Saturday, 21 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shujaat Khan Ahamadani
  4. Tehreek Insaf Ke Do Saal, Kya Khoya Kya Paya

Tehreek Insaf Ke Do Saal, Kya Khoya Kya Paya

تحریک انصاف کے دو سال، کیا کھویا کیا پایا

عمران خان نے اپنی بین الاقوامی کرکٹ کا آغاز سنہ 1971 میں انگلینڈ کے خلاف کیا تھا لیکن انھیں اپنی پہلی ٹیسٹ وکٹ کےلیے مزید تین سال انتظار کرنا پڑا تھا۔ 25 جولائی 2018 کو منعقد عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو فتح نصیب ہوئی اور تبدیلی کا سورج طلوع ہوا۔ 26 جولائی کو عمران خان نے بطور فاتح قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنی حکومت کے قیام کا عندیہ دیا ٹیسٹ کرکٹ کی پہلی وکٹ کےلیے تین سال لیکن وزارت عظمیٰ کےلیے 22 سال انتھک محنت کرنی پڑی یاد رہے کہ اس سے پہلے بین الاقوامی کھلاڑیوں میں لائیبریا کے سٹار فٹ بالر جارج ویہہ 2008 میں وزیراعظم رہ چکے ہیں 17 اگست 2018 کو عمران خان 176 ووٹ حاصل کرکے ملک کے بائسویں وزیراعظم پاکستان بنے۔ 18 اگست کو انہوں نے بطور وزیراعظم پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھایا۔

جب آئے گا عمران بنے گا نیا پاکستان ہمیں یہ خواب دیکھایا گیا کہ روٹی سستی ہوگی اور مہنگی ہوگی جان اب عام انتخابات کو دو سال مکمل ہو گئے ہیں اور تبدیلی کے سورج کو طلوع ہوئے بھی دو سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اقتتدار میں آنے سے پہلے عوام کے ساتھ بے شمار، بلندو بانگ دعوے کیے گئے تھے جو پاکستان کی سیاست میں عوام کو بے وقوف بنانے کےلیے سیاستدانوں کی طرف سے ہمیشہ کیا جاتے ہیں پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں کےلیے عوام سے وعدے کرنا اور ملک بارے ایک تابناک تصویر پیش کرنا ہمیشہ سے آسان نسخہ رہا ہے جس میں معاشی خودانحصاری ہمیشہ سرفہرست رہتی ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے بھی روایتی سیاستدانوں کی طرح وہ تمام وعدے کر ڈالے جن کو پورا کرنا ان کےلیے بہت مشکل تھا انہوں نے حکومتی مالیاتی اداروں بالخصوص آئی ایم ایف کے پاس جانے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور جوش و خطابت میں یہاں تک کہہ ڈالا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر ہے وہ خودکشی کرنے کو ترجیح دیں گے لیکن شاید حکومت میں آنے کے بعد ترجیحات بدل جاتی ہیں اس کو مجبوری کہا جائے یا کچھ اور ایسا ہی تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ ہوا کپتان نے پہلے 100 روز کا منشور دیا پھر وہ منشور بڑھتے ہوئے چھ ماہ تک چلا گیا۔ پھر یہ بتایا جانے لگا کہ ایک سال دے دیں حالات مزید بہتر کردیں گے پھر بات دوسال تک پہنچ گئی۔ اب بلا آخر دو سال گزر گئے لیکن حالات بہتر نہیں ہوسکے۔ 126 دن کینٹینرز پر کھڑے ہوکر عوام سے کیے جانے والے وعدے، پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنائیں گے، پولیس کا نظام ٹھیک کریں گے، مافیا کو لگام ڈالیں گے، ملک کے حالات مزید بہتر کریں گے، معیشت مظبوط کریں گے، ایک کروڑ نوکریاں مہیا کریں گے، ملک لوٹنیں والوں کو این آر او نہیں دیں گے، 50 لاکھ گھر تعمیر کروائیں گے، اب دو سال گزرنے کے باوجود عوام کےلیے کچھ نہیں کیا گیا سوائے یوٹرن لینے کے۔ حکومت کی جانب سے پالیسیوں پر مستقل مزاجی نہ ہونے کی وجہ سے جب تنقید بڑھی تو وزیراعظم عمران خان کو یہاں تک کہنا پڑا کہ حالات کے مطابق یو ٹرن لینے والا کبھی کامیاب لیڈر نہیں ہوتا۔

سب سے پہلے وزیراعظم ہاؤس میں کھڑی گاڑیوں اور بھینسوں کی نیلامی کرکے ملک کے اوپر مینڈلاتے معاشی بحران کو ٹالنے میں کامیاب نہ ہوسکے تو حکومت کی جانب سے ائی ایم ایف کے پاس جانے کا اعلان کر دیا گیا اس پر وزیراعظم عمران خان صاحب کو حزب اختلاف کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ شاید اس وجہ سے کپتان کو کہنا پڑا کہ قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کا بوجھ حکومت میں ان ہوتے ہی ملا ہے اگر فوری طور پر قرضہ نہ لیتے تو ملک ڈیفالٹ کر جاتا اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا گزشتہ دو مالی سالوں کے دوران تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے 29 ارب 20 کروڑ ڈالر مالیت کے بیرونی قرضے لیے گئے ہیں اگر مہنگائی کی بات کی جائے تو وہ دوگنی ہو چکی ہے ن لیگ کی حکومت کے اختتام پر آٹے کی قیمت 32 روپے تھی جو اب بڑھ کر 52 روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہے، چینی کی قیمت 55 روپے سے 105 روپے ہو گئی ہے اسطرح اشیاء خوردنوش کی قیمتیں بھی آسمانوں کو چھو رہی ہیں۔ پیٹرول اور گیس کی قیمتیں بھی خوب بڑھی ہیں ادویات کی قیمتوں میں ان دو سالوں کے دوران 250 فیصد آضافہ ہوا ہے وزارت خزانہ نے رواں برس جون میں پیٹرول کی قیمت میں 25 روپے 58 پیسے یکمشت آضافہ کردیا جس سے پیٹرول کی نئی قیمت 100روپے تک جا پہنچی حالانکہ تب عالمی منڈی میں پیٹرول کی قیمت منفی صفر تھی جس کو اپوزیشن کی طرف سے مافیا پریشر کہا گیا ہےغریب جنہوں نے تبدیلی کی آس پر خان صاحب کو ووٹ دیے تھے اب وہ مایوس ہو کر رہ گئے ہیں اس حکومت نے ان سے دو وقت کی روٹی تک چھین لی بات اب یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ تحریک انصاف کے ورکرز عوام سے منہ چھپائے پھرتے ہیں ان کے پاس عوام کو دینے کےلیے جواب نہیں ہے۔

