Urdu Mukhtalif Daur Mein Bare Zarf Ke Sath
اردو مختلف دور میں بڑے ظرف کے ساتھ
اردو کا مطلب لشکر نہیں بلکہ اردو کا اک مطلب لشکر بھی ہے بڑے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اردو کی تاریخی ورقوں کو ہم نے بند کرکے ان افواہوں پر زور دیا اور ایمان لے آئے ہیں کہ اردو واقعی لشکر زبان ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی لشکرکے ہیں اور یہ مغل بادشاہوں کی چھاؤنیوں میں بولی جانے والی زبان ہے جو فارسی، عربی، ہندی، ترکی اور دوسری زبانوں کے ملنے سے وجود میں آئی۔
چلیں اک دفاع کو مان لیا کہ اردو لشکر زبان ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا کوئی بھی لشکر اتنی وسیع حروف، پیچیدہ، سنجیدہ، مزاحیہ گو کہ ہر رویہ کی نوعیت پر مکمل اترتی ہوئی زبان اور وسیع و جمع ادب کی زبان کو بنا سکتا ہے! جبکہ میرے خیال میں تو فوجیں زبان بگاڑتی ہیں بنا نہیں سکتی فوجوں کے استعمال میں گویا اوپر، نیچے، آگے، پیچھے اور چند اک اور لفظ کےعلاوہ کیا الفاظ ہوں گے۔
آج سے 13 صدیاں پہلے تُرکی کا شہر جو بحیرۂ اسود کے کنارے آباد تھا اس کا نام اُوَردُو مطلب ہماری زبان "اُردو" تھا مگر مزے کی بات یہ ہے کہ اس شہر میں کبھی کوئی فوجی چھاؤنی اور دستہ نہیں تھا جب اک چیز بنیاد میں ہی نہیں تو عمارت میں کیوں کر آئیگی اُوَردُو شہر اک بہت پرسکون اور خوبصورت شہر تھا جس میں اک قلتکیم نام کی لاٹ تھی جس میں گوک ترک زبان میں 46 سطروں کی اس لاٹ پر 20 بار سے بھی زائد مرتبہ اُوردو لفظ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے جن میں شاہی محل، ریاست اور مرکز شامل ہیں۔
گویا یہ لاٹ لفظ اردو کے استعمال کی قدیم ترین شہادت دیتی ہے، ترک زبان شاعر یوسف خان حاجب نے ہماری توجہ اردو کے معنٰی پر دلاتے ہوئے کیا خوب اپنی کتاب "شاہی دانش" میں لکھا ہے کہ "دنیاقید خانہ ہے، اس کی محبت میں گرفتار مت ہونا بلکہ اک بڑے اُردو اور ملک کی تلاش کرو تاکہ چین سے رہ سکو، موت نے بڑے بڑے اُردو اور ملک اجاڑ دیے"، یہاں اردو کا مطلب تھوڑا بدل کر "شہر" ہوگیا ہے جاننے کی بات یہ ہے کہ اُوَردُو اور اُردو میں صرف ادائیگی کا فرق ہے اردو لشکروں کی زبان نہیں بلکہ اک ہم جھولی زبان ہے اس کی تاثیر بڑی میٹھی اور ادائیگی بڑی سلیس ہے۔
ہماری دماغی ہسٹری میں اردو کامطلب لشکربڑی غلط طرح سے لایا گیا ہے جب چنگیز خان کے پوتے باتو خان نے 1235ء میں یورپ پر دھاوا بولا اور کچھ ہی وقت میں پولینڈ، ہنگری اور روس کو روند کر رکھ دیا تو اس وقت اس تمام عمل کے دوران باتو خان کے استعمال میں جو منکش طلائی خیمہ رہا یہ خیمہ 2 منزلہ تھا اور مردوں، عورتوں کے رہنے کی جگہ الگ الگ تھی جبکہ اس میں سینکڑوں لوگوں کی گنجائش تھی۔
چونکہ یہ اک موبائل خیمہ تھا اس وجہ سے جب لوگ اسے گزرتا ہوا دیکھتے تو کہتے کہ وہ دیکھو لشکر جارہا ہے، یوں رفتہ رفتہ لفظ اردو کا مطلب کا اک مطلب لشکر بھی بن گیا باتو خان کے اس خیمے کی وجہ سے تمام خیمہ گاہوں کو الطون اُوردو یعنی سنہرہ کیمپ کہا جانے لگا جس کا مطلب تھا شاہی خیمہ اور شاہی خیمے کو اُوَردُو اس لیے کہا گیا کیوں کہ تُرکی میں اُردو کا مطلب شاہی محل، شہر، ریاست اور مرکز رہا ہے۔
