Sahafat Kase Ho
صحافت کیسی ہو
ڈگریاں، ترقی اور ہم کہیں بہت دور نکل آئے ہیں ہم۔ جہاں پر پہنچ کر احساس ختم ہو گیا ہے اور اخلاقی اقدار کی روشنی ماند پڑ گئ ہے۔ فلسفے تو زندہ ہیں۔ لیکن کتابوں میں اور عملی اعتبار سے ہم ان فلسفوں سے کوسوں دور ہو چکے ہیں۔ تعلیی ترقی کی رفتار روشنی کی رفتار کے بعد پہلے نمبر پر ہے اور ڈگریوں کی بھرمار نے ہمیں ایک ایسی دوڑ میں شامل کر دیا ہے، جہاں تربیت بہت پہچھے رہ گئ ہے۔
سکول، کالج و یونیورسٹیاں مرد و زن سے کچھا کھچ بھری ہوئی ہیں۔ لیکن علمی معیار کا گرتا گراف اس بات کی عکاسی کر رہا ہے کہ ہم اخلاقی گراوٙٹ میں ساری حدیں پامال کر چکے ہیں۔ افسوس صد افسوس یہ ہے کہ معاشرہ ان بہت ساری چیزوں کو برائی ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہے۔ جو اس معاشرے کی زوال کی سب سے بڑی وجوہات تھیں۔
لیکن خیر، وقت کی جدت ہے اور زمانے کی ضرورت۔ ہم پرانی اصلاحات کو نئے خوبصورت نام دے کر زمانے کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے، ایسی خوبصورت پیوندکاری کر سکتے ہیں کہ فلاحی معاشرے کی تشکیل کی طرف بڑھا جا سکے۔ لیکن یہ کام معاشرے کے سدھار کا کرے گا کون؟ اس میں سب سے اولین کردار جس شعبے کا ہے، اس کا نام صحافت ہے۔
اور یہ کام صحافی ہی کر سکتا ہے۔ قلم کا مزدور جب قلم فروش نہ ہو تو اس کے ضمیر کا سودا نہ خوف سے ہو سکتا ہے اور نہ ہی کوئی طاقت اسے زیر کر سکتی ہے۔ لیکن آج کے قلم کے سپاہی کا کردار بہت مشکوک ہو۔ انفارمیشن منسڑی، ہی آئی ڈی، گیٹ نمبر 4 جیسی خوشنما عمارتیں ان کے قلم کی نوک کو مصلحت کے نام پر خرید لیتی ہیں۔
لیکن آج بھی قلم کے مزدروں کی ایک بڑی تعداد ایسے اونچے بدنما اور سرد محلوں کی چمک دھمک سے بہت دور ہیں۔ ہمیں ترقی کرنی چاہئے ڈگری لینی چاہئے۔ لیکن فلاحی معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار بھی ادا کرنا چاہیے۔ اخلاقی اقدار کی کمی اور اپنے ہم منصب ساتھیوں کی گئی قلمی کاوشوں کی مدح۔ سرائی اور اس پر اخلاقی حدود کے دائرہ کار کے اندر رہ کر اظہار خیال کرنا۔
رائے کا احترام کرتے ہوئے عملی انداز میں تنقید کرنا، جس میں دل آزاری کا پہلو نہ ہو وقت کی اہم ضرورت ہے صحافی تو معاشرے کی آنکھ اور کان ہوتا ہے۔ لیکن اگر صحافتی اقدار سے مارواء ہو کر صحافی کچھ بھی کرے گا، تو اس کے اثرات فلاحی معاشرے کی تشکیل پر منفی پڑیں گے۔ ہر صحافی اپنا جاِئزہ لے اور خود احتسابی کی عادت ڈالے تو معاشرے کا امن و سکون لوٹایا جا سکتا ہے۔
صحافت کا تعلق کسی بھی پارٹی مشروط نہ ہونے کا ہے صحافت ہی سچائی کا دوسرا نام ہے۔ سچائی کے پہلو کو اجاگر کرنا ایک اچھے صحافی کی خاصیت ہوتی ہے یہی خاصیت اس سے دوسرے لوگوں سے ممتاز کرتی ہے۔ آج کل کے صحافی حکومت وقت کے ساتھ ملکر اپنے مفادات سمیٹنے میں اپنی عافیت اور ترقی سمجھ رہے ہیں در اصل ایسے لوگ صحافت کا جنازہ نکال رہے ہوتے ہیں۔
انکو صحافت سے کوئی غرض نہیں ہوتی بلکہ سرکاری خرچوں سے حج جیسے مقدس دین کے رکن کی ادائگی کو اپنے لئے رحمت سمجھ کر ادا کرتے ہیں یہ سرکاری حاجی اپنی نفسی خواہشوں میں یہ بھول جاتے ہیں کہ حج کسی غریب کے ٹیکسوں کے پیسوں سے نہیں بلکہ اپنی حلال کی کمائی سے کیا جاتا ہے۔ کچھ صحافی تو ایسے بھی ہیں کسی کے حق میں کالم لکھنے کے پیسے بھی بٹورتے عار نہیں سمجھتے۔
جب ایسی صحافت کی یلغار ہو تو معاشرے میں بگاڑ کا عنصر خود بخود وجود میں آتا ہے۔ اس برے فعل کی وجہ سے معاشرے سے سچ اور سچائی ناپید ہوجاتی ہے پھر ہوتا یہ ہے کہ ہرطرف جھوٹ رینگتا دھاڑتا نظر آتا ہے۔ نیز یہی کیفیت معاشرے کی تباہی کا سبب بنتی ہے۔ صحافت ایسی ہو کہ جھوٹ کو جھوٹ اور سچ کو سچ کہہ سکے صحافی کے قلم کی نوک سے لکھے لفظ یز تلوار کی دھار سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔
تلوار کا زخم تو بھر جاتا ہے، مگر قلم کا زخم پھیلتا جاتا اور کسی طرح رکنے کا نام نہیں لیتا اسلئے ضروری ہے۔ صحافی اپنی صحافت کے اقدار کو سمجھ کر اسکا حق ادا کرے، اگر ایک صحافی اپنی صحافی اقدار کو نہ سمجھے تو وہ اپنے قلم سے جہاں میں حقیقت اور سچ کی بجائے بربریت کو فروغ دے کر معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنے گا، جو کہ اس کے لئے ہلاکت بھی ہے اور معاشرے کے ازیت بھی۔