1.  Home/
  2. Blog/
  3. Shoaib Kharal/
  4. Pichli Sadi Ka Bachpan (2)

Pichli Sadi Ka Bachpan (2)

پچھلی صدی کا بچپن(2)

وہ ساڑھے پانچ گھنٹے

۔۔ ہم اکثر خوش گپیاں کرتے ہوئے اور کبھی کبھار پسینے میں شرابور، لال سرخ چہرے اور کانوں کے ساتھ کمرہ جماعت میں واپس پہنچتے ہیں، سکول کا کل ٹائم چھ گھنٹے ہے حاضری، صفائی اور اسمبلی سے فارغ ہوتے ہوتے آدھا گھنٹہ گزر چکا ہے ابھی مزید ساڑھے پانچ گھنٹے باقی ہیں، کچھ دیر بعد استاد محترم بھی کمرہ جماعت میں داخل ہوتے ہیں، مانیٹر "کلاس سٹینڈ" بولتا ہے اور سب بچے ان کے احترام میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور جب وہ اپنی کرسی پر تشریف رکھتے ہیں تو ہم سب بھی بیٹھ جاتے ہیں۔

بستہ کھول کر اردو کی کتابیں نکالی جاتی ہے چند بچوں سے باری باری کل والا سبق سنا جاتا ہے سنا لینے پر شاباش ملتی ہے بصورت دیگر کان پکڑ کر اٹھک بیٹھک کرنا پڑتی ہے، اب استاد محترم اگلا سبق پڑھاتے ہیں ایک ایک لائن پہلے اردو میں پڑھ کر پھر اس کا مطلب پنجابی میں سمجھاتے ہیں، اردو کی کتاب میں درج کہانیاں، ان کے کردار، اور منظر کشی کیلئے بنی تصاویر سب مجھے اپنے حصار میں جکڑ لیتے ہیں اور میرا جی چاہتا ہے کہ میں بھی ان کرداروں کے ساتھ اس ماحول کا ایک حصہ بن جاوں۔

'ٹن' کی ایک آواز آتی ہے، کیکر کے پیڑ سے لٹکی ٹلی (گھنٹی) پر ہتھوڑی سے ایک ضرب لگائی گئ ہے، سنا ہے مڈل اور ہائی والوں کیلئے اس کا مطلب ہے کہ ایک مضمون کا پیریڈ ختم ہوگیا ہے اور اب دوسرا مضمون پڑھانے کیلئے دوسرے استاد محترم آئیں گے مگر ہم چونکہ ابھی پرائمری میں ہیں لہذا ہمیں تمام مضامین ایک ہی استاد محترم پڑھاتے ہیں وہ جماعت دوم سے ہمارے استاد چلے آرہے ہیں اور پنجم کے اختتام تک وہی ہمیں پڑھائیں گے۔

اردو کے بعد انگریزی کی باری ہے، یہ وہ مضمون ہے جو چوتھی جماعت تک ہم نے بالکل نہیں پڑھا لہذا پنجم کے آغاز سے ہی استاد محترم اس پہ خاص محنت کر رہے ہیں، بڑی اے بی سی تو ہم نے ایک ہفتے میں ہی سیکھ لی مگر چھوٹی کمبخت ماری نے اکثر بچوں کیلئے مشکلات کھڑی کردیں ہیں، یہ یاد رکھنا کہ کونسے حروف اوپر والی تین لائنوں پر آتے ہیں اور کونسے نچلی تین پر اور کن حروف کو درمیان والی دو لائنوں پر لکھنا ہے اچھا خاصا دشوار ہے، ہم نے ہفتے کے دنوں کے نام بھی انگریزی میں یاد کر لیئے ہیں مگر اکثر Tuesday اور Thursday کے معاملے میں تذبذب کا شکار ہوجاتے ہیں۔

