Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shoaib Kharal
  4. Pichli Sadi Ka Bachpan (1)

Pichli Sadi Ka Bachpan (1)

پچھلی صدی کا بچپن(1)

بستر سے اسکول تک

یہ اپریل 1999 ہے، میں چوتھی جماعت کے امتحانات سے فارغ ہو کر تازہ تازہ پانچویں جماعت میں پہنچا ہوں، ہم ایک گاؤں میں رہتے ہیں، سورج ابھی اتنا دیدہ دلیر نہیں ہوا کے ہم دیہاتیوں کے جاگنے سے پہلے افق سے اپنا سر باہر نکال سکے، نماز سے فارغ ہو کر والدہ محترمہ ناشتہ بنانے کیلئے "چل ہانے" (اوپن ائیر کچن) کا رخ کرتی ہیں جبکہ ہم سب سکول کی تیاری کرتے ہیں۔

کپڑے کا ایک بستہ جس کے اطراف دو ڈوریاں لگی ہوئی ہیں۔ میرا سکول بیگ ہے۔ جس میں رکھی ایک تختی، قلم دوات، سلیٹ اور اس پر لکھنے کیلئے سلیٹی، سرخ اوراق والی ایک رف کاپی، ایک پین جس کے پچھلے حصے میں لگی ایک چھوٹی سی چرخی کو گھما کر اس میں روشنائی بھری جاتی ہے اور چند پتلی پتلی درسی کتابیں میری کل علمی کائنات ہیں۔

سکول گاؤں کے ایک کنارے پر ہے، اور ہمارا گھر دوسرے کنارے پر لہٰذا ابھی ناشتہ کر رہا ہوتا ہوں کے پڑوس کے کچھ ہم جماعت دوست پہنچ جاتے ہیں اور یوں مجھے بھی جلدی جلدی ناشتہ ختم کرنا پڑتا ہے، ابھی لا تعلقی اور بےمروتی کا دور نہیں آیا لہٰذا بچے بلا تکلف ایک دوسرے کے گھروں میں چلے جاتے ہیں اور ہر گھر کے بڑے انہیں خلوص اور پیار سے ہی نوازتے ہیں، والدین کو سلام کرتا ہوں امی میرا جیب خرچ جو دو روپے ہے۔

مجھے پکڑاتی ہیں، اور ہم دوست سکول کیلئے نکل پڑتے ہیں۔ گھر سے کچھ فاصلے پر ایک اترائ ہے۔ جس کے اختتام پر ایک منڈیر سی بنی ہوئی ہے سب یہاں پہنچ کر محلے کے باقی دوستوں کا انتظار کرتے ہیں اور کچھ دیر بعد مل کر سکول کی طرف مارچ شروع ہو جاتا ہے، سکول جانے کے تین رستے ہیں۔ مگر ہم بالعموم پگڈنڈی والا راستہ اختیار کرتے ہیں جس پر ایک ساتھ بمشکل دو لوگ چل سکتے ہیں۔

لہٰذا ایک اچھی خاصی قطار بن جاتی ہیں، ہمارے فرشتوں کو بھی ابھی خبر نہیں کہ موبائل کس چڑیا کا نام ہے اور نہ ہی انٹرنیٹ نامی بلا کا ہماری زندگیوں میں کوئی وجود ہے لہٰذا سارا رستہ خوش گپیاں ہی چلتی رہتی ہیں۔ جن میں اکثر گزشتہ رات آٹھ بجے کا ڈرامہ یا کرکٹ میچ موضوع گفتگو ہوتے ہیں، پگڈنڈی کے اطراف کھیتوں میں لگی فصلوں کو جب ہوا چھیڑتی ہے تو وہ جھومنا شروع کر دیتی ہیں۔

کچھ فاصلے پر ایک ٹیوب ویل چل رہا ہے۔ جس کے پانی سے کوئی کسان اپنے کھیتوں کو سیراب کر رہا ہے پیٹر انجن کی کھٹ کھٹ بھی اسی فضا میں کہیں تحلیل ہو رہی ہے۔ مگر ہم اس سب سے بے نیاز اپنی گپ شپ میں رواں دواں ہے۔ پگڈنڈی ختم ہوتی ہے تو ایک چھوٹی سی ندی آتی ہے ہم سب اس ندی کو شہر (گاؤں کا بڑا اور مرکزی حصہ) اور اپنے محلے (جو باقی گاؤں سے تھوڑا ہٹ کر ہے) کے درمیان بارڈر لائن سمجھتے ہیں۔

ندی پار کرتے ہی ایک چھوٹی سے چڑھائی کے بعد گاؤں کا مرکزی بازار آتا ہے اور پھر ایک اور چڑھائی جس کے اختتام پر ایک مسجد ہے، یہاں سے اکثر کچھ اور دوست بھی سکول جاتے ہوئے ساتھ مل جاتے ہیں۔ سکول کی عمارت گاؤں کی آخری عمارت ہے، سکول کے تین اطراف کوئی دیوار نہیں ہے۔ لہٰذا ہم سیدھا پرائمری والے حصے کی طرف جاتے ہیں۔