اردو لفظ ہندوستان میں منگولوں کے ذریعے پہنچا اور پھر جب 1648 میں شاہجہان نے دلّی کے قریب اک نئے دارالخلافہ سلطنت کی بنیاد رکھی جو ویسے تو شاہ جہان آباد کہلایا لیکن پھر شاہی محل کی نسبت سے اسے اُردوئے معلّٰہ کہا جانے لگا، لفظ و معنی کے جادوگر، شاعرِ بے مثال میر تقی میرؔ آسیبِ اردو غزل کے ماموں خان آرزو اپنی لغت میں لکھتے ہیں کہ ہم اردوئے معلّٰہ میں رہتے ہیں لیکن اس کے معنی سے نہ واقف ہیں فرماتے ہیں کہ اس میں دو زبانیں بولی جاتی ہیں اک فارسی اور دوسری اُردو یہ اور بات ہے کہ اس وقت تک اردو کا کوئی نام متیّن نہیں تھا چناچہ اسے کبھی ہندکی، ہندی، دکنی اور کبھی ریختہ کہا جاتا تھا اور بعد ازاں اُردوئے معّلٰہ کی زبان بھی کہا جانے لگا۔
"ذبانیں ایسے نہیں بنتیں کہ دوتین زبانوں کو اک ساتھ ملا کر اچھی طرح ہلائیں تو اک نئی زبان تیار ہے گلاس میں ڈالی اور پی لی"۔
اردو زبان دنیا میں تیسری بڑی بولی اور سمجھی جانے والی ہے لہٰذا اتنی وسیع لغت و قوائد اور سینکڑوں دلوں میں بڑی شان سے براجمان اس زبان اردو کی ابتدا و پیدائش محض اتفاق نہیں ہوسکتی کاروانوں، فوجی چھاؤنیوں اور لشکروں کے ذریعے اگر ایسی زبان وجود میں آسکتی ہے تو پھر آپ سوچیے کہ ایسی سوچ رکھنے والوں کے لیے ہماری آقائی و دفتری زبان انگریزی کا وجود کس قدر معمولی ہوگا۔
بات رہی کہ اردو کا دوسری زبانوں سے اتنا میل جول کیوں ہے اردو گرامر میں ہندی سے مماثل جبکہ رسم خط میں عربی اور فارسی جیسی ہے اور یہ اس کے آغاز کی نشان دہی کرتا ہے۔ اردو تو معاملہ فہم زبان ہے، جہاں دو مختلف زبانوں کے بولنے والے جمع ہوجائیں اور اک دوسرے کی زبان کو سمجھ نا پارہے ہوں وہاں اردو صلح اور مفاہمت کا میدان سجاتی ہے اردو بڑی ہم جھولی زبان ہے اپنے اندر کئی رنگ لیے ہوئے ہے۔
ہم اپنی قومی اور شائستہ زبان چھوڑ کر غیر زبان کے پیچھے ہولیے ہیں ڈاکٹر عارفہ زہرہ کیا خوب کہتی ہیں کہ ادھار کی زبان ادھار کی قدریں اور ادھار کا رہن سہن لے کر آتی ہے آیا کہ غلام بنانے آتی ہے آج کے ہمارے نوجوان اردو میں سوچنا بھی نہیں جانتے اور جو جانتے ہیں وہ اسے پسماندگی سمجھتے ہیں اور اسے اپنی مادری زبان ہونے کے باوجود بھی دوئم رکھتے ہیں اردو پسماندہ اور لاچار نہیں ہے یہ لفظوں کو خوبصورتی سے اک دھاگے میں پرونے کا نام ہے اک ایسی زبان ہے جو اپنے اندر وقت کے دھارے میں اور حالات کے سانچے میں ڈھلنے کی قوت رکھتی ہے اور ایسی زبانیں بلخصوص جغرافیائی حدود نہیں رکھتیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ اردو ہر خطے کے لوگوں کے دلوں میں گھر کیے ہوئے ہے حالات کے آگے سر بلند اور باوقار رہتی ہیں۔
ہمارا قومی ترانہ بھی آج تک ہمارے لیے اک معّمہ ہے جیسے کہ ہم کہتے ہیں کہ اس میں اک لفظ "کا" کے علاوہ سارے الفاظ فارسی کے ہیں جب کہ ہمارا "قومی ترانہ" اردو کی نفیس ترین شکل ہے لیکن چونکہ ہم نے اُردو کو اتنا جانا ہی نہیں ہے کہ اس کی تمام تر اشکال سے واقف ہو سکیں چناچہ جب 1952 میں حفیظ جھلندھری نے قومی ترانہ لکھا تواس وقت فارسی کا دور دورہ تھا اور شاعرِمشرق علامہ اقبال سے لے کر حفیظ جھلندھری تک متعدد دانشور اور شاعر فارسی پر عبور رکھتے تھے اس دور میں اک فارسی و عربی اور اردو شاعر حفیظ جھلندھری کے قلم سے اردو کی اک ایسی نفیس صورت اور دلفریب لفظ سامنے آئے جنھیں ہم اپنی کم عقلی کی وجہ سے فارسی کہتے آئے ہیں۔