اساتذہ کیلئے چائے آ گئی ہے وہ ہمیں سبق دہرانے کا کہہ کر کمروں کے سامنے بنے برآمدے میں چائے پینے چلے گئے ہیں، کلاس مانیٹر کاپی پین پکڑ کر کھڑا ہوگیا ہے تاکہ شور شرابہ کرنے والے "ملزموں " کے نام لکھ سکے، مجھے پانی پینے جانا ہے، مانیٹر کے پاس لکڑی کے دو چوکور ٹکڑے ہیں ان پر شیٹ چڑھائی گئی ہے ایک کے اوپر درج ہے "پاس پانی" جبکہ دوسرے پہ لکھا ہے "پاس پیشاب"، اس ترکیب کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ بیک وقت دو سے زائد طلباء کلاس سے باہر نہ جائیں۔

سکول میں دو ٹنکیاں بنی ہوئی ہیں جن کے ساتھ لگی ٹونٹیوں کے اوپر سلور کے بنے دو گلاس پڑے ہوتے ہیں، جراثیم نامی کسی بلا کا ڈر ابھی بچوں کے ذہن میں نہیں بٹھایا گیا لہذا سینکڑوں بچے روزآنہ انہی گلاسوں سے پانی پیتے ہیں گلاس نہ ہونے کی صورت میں چلو سے یا پھر کچھ ہیرو ڈائریکٹ ٹونٹی کو منہ لگا کر بھی پانی پی لیتے ہیں، اسکول میں ابھی طلباء کیلئے کوئی بیت الخلا نہیں ہے لہذا سکول سے ایک جانب ذرا اترائی پر موجود زمین کو سیراب کرنے اور زرخیز بنانے میں طلباء بھی اپنا "کردار" ادا کرتے ہیں۔

ریاضی کا نمبر آگیا ہے طلباء نے اپنی اپنی سلیٹ نکال لی ہے اگر کسی کے پاس سلیٹی نہیں ہے تو اس کا دوست بلاتردد اپنی سلیٹی درمیان سے توڑ کر آدھی اسے دے دیتا ہے، استاد محترم تختہ سیاہ (بلیک بورڈ) پر سوال لکھتے ہیں طلباء اسے حل کر کے انہیں دکھاتے ہیں صحیح حل کرنے والوں کو داد ملتی ہے اور غلط حل کرنے والوں کو حسب طبیعت ڈانٹ سے لیکر ڈنڈوں تک کچھ بھی۔

اس کے بعد ہمیں تختیاں دھونے کیلئے بھیج دیا جاتا ہے پرائمری کی عمارت کے پچھلی جانب ایک چھوٹا سا حوض بنا ہوا ہے ہم اپنی تختی کو اس کے اندر دو چار ڈبکیاں لگوانے کے بعد جب اس پر ہاتھ پھیرتے ہیں تو اس پر جو کچھ لکھا ہوا تھا مٹتا چلا جاتا ہے پھر اس پر پوچا (گاچی) لگایا جاتا ہے اس کے بعد کچھ طلباء تو اپنا تختیاں دھوپ میں رکھ دیتے ہیں باقی انہیں ہاتھوں میں پکڑ کر آگے پیچھے زور زور سے ہلاتے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ نغمہ بھی گاتے ہیں

تختی بتختی دو دانے

نے سوکنی تا چل تھانے

تھانہ بڑا دور ای

ونجنا ضرور ای

ہمیں لگتا ہے اس طرح کرنے سے تختی جلدی خشک ہو جاتی ہے

ٹن ٹن ٹن ٹن۔۔ تفریح (بریک) ہو گئی ہے، جن طلباء کے گھر نزدیک ہیں وہ کھانا کھانے گھروں کو روانہ ہو گئے ہیں زیادہ دور سے آنے والے طلباء اپنا کھانا کسی ٹفن یا کپڑے میں باندھ کر ساتھ لائے ہیں، ہم نہ تین میں ہیں اور نہ تیرہ میں، میں سکول کے سامنے سے گزرتی سڑک پار کر کے پکوڑے خریدنے جاتا ہوں، ایک روپے کے اچھے خاصے مل جاتے ہیں اگر دو کے لوں تو شاید ختم نہ کر پاوں اور ویسے بھی مجھے ایک روپیہ واپسی پہ کچھ کھانے کیلئے بچا کر رکھنا ہے۔

