1.  Home
  2. Blog
  3. Sidra Shaikh
  4. Tum Bohat Khubsurat Ho (2)

Tum Bohat Khubsurat Ho (2)

تم بہت خوبصورت ہو (2)

کسے پتہ تھا میں جو شادی اور ہمسفر کو لے کر اتنا پرجوش تھا میرے ارمانوں پر اس طرح سے پانی پھیر دیا جائے گا؟ اس کے بعد یہ ہمارا معمول بن گیا تھا۔ وہ میرے لیے صرف میرا کمرہ شئیر کرنے والی"روم میٹ" اور گھر والوں کے لیے ایک ملازمہ بن کر رہ گئی تھی۔

"زاران ہمیں آج شاپنگ پر لے جاؤ پلیز ہم کزنز کتنے وقت کے بعد ملے ہیں"۔

"ہممم، بہت دنوں بعد ہمارے گھر آئیں کزنز نے خواہش کا اظہار کیا تو میں نے ہمکاری بھری۔ "نایاب۔ تم بھی تیار ہوجاؤ"۔ آفس کا بیگ پکڑا کر میں نے اسے آہستہ سے کہا۔ اس پر تو مانو شادی مرگی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ اتنی حیران ہوئی تھی کہ بیگ اس کے ہاتھ سے چھوٹتے چھوٹتے بچا تھا۔

"بیگم لیپ ٹاپ ہے اس میں دھیان سے"۔

اس نے یہ میرے منہ سے اپنے لیے یہ باعزت خطاب پا کر وہیں دوام کیا تھا۔ جامد سی کھڑی رہ گئی تھی۔ شاید اس لفظ کی شیرینی کو سدا سے ترسے کانوں میں گھولنا چاہتی تھی۔ اچانک وہ بھاگ گئی اور جب میں مڑا تو سب ششدر رہ گئے تھے۔ خاص طور پر امی۔ ان کے تو چہرے پر ملال جیسے ایک رنگ اور آنکھوں میں بے یقینی نے چھاپ چھوڑ رکھی تھی۔

"نایاب کا کیا کام ہے؟ تم ان سب کو لے جاؤ۔ بہو نے ابھی کچن میں اور بہت کام کرنا ہے مہمان آئے ہوئے ہیں"۔

"مہوش جاؤ نایاب سے کہو جلدی تیار ہوکر باہر آئے اور جب تک ہم نہیں آجاتے تم اور نوشین کھانا بنا لینا۔ اجازت دیجئے امی"۔

امی کے جواب کا انتظار کیے بغیر ان کے ہاتھوں پر بوسہ دے کر میں وہاں سے باہر چلا گیا تھا۔ گاڑی کے ساتھ ٹیک لگائے میری نظر دروازے پر مرکوز تھی۔ عروج اور باقی دو کزنز جتنے پراعتماد طریقے سے آ کر گاڑی میں بیٹھیں، میری بیوی اتنی ہی گھبرائی ہوئی تھی۔ گاڑی کا دروازہ بھی میں نے کھولا تھا۔ فرنٹ سیٹ پر عروج پہلے ہی بیٹھ چکی تھی۔ نایاب نے کوئی جھجھک ظاہر نہ کی اور خاموشی سے پیچھے جا بیٹھی۔

"ائی ایم سوری نایاب۔ آج پہلی بار تم اپنے شوہر کی گاڑی میں بیٹھیں اور آگے نہ بیٹھ سکیں۔ "

عروج نے مصنوعی تاسف سے کہتے ہوئے طنزیہ کہا تو تینوں کزن قہقہ لگا کر ہنس دی تھیں۔

اُفف کیا کروں گا میں تمہاری اس سادگی اور بھولے پن کا؟

ریر ویو مرر میں اس کے چہرے پر مسکان دیکھ کر میں بیزار ہوا اور گاڑی سٹارٹ کردی تھی۔

"یہ کارڈ پکڑو جو پسند آئے لے لینا"۔

"مگر مجھے کچھ"۔

"رکھو اسے"۔

عروج کے جانے کے بعد میں نے نایاب کے ہاتھ میں اپنا کریڈٹ کارڈ تھمایا۔ اس کے چہرے پر خوشی جیسے ہی آئی میری مکمل بات سن کر چلی گئی تھی۔

"میری کزن کیا سوچیں گی؟ مجھے تمہارا تو پتہ نہیں مگر خاندان میں میرا ایک نام ہے رتبہ ہے، اس رتبے کا خیال کرتے ہوئے میری رقم سے کچھ خرید لو۔ جاؤ اب اندر اور کوئی ایسی حرکت نہ کرنا جس سے مجھے شرمندگی ہو۔

