Dehleez (1)
دہلیز (1)
بیٹیاں گھر کی عزت نہیں عزت کی ضامن ہوتی ہیں آنکھوں میں حیا اور سر پہ دوپٹہ ان کی تہذیب اور تربیت کو ظاہر کرتا ہے جو انہیں بچپن سے دی جاتی ہے۔ گھر کی عزت بیٹیاں نہیں ہوتی بیٹیوں سے گھر کے عزت کا تعین کیا جاسکتا ہے۔ یہ بھی ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جس نے نادان دل کی پکار پر انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلہ مگر ازل سے مہربانی والدین کی محبت نے اسے سنبھال لیا تھا۔
"آج رات میں ٹھیک بارہ بجے گاڑی لے کر تمھارے گھر کے باہر آؤں گا۔ تم اپنا سامان لے کر آجانا پھر ہم اس شہر سے دور چلے جائیں گے اور نکاح کرکے واپس آجائیں گے۔۔ "
"کوئی مسئلہ تو نہیں ہوگا؟"
فون کان سے لگائے وہ جو ہلکی آواز میں بول رہی تھی، ایک دم سے اس کی گفتگو میں اندیشے سمٹ آئے۔ نظریں بار بار دروازے پر جمی ہوئی تھیں۔
"نہیں ہوگا کوئی مسئلہ میں ہوں نا۔ فکر نہ کرو۔۔ بس آج رات کو تیار رہنا "
دوسری طرف سے بات مکمل ہونے پر فون بند ہوگیا تھا۔
"سونیا بیٹا ابھی تک ہنڈیا نہیں چڑھائی چولہے پر ابو آنے والے ہیں مغرب سے پہلے پہلے بنا لو۔۔ "
والدہ کی آواز سے وہ اٹھی اور موبائل واپس سائلنٹ پر لگا کر وہیں گدے کے نیچے چھپا کر کچن میں کھانا بنانے چلی گئی۔
وہ چار بہنوں میں سب سے بڑی تھی اور سب کی لاڈلی بھی تھی خاص طور پر اپنے والد کی۔
"امی آج ابو کچھ زیادہ ہی لیٹ نہیں ہوگئے؟"
کھانے کی میز پر انتظار کرتے سونیا نے پوچھا تھا
"ابو کا فون بھی بند جارہا ہے "
چھوٹی بہن فوزیہ نے ایک بار پھر گھر کے ٹیلی فون سے نمبر ڈائل کیا تھا۔
"اللہ خیر کرے میں دلاور بھائی سے کہوں وہ فیکٹری ہوکر آئیں؟"
نسیم بیگم نے اپنی بیٹیوں کی طرف دیکھ کر پوچھا تھا
"نہیں امی چچی کا آپ کو نہیں پتہ پھر طعنے دینا شروع کردیں گی۔۔ باتیں سنائیں گی۔ ہم اور انتظار کرلیتے ہیں۔۔ "
اور کچھ دیر بعد دلاور صاحب بڑے بھائی کو سہارا دیتے ہوئے اندر لارہے تھے جن کے سر پر سفید پٹی بندھی ہوئی تھی
"ابو۔۔ کیا ہوا ہے آپ کو۔۔ "
سب سے پہلے سونیا اٹھ کر ان کی طرف بھاگی تھی۔۔ اتنی تکلیف میں ہونے کے باوجود بھی حیدر صاحب نے سونیا کے ماتھے پر بوسہ دے کر اسے یقین دلایا تھا کہ وہ ٹھیک ہیں۔۔
"بچو میں ٹھیک ہوں بس فیکٹری میں چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔۔ "
"چھوٹا سا بھائی؟ کتنی اونچائی سے گرے آپ۔۔ زرا سا دھیان سے کام نہیں لے سکتے؟"
دلاور صاحب نے انہیں بیڈ پر لٹا کر غصے کا اظہار کیا تھا
"ہاہاہا۔ " وہ حوصلہ افزا انداز میں ہنسے۔ "بچو میں بلکل ٹھیک ہوں۔ ہاں بھوک بہت لگی ہے۔ ظالم بیگم کھانے کا ہی کچھ پوچھ لیں۔۔ "
نسیم بیگم کو روتے ہوئے ہنسانے کا یہ موقع اچھا تھا۔ وہ آنسوٶں سے مسکرائیں:
"میں ابھی لائی۔۔ "
"ہاں اور کچن میں جا کر تھوڑا اور رو لینا۔۔ جیسے میں مر۔۔ "
"بس کرجائیں ابو خدا کا واسطہ اب ایسی باتیں نہ کریں۔۔ "
حیدر صاحب کی تینوں بیٹیاں ان کے گلے لگ گئیں تھیں۔ باپ کی شفقت بھری آغوش نے جیسے انہیں اپنے تحفظ میں لے لیا تھا۔
***
بارہ بجنے میں کچھ گھنٹے باقی تھے۔ سونیا کبھی اپنے گھر والوں کو دیکھتی تو کبھی دیوار پہ لگی گھڑی کو۔۔ لیکن اس نے اپنا انداز غیر محسوس رکھا۔ مبادا اس کی تشویش بھری حالت سے کچھ ظاہر نہ ہوجائے۔ کھانے پروسنے کے بعد والد صاحب کے کمرے میں دودھ کا گلاس اور دوا دے کر وہ واپس اپنے کمرے میں آگئی تھی۔۔
دس بجے معمول کے مطابق سب گھر والے نیند کی پرسکون وادی میں اتر گئے تھے سوائے اس کے۔۔ گھڑی کی ٹک ٹک کے ساتھ اس کے دل کی دھڑکن بڑھتی جا رہی تھی۔
