پرتاثیر و پرکیف بنالیں دیرپا دیکھ لیں۔ مونا لیزا کسی سوفٹ ویئر نے جنریٹ کی ہوتی تو اس کی تاریخی ویلیو وہ ہوتی جو آج ہے؟

مصنوعی ذہانت رکے گی نہیں، بڑھے گی، مزید سیکھے گی اور حقیقی آرٹسٹ کو خوفزدہ کرے گی اور پاپ کلچر میں نارملائز ہو جائے گی عام دیکھنے والی آنکھ کو کوئی پرواہ نہیں وہ ہر سیکنڈ نیا دیکھنا چاہے گی بغیر حقیقت اور مصنوعیت کا فرق جانے مگر یہ فرق کون کرے گا۔ کیا اگلے زمانے میں مصنوعی ذہانت کی تخلیق پر آرٹیفشل کا ٹیگ لگا کر اسے حقیقی آرٹ سے جدا کرنا کوئی ضروری بھی سمجھے گا؟

نیٹ فلکس پر بلیک مرر دیکھتے رہیے۔

Check Also

Taunsa Barrage

By Zafar Iqbal Wattoo