Afreen Fatima Ka Ghar
آفرین فاطمہ کا گھر
اپنے گھر کے پُر سکون ماحول میں بیٹھ کر ٹی وی سکرینوں پہ چلتے ہوئے سیاسی بحث و مباحثوں کے دوران کسی کا دکھ محسوس کیا جا سکتا ہے؟ انڈین بہن آفرین فاطمہ کی ایک بات نے مجھے جکڑ لیا۔
"دس دِن پہلے تک ہم بھی اپنے گھر میں آرام سے بیٹھے ہوئے تھے"۔ آفرین Activist ہیں۔ الہ آباد (جس کا نام بدل کر پریا گرج رکھ دیا گیا ہے) کی ہیں۔ ان کا اور ان کے والد جاوید صاحب کا تعلق ویلفیئر پارٹی سے ہے۔ جاوید صاحب متنازعہ Citizen Amendment Act 2019 کے بہت بڑے ناقد ہیں۔ 11 جون کو بے بنیاد الزامات لگا کر ان کو گرفتار کیا گیا اور 12 جون کو ان کا گھر بلڈوزر سے مسمار کر دیا گیا۔
مسلمان چاہے عرب ہو "افریقن ہو، انگریز یا چائنیز مسلمان بھائی ہے لیکن یہ انڈین مسلمان تو ساتھ والے گھر کی بات ہے یہ تو رنگ، نسل، زبان بھی ایک ہے۔ یہ تو تقسیم کے وقت کا بچھڑا بھائی ہے۔ کوئی عجیب طرح کا دُکھ اور بے بسی ہوتی ہے ان کے حالات جان کر۔ ہماری نفسیات بن گئی ہیں کہ جو ہم سے (resources) وسائل اور ٹیکنالوجی میں آگے ہیں ہم اُن سے دب سے جاتے ہیں۔ امریکہ ظلم کرے یا پھر اسرائیل ہم خاموش رہیں گے۔
برما میں ظلم ہو تو بہت دور پار کی بات معلوم ہوتی ہے ہم آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ لیکن یہ تو بھارت ہے اِن سے کب ہم نے دبنا شروع کیا؟ ہم نے تو بھارت سے کشمیر آزاد کرانا تھا۔ حالت یہ ہو گئی ہے کہ بھارتی مسلمان سخت تکلیف میں ہیں۔ میڈیا پہ جو خبریں آتی ہیں یہ مبالغہ نہیں ہے اور دُکھ تو انسانیت کے مر جانے کا بھی ہے کہ مسلمان جب تعصب اور ظلم کا شکار ہوتا ہے کثیر تعداد میں لوگ ہوٹنگ کرتے ہیں اور انجوائے کرتے ہیں۔
قلیل تعداد میں لوگ خاموش تماشائی بن جاتے ہیں اور انتہائی کم ہیں وہ لوگ جو ظلم کے خلاف بولتے ہیں۔ یہ دنیا کدھر جا رہی ہے؟ ہندو تو ایک ماننے والا خاموش تماشائی ہو تو بات پھر بھی سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن پڑوس میں بھائی کا گھر بلڈوزر سے روندا جا رہا ہو اور ہم خاموش تماشائی ہوں۔ یہ کیسی غفلت ہے؟ ہم کتنے دِن کتنے مہینے یا سال اپنے گھروں میں سکون سے رہ لیں گے؟ ہم تسلیم کریں یا نہ کریں اِس بلڈوزر کا رخ کل کو ہماری طرف ہونا ہے۔
سورۃ البقرہ آیت (61) میں بنی اسرائیل کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: "مسلط ہوگئی اُن پر ذِلت اور مسکنت اور گھر گئے وہ اللہ کے غضب میں یہ اس لیے ہوا کہ وہ انکار کرتے تھے اللہ کی آیات کا اور قتل کرتے تھے نبیوں کو ناحق"۔
ذلت عربی میں اُس حالت کو کہتے ہیں جب انسان دوسروں کی نظر میں بے عزت ہو۔ کسی کو آپ سے کوئی ڈر نہ ہو۔ اُن کو آپ کا کوئی regard نہ ہو اور مسکنت انسان کی اپنی اندرون کیفیت ہے۔ اپنی نظر میں بے وقت ہونا low self esteem اور low self respect ہونا دوسروں کا محتاج ہونا ہے۔ یہی تو ہیں ہم آج اندر سے مسکنت ہے اور اوپر سے ذلت چھائی ہوئی ہے۔ سوال آتا ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ایک عام پاکستانی جو اپنے گھر میں بیٹھ کر خبریں سُن کے مایوس ہو جاتا ہے جو اپنے ملک کے حالات سے پریشان ہے۔ وہ کیا کرے؟ کیا وہ کچھ کر بھی سکتا ہے؟
میرا خیال ہے ہاں! سب سے پہلے تو وہ اِس احساس کو ضائع نہ کرے۔ اس کو کوئی فنی کلپ لگا کر یا کسی اور چیز میں اپنا دھیان بٹا کر ضائع نہ کریں۔ ہم جس بھی capacity میں ہیں۔ جس مقام پہ بھی ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم جاگ جائیں۔ آج کے حالات میں مزاحمت کریں اور ثابت قدم رہیں۔ جیسا کہ آفرین فاطمہ نے کہا کہ ہم اپنے حکام پہ زور ڈالیں تاکہ وہ اِن مظالم کے خلاف ایک جاندار آواز اٹھا سکیں۔