تفریح میں بھی مختلف کھیل کھیلے جاتے ہیں، میرا ایک دوست گھر سے صرف اس لیے جلدی واپس آجاتا ہے کہ ہم نے جو "کرکٹ کاپی" بنائی ہوئی ہے اسے مل کر دیکھ سکیں اس میں اخباروں سے کاٹی گئی کرکٹرز کی تصاویر چسپاں ہیں پاکستان کا کوئی میچ ہوتا ہے تو اس کی مختصر روداد بھی اس میں درج کرلیتے ہیں، باقی دوست بھی آنا شروع ہوگئے ہیں چند ہفتے بعد 1999 کا ورلڈ کپ شروع ہونے والا ہے، پچھلے عالمی کپ کے وقت ہم بہت چھوٹے تھے لہذا یہ ایک طرح سے "ہمارا" پہلا ورلڈ کپ ہے، پورے جوش و خروسے اس پر گفتگو ہوتی ہے یہ تبادلہ خیال جاری ہے کہ تفریح ختم ہونے کی گھنٹی بج جاتی ہے۔

تفریح کے خاتمے کے بعد سب تختی لکھتے ہیں، اس پر کچی پنسل یا سیل کے سکے سے لائنیں لگائی جاتی ہیں، اوپر والی لائن پر ہر طالب علم اپنا تعارف لکھتا ہے "نام طالب علم محمد شعیب رول نمبر 25 جماعت پنجم گورنمنٹ ہائی سکول میال" استاد محترم مشکل الفاظ کی املاء لکھواتے اور چیک بھی کرتے ہیں، تختی کی دوسری طرف ہم ان کا بتایا ہوا سبق دیکھ کر لکھتے ہیں اکثر بچے لکھتے ہوئے وہی الفاظ ہلکی آواز میں گنگناتے بھی ہیں، اگر قلم پر سیاہی زیادہ لگ جائے تو کچھ طلباء بلا تکلف اسے اپنے سر پر رگڑ کر صاف کر لیتے ہیں۔

ہم اسلامیات، معاشرتی علوم اور سائنس بھی پڑھتے ہیں، ترکیب استاد محترم نے یہ بنا رکھی ہے کہ روزآنہ ایک سوال بچوں کو لکھواتے ہیں جسے وہ گھر سے یاد کرکے آتے اور اگلے دن زبانی لکھ کر دکھاتے ہیں، کچھ افلاطون پہلے سے ہی ایک کاغذ پر وہ جواب نقل کرکے رف کاپی میں رکھ لیتے ہیں اور جب استاد محترم کا دھیان ادھر ادھر ہوتا ہے تو وہ کاغذ باہر نکال کر انہیں تھما دیتے ہیں تاہم اگر کسی دن وہی سوال وہ زبانی سن لیں تو ان کی شامت بھی آجاتی ہے، ہم نے پاکستان کا محل وقوع تو یاد کر لیا ہے مگر سمجھ نہیں آتی کہ یہ طول بلد اور عرض بلد کیا بلائیں ہیں، ہمیں معلوم ہوگیا ہے کہ زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب ہم بازو کھول کر گول گول گھومتے ہیں تو ہمیں زمین اپنی اصل حالت یعنی گردش کرتے ہوئے نظر آتی ہے۔

چھٹی کا وقت قریب آتے ہی بستے بند ہونا شروع ہوجاتے ہیں، ایک بار پھر گھنٹی بجتی ہے جو اس بات کا اعلان ہے کہ چھٹی ہو گئی ہے معلوم نہیں یہ روایت کب قائم ہوئی مگر جیسے ہی چھٹی ہوتی ہے سب بچے کندھوں پر بستے ڈالے بھاگ کر سکول سے نکلتے ہیں۔ سالوں بعد عام ہونے والے ڈرون کیمرے اگر آج ہوتے اور وہ ذرا بلندی سے اس کی منظر کشی کرتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ پہاڑی پر واقع ایک سکول کے مختلف مقامات سے گہرے نیلے اور سفید رنگ کے چشمے پھوٹ پڑے ہیں۔۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Kachhi Canal Ko Bahal Karo

By Zafar Iqbal Wattoo