Judgmental Society
ججمینٹل سوسائٹی
ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے"Don't judge any book by its cover"،دوسری طرف یہ بھی کہا جاتا ہے"First impressions is last impression"۔یہ دونوں محاورے بالکل مختلف ہیں ،لیکن ہر کوئی اپنے مطلب کے لیے کبھی پہلے کو اور کبھی دوسرے کو استعمال کرتا نظر آتا ہے۔جب دوسرے کے بارے غلط ریمارکس پاس کرنے ہوں توFirst" impression"پر آجاؤ، اور اگر اپنے بارے کوئی غلط بات کہہ دے تو اس سے کہا جاتا ہے"Don't judge any book by its cover"۔میں بذات خود روزانہ کی بنیاد پر اس رویے کا سامنا کرتا ہوں۔
لوگ آپ کے گیٹ اپ کو دیکھ کر فیصلہ کر رہے ہوتے ہیں کہ آپ پڑھے لکھے ہیں ،جاہل ہیں یا ایوریج ہیں ۔پینٹ کوٹ میں ملبوس ہونے کی وجہ سے یہ سرٹیفیکٹ مل جاتا ہے، کہ آپ انتہائی زیادہ کوالیفائیڈ اور ذہین ہیں، اگرچہ اندر سے برتن خالی ہواور بالکل دوسری طرف اگر آپ نے شلوار قمیض پہن رکھی ہے، تو ہر کوئی آپ کو ایک دیہاتی (جس کا مطلب جاہل لیا جاتا ہے) سمجھے گا ،اگرچہ آپ نے فزکس میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہو۔ملک کے اندر قومی لباس میں ملبوس ہونے اور داڑھی رکھنے کی وجہ سے آپ کو انتہا پسند شمار کیا جاتا ہے اور آپ کو مولوی پکارا جائے گا،اگرچہ آپ نے مسجد کا رخ زندگی میں رمضان کے جمعہ کے علاوہ کیا ہی نہ ہو۔
لوگ آپ کو دنیاداری سے بے خبر ایک مذہبی جنونی سمجھتے ہیں ،جو کہ پل بھر میں کسی پر بھی فتویٰ لگا کر اس کا نشان مٹوا سکتا ہے،اور یہ ایک ایسے طاقتور طبقے سے تعلق رکھتا ہے جن کے سامنے ریاست، ریاستی ادارے اور حکومتیں بے بس ہیں ۔اور اگر عدالتیں ان کی خواہشات کے خلاف فیصلہ کریں تو یہ ان پر بھی چڑھ دوڑتے ہیں، قانون اور آئین کی حیثیت ان کے ہاں کاغذ کے حقیر ٹکڑوں سے زیادہ نہیں ۔یہ لوگ دلیل لیس، منطق لیس اور برین لیس ہیں، ان کا ہر فیصلہ اور بات جذبات کی بنا پر ہوتی ہے۔ لاجک اور Reasoningکی ان کے ہاں کوئی اہمیت نہیں۔
یہی لوگ ہیں جو یہاں مذہب کے ٹھیکیدار ہیں، اور لوگوں کو جنت اور جہنم بھیجنے کے فیصلے یہ دنیا میں ہی سنا رہے ہیں۔یہ ایک طرف کی Extremeہے ،جو خود کو ملک میں Progressiveاور Liberalخیالات کا حامل سمجھنے والے لوگوں کے ہاں پائی جاتی ہے،جب کہ دوسری طرف مذہبی لوگ دوسرے گیٹ اپ کے حامل لوگوں کے بارے کیا سوچتے ہیں ؟وہ بھی کچھ اچھا نہیں۔ان کو لگتا ہے کہ ہر کلین شیو اور پینٹ کوٹ میں ملبوس شخص دین سے عاری اور مغرب کا پروردہ ہے۔اس کا دین اور اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور اس کی آخرت تو بالکل خراب ہے۔
اگرچہ وہ شخص اس گیٹ اپ اور ڈریس میں بھی اس فتویٰ باز شخص سے زیادہ نیک اور پارسا ہو، لیکن یہ نہیں مانے گا اور اس کو اس کی جنت اور جہنم کا فیصلہ ابھی کرنا ہے۔یونیورسٹی میں پڑھنے والے ہر لڑکے اور لڑکی کے بارے بھی ان کا یہی خیال ہے، کہ یہ بے راہ روی کا شکار لوگ ہیں اور سیدھے راستے سے بھٹک چکے ہیں ۔خصوصاً لڑکیوں کے بارے تو ان کے خیالات اور بھی خراب ہوتے ہیں، ان کو لگتا یہ ہے کہ ہر وہ لڑکی جو Western dressیا گیٹ اپ میں ہے، یا وہ Co educationمیں تعلیم حاصل کر رہی، تو اس کا سو فیصد یہ مطلب ہے کہ اس لڑکی کا کردار مشکوک ہے اور یہ پاکباز نہیں۔(یہ جملہ تو میں بڑی احتیاط سے استعمال کر رہا ہوں، ورنہ ان کے ہاں اس سے کہیں زیادہ خوفناک اور غیر پارلیمانی زبان استعمال کی جاتی ہے)۔
ملک پاکستان میں یہ دونوں گروہ اپنے مقابل، دوسرے گروہ کے حامل لوگوں اور ان جیسا حلیہ رکھنے والے لوگوں کے بارے Extreme viewsرکھتا ہے اور اپنے اس رویے کو جسٹی فائی کرتا ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ، جب یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے بارے اس طرح کی زبان کا استعمال کرتے ہیں، یا ان سے اپنی اس روایتی سوچ کے مطابق برتاؤ کرتے ہیں، تو وہ حقیقت میں اپنی آئیڈیالوجی ،سوچ اور نظریات کی مخالفت کر رہے ہوتے ہیں۔اگر مذہبی طبقہ دوسروں کے بارےغلط گمان رکھتا ہے، تو وہ قرآن کریم کی سورۃ حجرات کی آیت نمبر 12 کی مخالفت کر رہا ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرمایا ہے کہ
یٰاَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنُوا اجتَنِبوۡا کَثِیرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعضَ الظَّنِّ اِثمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا
"اے ایمان والو! بہت بد گمانیوں سے بچو، یقین مانو کہ بعض بد گمانیاں گناہ ہیں اور بھید نہ ٹٹولا کرو"
اسی طرح صحیح البخاری میں حدیث موجود ہے جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ "جو کوئی کسی دوسرے کو کافر قرار دے، تو اگر وہ کافر نہیں تو یہ الزام لوٹ کر واپس اس الزام لگانے والے پر آئے گا"پھر خواتین کی کردار کشی پر تو اور بھی سخت سزا ہے۔سورة نور کی آیت نمبر 4 میں اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ
وَ الَّذِیۡنَ یَرۡمُوۡنَ الۡمُحۡصَنٰتِ ثُمَّ لَمۡ یَاۡتُوۡا بِاَرۡبَعَۃِ شُہَدَآءَ فَاجۡلِدُوۡہُمۡ ثَمٰنِیۡنَ جَلۡدَۃً وَّ لَا تَقۡبَلُوۡا لَہُمۡ شَہَادَۃً اَبَدًا ۚ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ۙ﴿۴﴾
"جو لوگ پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں، پھر چار گواہ نہ پیش کر سکیں، تو انہیں اسی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔ یہ فاسق لوگ ہیں۔"
تو یہاں توجس نے بلاوجہ کسی نے زبان بھی کھولی تو وہ مجرم ہے، لیکن خود کو دین کا داعی اور ٹھیکیدار سمجھنے والے خود ،قرآن کی ان آیات پر عمل کرنے کو تیار نہیں اور دعوے اور عزائم ان کے یہ ہیں کہ یہ دنیا میں اسلام کو غالب اور نافذ کریں گے۔ جبکہ اپنے چھ فٹ کے جسم پر، جہاں ان کو ہر طرح کا اختیار بھی ہے، یہ اسلام نافذ کرنے کو تیار نہیں ۔دوسری طرف ہمارے خود ساختہ لبرل اور پروگریسیو سوچ کے حامل بھائی، جن کو انسانی حقوق اور آزادی اظہار رائے کا پرچار کرنے کا بڑا شوق ہے، اور ان کے نزدیک ہر شخص آزاد پیدا ہوا ہے۔
اس کو آزادی گفتار، آزادی خیال، آزادی سٹائل، آزادی تعلقات، آزادی حلیہ اور لباس حاصل ہے، تو اپنے ان نظریات کی بنا پر وہ یہی آزادی مزہبی طبقات کے لیے کیوں تسلیم نہیں کرتے؟ان کو کیوں شوق ہے ہر مذہبی حلیے کے حامل شخص کو انتہا پسند کہنے کا اور ہر مذہبی عبادت اور شعائر کا مذاق اڑانے کا،ان کو کیا مسئلہ ہے آخر ایک با حجاب خاتون سے؟اگر یہ اپنے لیے ہر آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں اور اس کے علمبردار بھی ہیں، تو دوسروں کے حقوق اور ان کی پسند ان کو کیوں چبھتی ہے۔آخر ان دونوں گروہوں کی یہ منافقت کب ختم ہوگی؟
صرف اپنے ہم خیال لوگوں کے لیے نرم گوشہ اور دوسروں پر شبھات اور الزامات،ان سے نفرت کا پرچاراور پھر اپنی اس لڑائی میں ان لوگوں کو بھی گھسیٹنا، جن کا نہ اِدھر سے تعلق نہ اُدھر سے۔محض حلیے کی بنا پر کسی کو جج کرنا ایک انتہائی خوفناک عمل ہے، جو اکثر اوقات غلط ثابت ہوتا ہے اور پھر ہمیں شرمسار ہونا پڑتا ہے۔اس معاشرے کو ہم لوگوں کے اس Judgmental رویے نے رہنے کے لیے جہنم بنا دیا ہے۔یہاں ایک غیر جانبدار بندے کا رہنا مشکل ہو گیا ہے۔
ہر کوئی ہر وقت اپنے تاثر کی بنا پر دوسرے کے بارے فیصلہ کر رہا ہے،اور اس کو اپنے فیصلے کے صحیح ہونے میں کوئی شک نہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم لوگ اپنے اس رویے کی اصلاح کریں ۔سب ایک دوسرے کو قبول کرنا سیکھیں اور ایک دوسرے کی چوائس کا احترام کریں۔زبردستی آپ کسی کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ہاں آپ اس طرح معاشرے کو جہنم ضرور بنا سکتے ہیں اور پھر یہ آگ دوسروں تک ہی نہیں رہے گی ،ایک دن اس کی زد میں آپ کا مکان بھی آئے گا۔