سونیا نے اسی وقت کمرے کی کنڈی لگا کر اپنی الماری سے کچھ کپڑے نکال کر ایک چھوٹی سے گٹھڑی میں باندھ لیے تھے جسے فورا اس نے چارپائی کے نیچے چھپایا اور خود بستر کے نیچے سے موبائل فون نکال کر عجلت میں چیک کرنے لگی۔ بےشمار میسجز اور مسڈ کالز آئی ہوئی تھیں۔ اس نے نمبر ڈائل کر کے فون کان سے لگا لیا۔
"تھنک گاڈ تم نے فون اٹھایا میں تو سمجھا تھا تم نے ارادہ بدل لیا ہے۔۔ "
دوسری جانب سے آواز سن کر اس نے گہرا سانس بھرا تھا
"کیا ہم پھر کسی وقت یہ سب نہیں کرسکتے۔۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔۔ ہادی مجھے لگتا ہے۔۔ "
"ہولڈ آن۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے؟ یہاں میں اپنا گھر مستقبل سب داؤ پر لگا کر آیا ہوں سونیا۔۔ اب پیچھے جانے سے بہتر میں یہیں جان دے دوں اپنی۔۔ " یہ حربیاتی جذباتیت تھی۔ شاید ہادی کامیاب ایموشنل بلیک میلر رہا تھا۔
"ہادی پلیز۔۔ "
"اگر تم پورے بارہ بجے گھر کے دروازے پر نہ آئی تو میں اپنی جان دے دوں گا۔۔ "
سونیا کی آنکھیں بھر آئیں۔ دوسری طرف سے فون بھی بند ہوگیا تھا۔
***
"کیا کہا بچی نے؟ منع کردیا ناں؟ کہا تھا ناں ہم نے عین وقت پر انکار کردے گی۔۔ "
"شٹ۔۔ آج رات کی ساری پلاننگ خرا ب ہوگئی۔۔ "
ہادی کے دوست جو گاڑی کو اگلی گلی میں کھڑا کرکے بارہ بجنے کا انتظار کررہے تھے اب اپنے غصے کا اظہار کررہے تھے
"ہاہاہاہا وہ بیوقوف لڑکی ٹھیک بارہ بجے گھر کی دہلیز پر ہوگی دیکھ لینا۔۔ میری محبت میں اندھی ہوچکی ہے وہ پوری طرح سے"
اس نے سگریٹ کا دھواں ہوا میں اڑایا تھا چہرے پر مکاری نے اسے کی شکل کو اور بدصورت بنا دیا تھا۔ بھٹکتے سناٹوں میں ان کی مکروہ ہنسی بیکراں حد تک بکھر گئی تھی۔
***
"کم آن یار جلدی آؤ تمہاری گلی میں گاڑی زیادہ دیر کھڑی نہیں رکھ سکتا میں۔ کسی کو شک ہوجائے گا۔۔ "
"اوکے۔۔ اوکے آرہی ہوں۔۔ "
"اپنا سامان اوپر سے نیچے پھینک دینا۔۔ ناؤ ہری اپ۔۔ "
اور وہ ہادی کے حکم پر وہ دائرہ پار کرنے جا رہی تھی جو ماں باپ کی طرف سے بچپن سے ہی بیٹیوں کو حد میں رکھنے کے لیے کھینچ دیا جاتا ہے۔ رات کی تاریکی میں سونیا نے طے کرلیا تھا کہ آج وہ ان سب حدود کو توڑ کر عزتوں کو پیروں کی دھول بنا کر روند جائے گی۔۔
اس کا کمرہ اوپر والے پورشن میں تھا۔ کمرے سے باہر کھلے صحن تک وہ دبے پاؤں آئی تھی اور کپڑون کی گھٹری اس نے دیوار کے چوکور شگاف سے باہر پھینک دی تھی، اور سلائیڈنگ گلاس دونوں طرف سے کھینچ دیا۔ ہادی نے گٹھڑی کو پکڑ لیا اور مسکراتے ہوئے باہر آنے کا اشارہ کیا تھا۔۔
اور وہ محبت میں اندھی بیوقوف لڑکی منہ لپیٹے سیڑھیوں کی طرف بڑھی تھی جب والد کے کھانسنے کی آواز پر اس کے قدم رکے تھے اور پھر گلاس گرنے کی آواز آئی تھی۔
حیدر صاحب بری طرح کھانس رہے تھے نسیم بیگم نے جلدی سے گلاس اٹھا کر انہیں پانی پلایا تھا۔۔
"حیدر صاحب بس کرجائیں۔۔ مجھے اٹھا دیتے کیا ہوگیا ہے آج بھی آپ نے لاپروائی کی اور دیکھیں کتنی چوٹیں لگوا بیٹھے ہیں۔۔ "
نسیم بیگم کی ڈانٹ بھری آواز سن کر نجانے کیوں وہ واپس ان کے کمرے کی طرف بڑھی تھی۔ حیدر صاحب نے دوگھونٹ پانی لیا جو کہ کھانسی رکنے کے لیے کافی ثابت ہوا۔ وہ بےساختہ ہنس دئیے تھے
"آج لاپروائی میں نہیں خوشی میں گر گیا تھا میں۔۔ ہاہاہا"
ان کو اس طرح ہنستے دیکھ سونیا کے چہرے پر بھی مسکان آئی تھی اور وہ واپس بڑھنے لگی تھی جب والد کی اگلی بات پر اس کے قدم وہیں جم گئے تھے
"ایسی بھی کیا خوشی حیدر صاحب آپ کو احتیاط کرنی چاہیے تھی"