Vote Amanat Hai
ووٹ امانت ہے
ووٹ کس کو ڈالا تھا تم نے ایڈم؟ ایڈم نے گردن موڑ کے اس کو دیکھا اور لمحے بھر کو چپ رہ گیا۔ پھینے نقوش اور صاف رنگت کا وہ ایک عام سا ملے نوجوان تھا اور سوٹ ٹائی اس پہ بہت نئے اور اوپرے لگ رہے تھے۔ جیسے مانگ کے پہنے ہوں۔ کسی کو نہیں، سر۔ مجھے سیاست سے دلچسپی نہیں ہے۔ فاتح نے بے اختیار دونوں ابرو اٹھائے اور تعجب سے اسے دیکھا۔ تمہیں معلوم ہے ایڈم کسی ملک کے لئے سب سے خطرناک آدمی کون ہوتا ہے؟
کرپٹ حکمران؟ اس نے گڑبڑا کے کہا۔ ہاں مگر اس سے بھی زیادہ سیاسی جاہل، خطرناک ہوتا ہے۔ وہ اس پہ نظریں جمائے بھاری آواز میں افسوس سے کہہ رہا تھا۔ وہ سیاسی جاہل جو سینہ تان کے کہتا ہے کہ اسے سیاست سے دلچسپی نہیں، بلکہ اسے تو سیاست سے نفرت ہے۔ ایسا آدمی نہ کچھ دیکھتا ہے، نہ سنتا ہے، نہ کرتا ہے۔ اس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ سیاست Policies بنانے کا نام ہے اور آٹے دال۔
چاول، دواؤں اور موبائل کریڈٹ کی قیمت سے لے کر ہر چیز کا تعین سیاست دان کرتے ہیں، اور اگر سیاسی جاہل اپنی رائے نہیں رکھے گا، سیاست میں ووٹ اور سپورٹ کے ذریعے حصہ نہیں لے گا، تو وہ کرپٹ حکمرانوں کو مضبوط کرے گا اور سڑکوں پہ بے حال پھرتے لوگوں، چور ڈاکوؤں، غریبوں، سب کا ذمہ دار وہ ہو گا۔ مجھے زیادہ خوشی ہوتی ایڈم اگر تم کہتے کہ تم نے میرے مخالف کو ووٹ ڈالا تھا۔
کیونکہ تب مجھے لگتا کہ میں ایک سیاسی خواندہ سے بات کر رہا ہوں، جس کی کوئی سوچ ہے، بھلے مجھ سے مختلف ہو، مگر کوئی نظریہ، کوئی رائے، کچھ تو ہے۔ اس کے پاس یہ انسان کی آزاد رائے ہوتی ہے۔ جو ہمیں ایک دوسرے سے مختلف کرتی ہے، ورنہ ہم میں اور بھیڑ بکریوں میں کیا فرق ہے؟ آخر میں کندھے اچکا کے وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگ گیا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ بھی اسطرح کے لوگوں سے بھری پڑی ہے، ابھی بھی اس دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جن سے اگر پوچھو کس پارٹی سے وابستگی ہے، تو کندھا اچکائے انتہائی لاپرواہی اور بیگانہ پن سے چہرے پر پورا اطمینان سجائے یوں گویا ہوتے ہیں دفعہ کرو یار ہمیں ان لوگوں سے کیا لینا دینا سیاست سے اپنا کیا واسطہ کوئی جیتے یا ہارے ہمیں کسی سے کوئی غرض نہیں ہم نے اپنی روٹی کمانی اور کھانی ہے۔
ہم سیاست کو گناہ سمجھتے ہیں نیز ہم اس گناہ اور گھناونے کھیل میں کسی طرح بھی شامل نہیں ہونا چاہتے اس سے اجتناب میں عافیت زندگی اور زہنی سکون ہے، اللہ ان سیاسی پنڈتوں کی شر سے ہمیں محفوظ رکھے۔ کہنے کو تو یہ آدمی درست کہہ رہا ہے اپنے عقل کی حد تک جہاں تک اسکی عقل کام کرتی ہے۔ اس کے لئے وہاں تک یہ سوچ بہتر ہے یوں کہیں جہاں تک روشنی نظر آتی ہے۔
انسان وہاں تک کی جستجو رکھتا ہے۔ جوں ہی روشنی ختم ہوتی ہے اور اندھیرا شروع ہوتا ہے، انسان وہی پر اپنا پڑھاو ڈالتا ہے۔ جس انسان کے دماغ میں تجسس ہوگا، جستجو ہوگی وہ اس سے آگے کا بھی سوچے گا بلکہ مزید راستوں کی تسخیر کا سوچے گا آگے بڑھے اور جانچنے کی کوشش کریگا یہ سب انسان کے اندر کا شعور ہے۔ جو اس سے مزید جستجو کی سوچ عطا کرتا ہے۔
ورنہ بے شعوری اور کم علمی انسان کو اسی نقطے پر لا کھڑا کریگی اور محود سوچ سے انسان عقل کل کو بالائے طاق رکھ کر یہی کہے گا کہ ہم نے اس سے آگے کیا کرنا ہے۔ جو یہ سوچتے ہے کہ ہمارا سیاست سے کیا تعلق وہ اپنے ناقص عقل سے اس دنیا کے سسٹم میں رکاوٹ بن رہا ہے، اسکو نہیں پتا کہ اس کے ایک ووٹ سے کتنی بڑی تبدیلی رونما ہوگی، اس ایک ووٹ کی کمی سے ایک اچھا انسان اقتدار سے محروم بھی ہو سکتا ہے۔
اور اس ایک ووٹ کی گنتی سے ایک ظالم چور مسند پر برا جمان بھی ہوسکتا ہے۔ بحر کیف ہر انسان کی سوچ کا اپنا زاویہ ہے کہ وہ اس چیز کو کس زاوئے سے اور کس اینگل سے سوچتا ہے۔ بحر حال ہر کوئی اپنے نقطہ نظر سے اپنی جگہ ٹھیک سوچ رہا ہوتا ہے۔ آپکا ووٹ آپکے ضمیر کی آواز ہے اسکا استعمال آپ پر واجب ہے۔ آپ کا ووٹ ایک اچھے رہنما کا تعین کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔
اپنی حیثیت کو کم تر نہ سمجھیں۔ اسکا درست استعمال کریں، یہی ایک بڑی کامیابی کیطرف قدم ہے سوچ کو وسیع رکھئے سوچ ہی تدبر اور تدبیر پیدا کرتی ہے، سوچ ہی انسان کو بلندیوں تک پہچا دیتی ہے، سوچ ہی منزلوں کا تعین کرتی ہے، سوچ ہی دنیا میں انقلاب پرپا کرتی ہے۔