بے روزگاری دور کرنے کےلیے کپتان نے ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا تھا لیکن اس کو بھی پورا نہ کیا جاسکا بلکہ ہزاروں لوگوں کو ملازمتوں سے فارغ کر کے بے روزگار کر دیا گیا اور حکومت کی سالانہ پلان روپورٹ کے مطابق بے روزگار افراد کی تعداد 40 لاکھ سے بڑھ کر 60، 70 لاکھ تک ہونے کی توقع ہے۔ کنٹینرز پہ کھڑے ہوکر مظبوط معاشی ٹیم ہونے کا دعوہ کرنے والے کپتان کی حکومت نے معیشت کو بھی تباہ کن صورت حال پر کھڑا کردیا جی ڈی پی پیداوار نہ ہونے کے برابر ہے جس کازمہ دار حکومت نے کرونا وائرس کو قرار دیالیکن کرونا میں احساس پروگرام کے زریعے غریبوں کی مدد کی گئ وہ قابل تحسین ہےملک بھر میں اعداد و شمار کے مطابق احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے ذریعے ایک کروڑ 31 لاکھ 37 ہزار لوگوں میں 158 ارب 93 کروڑ روپے سے زائد امدادی رقم تقسیم کی گئی اور پھر جس طرح کرونا جیسے سنگین معاملے پر حکومت نے قابو پایا وہ بھی قابل تعریف ہے۔ اگر خان صاحب کی حکومت کی طرف سے قرضے لینے کی بات کی جائے تو سرکاری دستیاویزات کے مطابق مارچ 2018 میں مجموعی قرضوں کی لاگت 230 کھرب 20 ارب روپے تھی جو اب بڑھ کر 345 کھرب 52 ارب روپے ہوچکی ہے عام آدمی حکومتی قرضوں کے خسارے کو نہیں دیکھتا بلکہ عام آدمی کےلیے یہ اہمیت رکھتی ہے کہ اس کے اشیائے ضرورت اس کی دسترس میں ہیں یا نہیں اور عوام حکومت سے اس معاملے میں بہت نالاں ہے کیونکہ جس طرح حکومت میں آنے سے پہلے ان کو بڑی بڑی جھوٹی تقریروں کے زریعے لولی پاپ دیا گیا ان کا غصہ کرنا حق بنتا ہے۔

پاکستان کا نوجوان طبقہ جس نے اس حکومت کو اقتتدار میں لانے کےلیے بڑی محنت کی تھی کو سرکاری سطح پر ملازمت مہیا کرنے کےلیے کوئی ٹھوس اقدامات یا منصوبہ بندی نہیں کی گئی یا پھر ان کو صرف صداقت اور شجاعت کا سبق پڑھایا جائے غربت اور بے روزگاری سے مرتے ہیں تو مر جائیں۔ خان صاحب نے نوجوانوں کو ایک کروڑ نوکریاں دینے کا اعلان کیا تھا ان دو سالوں میں کم از کم 40 لاکھ نوجوان تو ملازمت پا چکے ہوتے اگر کرونا کے دورانیہ کو نکال دیا جائے تو 25 لاکھ نوجوانوں کو تو نوکریاں ملنی چاہیے تھیں کرپشن ختم کرنے کے بھی بڑے دعوے کیے گئے تھے حکومت میں آنے سے پہلے لیکن اعداد و شمار کے مطابق پچھلی حکومتوں کے مقابلے 5 فیصد زیادہ کرپشن ہو رہی ہے تحریک انصاف کی حکومت میں جس میں وزیراعلی عثمان بزدار کے صوبہ پنجاب کو پہلی پوزیشن حاصل ہے بزدار صاحب کے خلاف نیب میں مختلف کیسز بھی چل رہے ہیں لیکن خان صاحب کی زبردست پشت پناہی ان کو حاصل ہے لہذا ہونا کچھ بھی نہیں آج کل یہ سوال بھی کافی زیر بحث ہے کیا خان صاحب بطور وزیراعظم اپنی آئنی مدت پوری کرتے ہیں تو اپوزیشن کی طرف سے کوئی خاص ردعمل نہیں دیکھایا جارہا لگتا یہی ہے کہ وہ مدت پوری کریں گے اس سے پہلے 2008 سے 2013 تک وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکا تھا پھر 2013 سے 2018 تک بھی وزیر اعظم اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکے تھے گلیپ سروے کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت سے 54 فیصد لوگ مطمئن نہیں ہیں اگر آنے والے دنوں میں تحریک انصاف نے عوام سے کیے گئے وعدے پورے نہ کیے تو 2023 میں ہونے والے عام انتخابات میں عوام اپنا بدلہ لے کر مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔

Check Also

Tyrana Jaiza

By Ali Raza Ahmed