Seerat Ul Nabi Ki Roshni Mein Ikeeswi Sadi Ke Masail Ka Hal
سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں اکیسویں صدی کے مسائل کا حل
رسول اللہﷺ کی تعلیمات میں سب انسانوں کے لیے رہنمائی موجود ہے۔ عصر حاضر میں انسانیت جتنے مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کا حل چودہ صدی قبل ہی عطا فرمایا دیا تھا۔ آج بین الاقوامی سطح پر پریشان کن مسائل میں سے چند درج ذیل ہیں۔ مہنگائی، ٹینشن اور ڈپریشن، ماحولیاتی آلودگی، بڑھتی ہوئی بیماریاں، طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان۔ حضورﷺ نے اپنی تعلیمات اور اسوہ حسنہ کے زریعے وہ نظام زندگی عطا فرمائے ہیں جنہیں نافذ کرنے سے مذکورہ بالا مسائل حل ہوجاتے ہیں۔
مہنگائی کا طوفان:
آج کے دور میں مہنگائی نے ساری دنیا میں کہرام بپا کر رکھا ہے۔ مہنگائی کے ازحد بڑھ جانے کے سبب ہر بندہ پریشان نظر آتا ہے۔ ہر کوئی اپنی عقل و فہم کے لحاظ سے اس کے اسباب و وجوہات پر تبصرے کرتے نظر آتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ ان موجودہ اہم مسائل کے حل کے لیے دنیا کی سب سے عقل مند ترین ہستی حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کی طرف کیوں نظر نہیں کی جاتی کہ اس مبارک ہستی نے ہمارے ان مسائل کی کیا وجوہات واسباب بیان کیے ہیں؟
جو وجوہات سرورِ دوعالم ﷺ نے بیان فرمائی ہیں، ہمارے مسائل کی حقیقی وجوہات اور حقیقی اسباب وہی ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا: "اے مہاجرین کی جماعت! پانچ باتیں ہیں جب آپ ان میں مبتلا ہوجاؤگے، اور میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ آپ اس میں مبتلا ہو (وہ پانچ باتیں یہ ہیں) پہلی یہ کہ جب کسی قوم میں علانیہ فحش (فسق وفجور اور زناکاری) ہونے لگ جائے، تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو ان سے پہلے کے لوگوں میں نہ تھیں۔
دوسری یہ کہ جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قحط، معاشی تنگی اور اپنے حکمرانوں کی ظلم و زیادتی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تیسری یہ کہ جب لوگ اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش کو روک دیتا ہے، اور اگر زمین پر چوپائے نہ ہوتے تو آسمان سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا۔ چوتھی یہ کہ جب لوگ اللہ اور اس کے رسول کے عہد وپیمان کو توڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے علاوہ لوگوں میں سے کسی دشمن کو مسلط کردیتا ہے، وہ جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے چھین لیتا ہے۔ پانچویں یہ کہ جب ان کے حکمران اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، اور اللہ تعالیٰ نے جو نازل کیا ہے اس کو اختیار نہیں کرتے، تو اللہ تعالیٰ ان میں پھوٹ اور اختلاف ڈال دیتا ہے"۔ (سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث: 4019)
مذکورہ حدیث سے مہنگائی کے یہ اسباب معلوم ہوئے: ناپ تول میں کمی، زکوٰۃ ادا نہ کرنا، زنا کرنا، مطلق اللہ کی نافرمانی اور گناہ کرنا، قرآن وسنت کے خلاف فیصلے کرنا۔
ماحولیاتی آلودگی اور گندگی:
ماحولیاتی آلودگی اس وقت پوری دنیا کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ جس کی وجہ سے انسانی صحت اور ماحولیات کافی متاثر ہورہی ہے۔ اگر ہم نبی کریم ﷺ کی تعلیمات اور عملی اقدامات کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت چھپائے نہیں چھپ سکے گی کہ رسول اللہ ﷺ نے ایمانیات، احکام وعبادات کے برابر ماحولیات پر بھی توجہ دی، تعلیمات دیں اور عملی اقدامات بھی کیے۔ حضور ﷺ کا یہ فرمان مبارک ماحولیاتی اصلاحات کے متعلق تمام تعلیمات کو جامع ہے:
الطهور شطر الایمان
ترجمہ: "طہارت وپاکیزگی نصف ایمان ہے"۔ (مسلم، الجامع الصحیح، رقم الحدیث: 534)
رسول اللہ ﷺ نے انسان کو پیدائش سے لے کر موت تک صاف ستھرا رہنے کی تعلیم دی ہے اور اس میں انسانی جسم کی صفائی سے لے کر سوسائٹی، گلی، محلے اور اجتماعی صفائی کے احکامات بھی موجود ہیں۔ چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
فنظفوا بیوتکم ولا تشبھوا بالیھود التی تجمع الاکناف فی دورھا
ترجمہ: "پس آپ اپنے گھروں کو پاک رکھو، اور یہود کی مشابہت نہ کرو جو اپنے گھروں میں کوڑا کرکٹ جمع کرتے ہیں"۔ (مسند ابویعلیٰ، حدیث نمبر: 786)
کتنا اہم ترین حکم ہے کہ اپنی آبادیوں کو گندگی سے پاک رکھو۔ ہمارے معاشرے کا ماحولیات کے باب میں سب سے بڑا جرم یہی ہے کہ ہر جگہ بغیر لحاظ وتمییز کے گندگی پھیلاتے جارہے ہیں۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ایک سخت ترین تنبیہ فرمائی ہے کہ ایک مسلمان کا طرز عمل ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ گندگیاں پھیلاتا پھرے۔
بڑھتی ہوئی بیماریاں:
آج بیماریاں بہت عام ہوچکی ہیں، بلکہ کچھ بیماریاں ایسی بھی ہیں جن کے علاج سے ڈاکٹر عاجز آچکے ہیں۔ اگر محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات پر ٹھیک طرح عمل کیا جاتا تو انسان کو آج ان موذی امراض کا سامنا نہ ہوتا۔ چنانچہ اگر نبی کریم ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو یہ عیاں ہوگا کہ پیدل چلنا آپ کے سنت مبارکہ میں سے ہے۔ آپ باغ کی تفریح کو پسند فرماتے تھے اور اکثر صحابہ کرام کے ساتھ سیر کے لیے جایا کرتے تھے، آپ کی چال تیز ہوتی خالی پیٹ ہوتے، اور حضرت عائشہ کے ساتھ دوڑ بھی لگایا کرتے تھے۔ مزید یہ کہ حضور اکرم ﷺ نے کشتی اور تیراکی جیسی ورزش میں بھی حصہ لیا ہے۔ لہذا اگر ہم آپ ﷺ کے اس اسوہ حسنہ پر عمل کرکے باقاعدہ ورزش اور پیدل چلنے کا معمول بنالے تو بلاشبہ ہم بہت سے بیماریوں سے بچ سکتے ہیں اور طویل زندگی گزار سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ نبی کریم ﷺ کا کھانے پینے کا انداز بھی نہایت مفید بلکہ صحت اور تندرستی کی بقاء کے لیے ضروری ہے۔
حدیث میں آتا ہے: حضرت مقدام بن معدی کرب کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ: "آدمی نے پیٹ سے زیادہ برا کوئی برتن نہیں بھرا، آدمی کے لیے کافی ہے کہ وہ اتنے لقمے کھائے جو اس کی پیٹھ سیدھی رکھ سکیں، لیکن اگر آدمی پر اس کا نفس غالب آجائے، تو پھر ایک تہائی پیٹ کھانے کے لیے، ایک تہائی پینے کے لیے، اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے رکھے"۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3349)
بلاشبہ زیادہ کھانا یعنی بسیار خوری صحت سے متعلق متعدد بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ اسی وجہ سے حکماء اور اطباء کہتے ہیں کہ اگر اس حدیث پر لوگ عمل کریں تو بہت سے بیماریوں سے محفوظ رہیں گے۔
ٹینشن اور ذہنی پریشانی:
اس ترقی یافتہ دور میں جہاں دوسرے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہےوہاں ایک بڑا مسئلہ ٹینشن اور ڈپریشن کا بھی ہے، ہر شخص مایوسی اور اداسی میں مبتلا ہے، اس مادیت پرستی کے دور میں انسان سکون حاصل کرنے کے لیے بے قرار ہے۔ رسول اقدس ﷺ نے اپنی سیرت طیبہ کے زریعے یہ تعلیم دی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے غافل ہوکر دنیا کی دولت میں کبھی اطمینان وسکون نہیں پاسکتا، بلکہ دل کا چین اور اطمینان ذکر الٰہی سے ہی حاصل کر سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا: "جہاں کہیں اللہ کےبندے اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو فرشتے انہیں گھیرلیتے ہیں اور رحمت الہٰی ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور ان پر سکینت اور اطمینان نازل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے ہاں کے لوگوں (مقرب فرشتوں)میں ان کا ذکر کرتا ہے"۔ (سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث: 3791)
اسی طرح دوسری حدیث میں ارشاد ہے۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "جو کوئی استغفار کا التزام کرلے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے اورہر رنج سے نجات پانے کی راہ ہموار کردے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا"۔ (سنن ابی داود، رقم الحدیث: 1518)
ذہنی اور نفسیاتی امراض سے بچاؤ اور ان سے متاثرہ افراد کے لیے یہ حدیث ایک عظیم تحفہ ہے۔
طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح:
عصر حاضر میں ہمارے معاشرے کا بڑا ناسور طلاق ہے۔ طلاق کے بڑھتے ہوئے رجحان نے عالمگیر صورت اختیار کرلی ہے۔ طلاق کے مفاسد و نقصانات کا اندازہ لگانے کے لیے نبی کریم ﷺ کی اس حدیث پر غور کریں۔ حضرت جابر ﷺ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: "ابلیس اپنا تخت پانی پر لگا کر اپنے چیلوں کو بھیجتا ہے، اور اس کے نزدیک مرتبے کے اعتبار سے وہی مقرب ہوتا ہے جو سب سے بڑا فتنہ ڈالے، چنانچہ ان میں سے ایک آکر کہتا ہے کہ: "میں نے یہ کیا اور وہ کیا" تو شیطان اسے کہتا ہے کہ "تو نے کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دیا" پھر ان میں سے ایک اور آکر کہتا ہے کہ: "میں نے فلاں کا پیچھا کیا اور اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی نہ ڈلوادی "شیطان اسے اپنے قریب کرکے کہتا ہے: "ہاں! تو نے بڑا کام کیا ہے"، پھر اسے گلے لگا لیتا ہے"۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 7106)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ "روئے زمین پر اللہ تعالیٰ نے طلاق سے زیادہ ناپسند چیز کو پیدا نہیں فرمایا"۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر: 15120)
تو بات یہ ہے کہ میاں بیوی میں کبھی کبھار ناراضگی، بحث وتکرار اور جھگڑے ہوجانا کوئی نئی بات نہیں بلکہ خود سرکار دوعالم ﷺ کو اپنی ازواج کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود ازواج کے درمیان جدائی نہیں ہوئی، طلاق کی نوبت نہیں آئی۔ لہذا سرکار دوعالم ﷺ کی زندگی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جب بھی میاں بیوی کے درمیان تلخی پیدا ہوجائے تو دونوں مل کر تعلقات کو خوشگوار بنانے کی کوشش کریں۔