وہ کزنز کے ساتھ شاپنگ مال میں چلی گئی اور میں باہر انتظار کرنے لگا۔ انتظار میں سوچ ایک لازمی امر ہے جو کسی بھی رخ سے آ سکتی ہے اور اس وقت ان کے آنے تک منتظر بیٹھا میں نایاب کے متعلق ہی سوچتا رہا تھا۔ مجھے جب بھی نایاب کا خیال آتا، میری ذہنی رو ایک دم سے امی کی طرف سے کی گئی اپنے ساتھ زیادتی کی طرف بہہ جاتی تھی۔ بے بسی میرے گرد محیط ہو جاتی اور تلخیوں کے پیمانے میرے وجود میں اتر کر اعصاب کو تشنج زدہ اور حلق تک کو کڑوا کر دیتے تھے۔

وہ لوگ جیسے جیسے باہر آنا شروع ہوئے سب سے آخر میں میری بیوی نکلی تھی، جو ان تینوں کے شاپنگ بیگ پکڑے کسی ملازمہ کی طرح ان کے پیچھے پیچھے آرہی تھی۔ بے شک مجھے اس کو اس حالت میں دیکھ کر اس سے ہمدردی نہ ہوئی تھی، مگر اس کا مجھ سے منسوب ہونا ایک ایسا خیال تھا کہ جس نے مجھے احساس دلایا کہ یہ ہتک میری بیوی کی نہیں بلکہ میری اپنی ہے۔ مگر میں کچھ بھی نہ کہہ سکا۔

"کیا ہوا جو مجھ سے منسوب ہے، میری پسند تو نہیں، میں نے دل کو تسلی دی"۔ میری پسند ہوتی تو آج اس حال میں نہ ہوتی۔ سب لڑکیاں گاڑی میں بیٹھ گئی تھیں۔ نایاب کو واپسی میں بھی پچھلی سیٹ پر جگہ ملی تھی۔ مجھے غصہ اس پر تھا یا خود پر؟ میں کچھ بھی نہ سمجھ سکا۔ بس نایاب کے ساتھ یہ ہتک امیز رویہ مجھے خود اپنے حوالے سے تکلیف دے رہا تھا۔

اسٹیئرنگ پر ہاتھ مارنے کے بعد میں نے گاڑی سٹارٹ کردی تھی۔ عروج اور باقی کزنز نے مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی مگر میں طیش میں رہا۔ گاڑی گیراج میں پارک کر کے سیدھا میں اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔

"زاران۔ چائے۔ اور"۔

"اور کیا؟ کچھ کام ٹھیک سے نہیں ہوتا کم از کم ہکلائے بغیر بولنا تو شروع کرو"۔

میرے طیش کی وجہ اس کی ذات تھی۔ خود کو کمزور ظاہر کر کے وہ لوگوں کو خود پر جب ہنسنے کا موقع دیتی تو مجھے یوں لگتا جیسے لوگ اس پر نہیں بلکہ مجھ پر ہنس رہے ہیں۔ اس کے کندھے پر دباٶ ڈالے میں اسے کمرے میں لے آیا تھا اور دروازہ بند کردیا تھا۔

"زاران وہ"۔

وہ کہتے کہتے رک گئی۔

"نایاب اگر تم نے اب ٹھیک سے بات نہ کی تو کچھ برا ہوجائے گا جس کی ذمہ دار تم خود ہو گی۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم اپنی آواز میں ہی اعتماد لے آٶ کہ جس سے پتا چل سکے تم زاران آفندی کی بیوی ہو"۔

"وہ میں آپ کے لیے کچھ لائی ہوں۔ آپ کو نہیں پسند تو"۔

اس نے جان بوجھ کربات نامکمل چھوڑی تھی۔ چائے کا کپ میز پر رکھتے اسے نے ایک باکس مجھے دیا تھا جو پیکنگ میں تھا۔

"میرا موڈ آف اور غصہ ہنوز قائم تھا۔ بے رخی سے گفٹ ریپر کو پھاڑ کر میں نے پھینک دیا اور جب تین رنگوں کی خوبصورت ٹائیز دیکھیں تو میرے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ آ گئی۔

"آپ۔ آپ کو پسند"۔

وہ ایک مرتبہ پھر ہکلائی۔

افوہ۔ یااااار ایک تو تمھارا یہ ہکلانا۔ قسم سے کبھی نہیں جائے گا۔ یہاں بیٹھو"۔

اس کا ہاتھ پکڑ کر میں نے اسے بیڈ پر بٹھا لیا۔ اس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے میں نے ہاتھ میں پکڑےاس ٹائیز باکس کو دیکھا جس نے اس دن ہمارے رشتے کو مکمل طور پر نہیں تو کافی حد تک بدل دیا تھا۔ معمول اب بھی ویسا ہی تھا۔ وہ وہی ملازمہ تھی اور میں ویسا ہی سخت۔ مگر بدلاؤ آ گیا تھا۔ پہلے جو میں اس کی جھجھک سے کوفت میں مبتلا ہوتا، اب پشیمان ہوتا تھا اور سوچتا کہ میں نے کبھی اس کی حوصلہ افزائی کی ہوتی تو اس کے لہجے میں اعتماد بھی آتا۔