جو باقی سکول کی نسبت ذرا بلندی پر ہے، سو اکثر بھاگ کر اس پر چڑھتے ہیں کبھی کبھار آپس میں مقابلہ بھی کر لیتے ہیں، بیٹھنے کیلئے فرنیچر صرف مڈل اور ہائی کے طلباء کیلئے ہے سو ہم ابھی فرش پر ہی بیٹھتے ہیں، کلاس روم کی صفائی بھی طلباء خود ہی کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں استادمحترم نے یہ سکیم بنا رکھی ہے کہ رول نمبرز کے حساب سے بالترتیب دو طلباء روزآنہ یہ فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔

ہم سکول پہنچ گئے ہیں مگر ابھی سکول کا وقت شروع ہونے میں کچھ وقت باقی ہے، لہٰذا اپنے اپنے بستے کلاس روم میں رکھنے کے بعد ہم سکول کے میدان کا رخ کرتے ہیں، میدان میں بچے اپنی اپنی پسند کے کھیل کود میں مشغول ہیں، کچھ بیٹھ کے گپیں بھی مار رہے ہیں، کچھ بچوں کو ابھی یاد آیا ہے کہ انہوں نے کل دیا گیا گھر کا کام نہیں کیا سو وہ ایک طرف بیٹھے جلدی جلدی اسے لکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ہم "اچڑی جھکڑی" (اچڑی = اونچی جگہ، جھکڑی اس کا متضاد ہے) کھیلتے ہیں۔ جس میں عمارت کے برآمدے اور ان سے تھوڑے فاصلے پر بنا ایک اسٹیج اچڑی قرار پاتے ہیں، اگر آپ ان پہ کھڑے ہیں، تو آپ محفوظ ہیں، مگر مشکل یہ ہے کہ آپکو ایک اچڑی سے بھاگ کر دوسری تک جانا ہے اور رستے میں کھڑی دوسری ٹیم آپ کو پکڑنے کیلئے تیار ہے۔

اور اگر انہوں نے آپکو پکڑ کر دس تک گنتی گن لی تو پھر آپ آوٹ، کھیلنے کا لطف آرہا ہے، مگر اسی اثناء میں سکول لگنے کی گھنٹی بجنا شروع ہوتی ہے اور یوں چار و ناچار سب اپنے اپنے کلاس روم کی طرف چل پڑتے ہیں۔ جہاں استاد محترم یا کلاس مانیٹر حاضری کا رجسٹر لیے موجود ہیں، وہ بلند آواز سے رول نمبر پکارتے ہیں اور طلباء اپنی باری پر لبیک بولتے ہیں۔

کبھی کبھار کوئی طالبعلم منہ نیچے کیے اپنے کسی غیر حاضر دوست کی حاضری لگوانے کی بھی کوشش کرتا ہے اور کچھ شہزادے تو اتنے ذہین ہیں کہ غیر حاضر دوست کی طرف سے خود ہی بیماری کی درخواست لکھ کر جمع کرا دیتے ہیں تاہم پکڑے جانے کی صورت میں استاد محترم انکی طبیعت صاف کر دیتے ہیں۔ سکول میں بہت سارے درخت ہیں اور جب ہوا چلتی ہے تو اس کے سازو پر رقص کرتے ہوئے بہت سے پتے زمین پر آ گرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ حاضری کے بعد جب طلباء دوبارہ میدان کا رخ کرتے ہیں تو وہاں ایک اور استاد محترم بچوں کو میدان میں گرے ہوئے پتے اٹھانے کا کہتے ہیں، جانے کیوں مجھے ان سوکھے پتوں پر چلنے سے پیدا ہونے والی آواز بہت پسند ہے اور میں چاہتا ہوں کہ کسی دن استاد محترم پتے صاف کروانا بھول جائیں اور یہاں ڈھیر سارے پتے اکھٹے ہوجائیں۔ جن پر میں چلتا پھروں مگر یہ صرف حسرت ہی رہتی ہے۔

"پتا چنائی" کی اس رسم کے بعد تمام طلباء اسمبلی کیلئے سکول کے نچلے میدان میں پہنچتے ہیں۔ جہاں پرائمری مڈل اور ہائی کے طلباء الگ الگ جگہوں پر اپنی اپنی جماعت کے حساب سے قطار بندی کر لیتے ہیں، خاکی لباس اگلے سال رائج ہو گا اسلیئے ابھی پرائمری کے بچے گہرا نیلا جبکہ مڈل اور ہائی کے طلباء سفید لباس پہنتے ہیں، پی ٹی آئی صاحب اپنی بغل میں ڈنڈا دبائے باقی اساتذہ کرام سے چند قدم آگے آتے ہیں اور با آواز بلند ہوشیار پکارتے ہیں۔