دراصل وہ اردو کی فراغ دامنی اور سخن نوازی کا ثبوت ہے یہ فراغ الفطرت زبان اپنے پہلو میں مولانا شبلی نعمانی، نظیر اکبر آبادی، مستنسر حسین تارڑ، ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرہ اور میرے دلعزیز شاعرِمشرق جنھیں فارسی پر عبور اور اردو سے عشق تھا ان جیسے نگینے رکھتی ہے، زبان خیال کا وطن ہے اور اردو پر ستم یہ ہے کہ یہ خیال سے ہی وطن بدر ہوئی ہے آج، ہمارا نوجوان جب کچھ لکھنے بیٹھتا ہے تو انگریزی کے لیے پر تولتا ہےکیوں کہ اسے سکھایا ہی نہیں گیا کہ وطن سے محبت کا اک لازمی جز محبتِ زبانِ وطن بھی ہے۔
زبانوں کی جغرافیائی حدود نہیں ہوتیں یہ خیالوں کی عکاسی کرتے ہوئے اپنے متوالوں کے دلوں میں سفر کرتی ہیں اور اپنے بولنے سمجھنے اور چاہنے والوں کے دلوں کے خیالوں کو اپنا وطن بناتی ہیں اب دیکھئے کہ ہم نے کیا کیا اردو کو غریب الوطن کر دیا ہمارا ایسا رویہ اپنے وطن سے غداری ہے کیوں کہ جیسا کہ میں نے عرض کیا زبان فکر کا وطن ہے اور جب فکر غیر کے وطن سے منسلک ہو تو وطن میں دل کہاں لگتا ہے۔ ہر زبان اک وطن ہے اور ہرلکھنے، بولنے اور سوچ و فکر رکھنے والا شخص کسی نہ کسی زبان کا شہری ہوتا ہے۔
ہمارا المیہ تو دیکھیےکہ ہم جس زبان کے شہری ہیں اسے معزرتاً بولتے ہیں بلخصوص ہمیں جب گالیوں کی حاجت ہو تو ہم اردو کا دامن تھام لیتے حتٰی کہ اب گالیوں کا بھی کال پڑنے لگا ہے گو کہ اس سے اردو کے ظرف میں تو کوئی کمی واقعہ نہیں ہوتی اردو تو ادب الادیب ہوکر مغلوں کے دربار میں بڑی شان سے رائج رہی پر ستم تب کہ جب یہ وقت کے دھارے میں بہتے ہوئے ہم نا قدروں کے دامن میں آن ٹھہری ہم نے اردو کے ساتھ وہی سلوک کیا ہے جو ہم نے اپنی جوانی کی سیاسی نہج کے ساتھ کیا ہے
نعرے بہت معنٰی بلکل نہیں۔
طاقت بہت قوت بلکل نہیں، اختیار بہت وسعت بلکل نہیں۔
ہمارا اردو کے ساتھ ایسا سلوک اپنے ورثے کی نا قدری ہے اک مہذب اور با ادب زبان ہمارے درمیان ہے اور اک ایسی صلح پسند زبان جو کسی کے لیے مسئلہ نہیں بنتی ہمارے بلوچی، سندھی، سرائکی، پشتو اور دوسری زباموں کے بھائی بھی اسے دوئم زبان رکھتے ہوئے مستحکم ہیں، میں اردو کو مظلوم نہیں مانتی، میرا ہر گز مطلب نہیں ہے کہ اردو مظلوم زبان ہے اردو تو مزاحمت پسند زبان ہے اس نے جنم بھی مزاحمت سے لیا، اور آج بھی مزاحمت کا ہنر رکھتی ہے، مزاحمت سے ہی سر بلند رہے گی۔
اردو شاعری میں رنگ، افسانوں میں دلچسپی، کہانیوں جان ڈال دیتی ہے لفظوں کےبہاؤ سے کانوں میں رس گُھلتا محسوس کرنا ہو تو اردو شاعری پڑھیے مرزا غالب، میر تقی میر، اور بس اک بار زرا مستنسر حسین تارڑ کا افسانہ "بہاؤ" پڑھیے زبانوں مکاں کی حدود سے پرے اردو تمام زبانوں، زمانوں اور افراد کی غریب الوطنی کا رنج مناتی ہوئی چلی جا رہی ہے اور اس کی یہ مفاحمت ہی اس کی طاقت اور عروج کی نشانی ہے لشکر کی زبان بھلا اپنے اندر اتنا غلبہ نہیں رکھ سکتی چناچہ لشکر ہمت تو دیتا ہے مگر فرد کی پہچان چھین لیتا ہے دنیا میں آج 7000 سے زیادہ زبانیں ہونے کے باوجود اردو جس قامت قد کے ساتھ کھڑی ہے وہ اس کے باوقار ہونے کی ہی مثال ہے۔