میں نے اس کے گرد ڈر کے پہرے بٹھائے تھے۔ اس کے ہر ارادے کے آگے اپنی ناراضگی کا احساس رکھ دیا تھا۔ میرے لہجے کی سختی نہ گئی مگر اس کی جھجھک ختم ہو گئی تھی۔ میں نے اس کا تحفہ قبول کر کے اسے ایسا حوصلہ دیا تھا کہ آہستہ آہستہ اس کی نوازشیں مجھ پر بڑھتی گئیں۔ وہ کچھ اس انداز میں ہر دوسرے دن نیا کوئی گفٹ پیش کرتی کہ میں چاہ کر بھی انکار نہ کر پاتا۔ میری ہر پسند نا پسند اس پر کھل گئی تھی۔

اب تو وہ ہمجولیوں کی محفل میں میری تعریفیں کرنے لگی تھی۔ میرے حق میں دلائل دیتی، بڑھ چڑھ کر دعوے کرتی اور تنہا ہوتے ہی میرے پاس چلی آتی۔ میری طرف سے اسے ملی تھوڑی سی حوصلہ افزائی نے اسے کس قدر بدل دیا تھا۔ اس کی دی ہوئی ہر چیز میں نے قبول کی تھی۔ یہ ایک ایسا احساس تھا جس نے دنوں میں ہی اس کی شخصیت میں اعتماد اور لہجے میں تمکنت پیدا کر دی تھی۔ اب اس کی کالی رنگت میں بھی مجھے کشش محسوس ہوتی تھی۔

احساسِ کمتری ایک ایسا زہر ہے جس سے بسا اوقات وہ لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں جو خود دوسروں کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے والے ہوتے ہیں۔ میں نے شادی کی پہلی رات ہی اسے اس کی نظروں میں کمتر باور کرایا تھا اور اس کی جھجھک اور پہلو تہی نے لوگوں کی نظروں میں مجھے مظلوم، ظالم، قربانی کا بکرا، اکڑ باز اور نجانے کیا کیا باور کرایا تھا۔

مگر اب میری طرف سے کچھ نرمی محسوس کر کے اس نے کمتر ہونے کا احساس اپنے دل سے نکال دیا تھا۔ دنیا کی نظروں میں بدصورتی کے اولین لوازم (کالی رنگت) کے باوجود اب وہ پرکشش ہو گئی تھی۔ کچھ ماہ بعد جب لیڈی ڈاکٹر نے میری نوزائیدہ بیٹی لا کر مجھے دکھاتے ہوئے کہا کہ میری بیوی کی حالت نازک ہے تو میں اپنی بیٹی کو سینے سے لگائے اندر اپنی بیوی کے پاس لے گیا تھا۔

"زاران"۔

نجانے وہ کیا کہنا چاہتی تھی؟ مگر اب کہ میں کچھ بولنا چاہتا تھا۔ سو انگلی کے اشارے سے اسے خاموش کرا دیا۔

"تمہیں یاد ہوگا جب ہماری نئی نئی شادی ہوئی تھی تم ہمیشہ پوچھتی تھی میں کیسی لگ رہی ہوں؟ میں جواب دیے بغیر آفس چلا جاتا تھا۔ تم نے کبھی میرا جواب جاننے کی کوشش کیوں نہیں کی تھی نایاب؟"

"کیونکہ میں جانتی تھی میں کیسی ہوں۔ زاران میں۔

"تم بہت خوبصورت ہو۔ میری بیوی اور اس بچی کی ماں کے روپ میں تم بہت خوبصورت ہو۔ یہ ڈاکٹرز کیا کہہ رہے ہیں حالت بہت نازک ہے"۔

بیٹی کے ماتھے پر بوسہ دے کر اسے میں نے نایاب کے پاس لٹا دیا تھا اور نایاب کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔

"تمھاری حالت ضرور اچھی ہو گی۔ کیونکہ تمھارے پاس یہ احساس ہے کہ دوسروں کی نظروں میں تم جیسی بھی ہو مگر میری نظروں میں تم بہت خوبصورت ہو"۔

میرے لفظوں نے اسے جیسے نئی زندگی عطا کر دی تھی۔ کافی دیر وہ اشک بار رہی اور ایک دم سے آسودہ ہو گئی۔

"ویسے میں سوچ رہا تھا کہ مجھے ٹائیز اور دیگر گفٹ دینے میں کامیاب ہونے پر تم اتنی خوبصورت ہو گئی ہو تو یہ جو ننھی پری کی صورت میں میں نے تمھارا گفٹ قبول کیا ہے، اس کا احساس تمھیں کتنا خوبصورت کرے گا؟"

میں نے یہ الفاظ کہے تو مجھے یقین تھا کہ اگر اسپتال نہ ہوتا تو وہ تڑپ کر میرے گلے لگ جاتی اور اس منظر سے خوبصورت منظر بھلا کیا ہو سکتا تھا۔ میں نے بڑھ کر اس کے ماتھے پر بوسہ دیا تو اپنی اہمیت کے اس احساس نے میری نظروں میں اسے حد سے زیادہ خوبصورت بنا دیا تھا۔

Check Also

Pakistan Se Baramad Kiye Jane Wala Chawal

By Zafar Iqbal Wattoo