(اگر کچی یا پکی (پریپ یا ون) کا کوئی ننھا طالبعلم اپنی سوچ میں گم کھڑا ہوتا ہے تو اس آواز سے اس کا" تراہ "نکل جاتا ہے)، سب طلباء بیک وقت اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر زور سے زمین پر پاوں مارتے ہیں اور پھر پاؤں ملا کر سیدھے مستعد کھڑے ہو جاتے ہیں، اب پی ٹی صاحب اسی بلند آواز سے آسان باش کہتے ہیں، طلباء ایک بار پھر اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر پاوں تھوڑے کھول کر ہاتھ پیچھے باندھ لیتے ہیں، ایسا تین چار بار ہوتا ہے۔

اور پھر اسمبلی کا آغاز ہوتا ہے۔ تلاوت کلام پاک نعت رسول مقبول ﷺ، بچے کی دعا اور قومی ترانہ پڑھا جاتا ہے۔ جس کے بعد سب بچے بیٹھ جاتے ہیں، تمام جماعتوں کے مانیٹرز اپنی اپنی قطار سے چند قدم آگے آکر حاضری رپورٹ دیتے ہیں "جماعت پنجم اٹھاوی بٹا چونتی جناب" (پانچویں جماعت کے کل 34 طلباء میں سے 28 حاضر ہیں)۔ اس کے بعد ایک استاد محترم مختصر سا درس دیتے ہیں۔

مجھے لگتا ہے کہ میری طرح طلباء کی اکثریت اسے غور سے نہیں سنتی، اس کے بعد اکثر ہیڈ ماسٹر صاحب بچوں سے خطاب کرتے ہیں، وہ باقی اساتذہ کرام کے برعکس بچوں سے پنجابی کی بجائے ہمیشہ اردو میں بات کرتے ہیں، اور کیوں نہ کریں ان کی اردو کمال ہے، اس کے بعد بچے دوبارہ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کل غیر حاضر رہنے والے اور آج اسمبلی میں دیر سے پہنچنے والا طلباء کو طلب کیا جاتا ہے اور چونکہ ابھی "مار نہیں پیار" کا دور نہیں آیا لہٰذا ان کی تسلی بخش مرمت کی جاتی ہے۔

جس کے نقوش کبھی ان کے ہاتھوں پر اور کبھی کسی اور جگہ ثبت ہو جاتے ہیں، آخر میں ایک بار پھر ہوشیار اور آسان باش کا مختصر دور ہوتا ہے، مگر اب نہ تو پی ٹی آئی صاحب کی آواز میں وہ گرج ہے اور نہ طلباء کے نعروں میں وہ جوش اس کے بعد "دائیں بائیں پھر" کی آواز پر تمام طلباء اپنا رخ اپنی اپنی کلاسز کی طرف کر کے اسمبلی گراونڈ سے روزآنہ ہو جاتے ہیں۔

واپسی پر قطار کی پابندی کوئی نہیں کرتا اور اساتذہ کی آنکھ سے اوجھل ہوتے ہی سب آپس میں گپیں ہانکنا شروع کر دیتے ہیں تاہم کبھی کبھار کوئی استاد محترم بڑی مہارت سے شارٹ کٹ رستہ سے آگے آکر کھڑے ہوجاتے ہیں اور پھر اس بدنظمی کی سزا کے طور پر یہ حکم صادر فرماتے ہیں کہ فلاں کلاس کے طلباء اپنے کمرہ جماعت تک مرغا بن کر جائیں گے، اور یقین مانیے مرغا بن کر چڑھائی چڑھنا اچھا خاصا جان جوکھوں کا کام ہے۔

بالخصوص جب وہ استاد محترم بھی آپ کے ساتھ ساتھ چل رہے ہوں اور کانوں پر انگلیوں کی گرفت ذرا سی ڈھیلی پڑنے پر بلا تکلف درخت سے تازہ تازہ اتری ہوئی چھمک (پتلی چھڑی) آپ کو رسید کر کے اس کی وائبریشن چیک کرنے کے موڈ میں ہوں۔ اور یوں ہم اکثر خوش گپیاں کرتے ہوئے اور کبھی کبھار پسینے میں شرابور، لال سرخ چہرے اور کانوں کے ساتھ کمرہ جماعت میں واپس پہنچتے ہیں، سکول کا کل ٹائم چھ گھنٹے ہے حاضری، صفائی اور اسمبلی سے فارغ ہوتے ہوتے آدھا گھنٹہ گزر چکا ہے۔ ابھی مزید ساڑھے پانچ گھنٹے باقی ہیں اور یہی دن کا سب سے قیمتی حصہ ہیں۔

Check Also

Taunsa Barrage

By Zafar Iqbal Wattoo