Musalman Aur Zameer Faroshi
مسلمان اور ضمیر فروشی
مسلمان اور ضمیر فروشی یوں تو صدیوں سے ان دونوں کا چولی دامن ساتھ ہے۔ میر جعفر اور میر صادق اپنے دور کے وہ گھناونے کردار ہیں۔ جس کی مثالیں رہتی دنیا تک زندہ و جاوید رہیں گی، ان المیہ یہ ہے لوگ انکی مثالیں دیتے دیتے خود انہیں کردار میں ڈھل گئے ہیں۔ جو انہیں نظر نہیں آرہا ہے۔ ابھی پورے ملک میں ضمیر فروشوں کے قصہ عام ہیں۔
مفاہمت پرست سیاست کا بادشاہ یعنی بے ضمیروں کا بادشاہ ضمیروں کی سودے بازی میں سر دھڑ کی بازی لگا رہا ہے۔ مگر ہر جگہ سے اسکو منہ کی کھانی پڑ رہی ہے۔ جس پارٹی کا بھی امیدوار ضمیر بیچ کر میدان میں آئے گا اسکے ساتھ انتہائی برا سلوک ہونے والا ہے، عوام طیش میں آچکی ہے، غریب عوام مہنگائی کے طوفان میں پس رہے ہیں اور یہ حرام خور عوام کے ووٹ سے ضمیروں کے سودے کر کے مزے لے رہے ہیں۔
اب ملک پاکستان میں سری لنکا جیس صورتحال وقوع پزیر ہو سکتی ہے۔ بلکہ ہونے والی ہے، بہت جلد ہونے والی ہے۔ اس کے بغیر ہمارے ملک کا نظام کسی طرح سے بھی ٹھیک ہونے کا نام نہیں لیتا۔ اب ایک ایسے انقلاب کی ضرورت ہے(خونی انقلاب) جہاں یہ بکے ہوئے ضمیروں کو ڈنڈے کے زریعے چھتر کے زریعے سدھارا جائے بلکہ ملک بدر کیا جاسکے یہ وقت کی اہم ضرورت بھی ہے اور اسی میں ہی ملک اور قوم کی بقا ہے۔
اب عوام کو اس اقدام کی طرف اپنے قدم بڑھانے ہونگے اور سوچنا ہوگا نہیں تو یہ ضمیر فروش کسی وقت کسی لمحے یہ ملک بھی بیچ کر لندن بلیجم یا کسی اور ملک کی طرف فرار ہو گے ہمارے وہ ادارے جو جو ملک کی بقا کے ضامن ہیں اور انکی زمداری ہے۔ اس قسم کی situation میں اپنا مثب رول ادا کریں، اسکو روکیں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے تماشہ بنے بیٹھے نظر آرہے ہیں زرا بھی ٹس سے مس نہیں ایسے پرسکون ہو کر مطمئن بیٹھے ہیں۔
جو ملک میں کچھ بھی نہیں ہو رہا ہو دھرتی ماں کی بولیاں لگ رہی ہیں۔ مگر دھرتی ماں کے محافظ گنے چوس رہے ہیں۔ بلکہ یوں کہیں دھنیہ یا چرس کا شربت پی کر ٹنڈ ہیں، ملک کا اسی فیصد بجٹ ہڑپ کرنے والے بھی مدہوشی کے عالم جزبے سے سکون کی ننید سو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے معزز چیف جسٹس بھی لفافے کے انتظار میں محو آرام ہیں کہ کہیں سے کوئی بھاری لفافہ آئے۔
اور انکی آنکھ کھلے اور پھر انکا قلم اور ہاتھ حرکت میں آئے اور زبان اطہر مبارک سے یہ الفاظ نکلیں یہ کیا ہو رہا ہے۔ آخر ہمیں بھی کوئی بتائے تب تک سب کچھ ہو چکا ہو گا، بس فرضی طور پر کچھ لمحوں کے لئے ایکشن کے نام پر ٹوپی ڈرامہ ہوگا اور پھر وہی ہوگا، جو ہم ازل سے اب تک دیکھتے آئے ہیں۔ لوٹ کھسوٹ اور ضمیر فروشی کی اس وبا نے اس ملک میں رہنے والے تمام غریب متوسط طبقے اور سفید پوش طبقے کو یرغمال۔
بلکہ یہ کہیں تو بے جا نہ ہو گا، جینا محال کیا ہوا ہے، کوئی خود کشی پر مجبور ہے تو کوئی اپنے جسم کے قیمتی نعمتوں کو بیچنے پر مجبور ہے سرکار نئے نئے شگوفے چھوڑ کر اپنی مدت پوری کرنے میں مصروف ہے۔ معروثی سیاست نے اس ملک کا بیڑا غرق کیا ہوا ہے اقتدار معروثیت کے شکنجے میں بری طرح کس کر رہ گیا ہے، کسی اور کو اقتدار کا حق ہی نہیں ہمارے بزرگ سیاستدانوں کی غلط روش یعنی ضمیر فروشی اور غلامی کی بدولت۔
آج اقتدار میں کوئی متوسط طبقے کا کوئی آدمی حق حکمرانی کا اہل نہیں نیز یہ بزرگ زرخرید زہنی غلام میں جکڑے ہوئے ضمیر فروشوں نے اپنے زاتی مفاد کیلئے معروثی حکمرانی کے تلے پورے معاشرے کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ جنکی عمریں موت کی دہلیز یعنی قدم قبر میں لٹک رہے ہیں، وہ لوگوں کے ضمیروں کا سوداگر بن کر زلیل و خوار ہو رہا ہے، کبھی اس کے گھر کبھی اسکے گھر بندر کی پھرتی تو نہیں ہے۔
مگر احمقانہ چال اور ڈگمگاتے اور لڑکھڑاتے قدم چہرے پر بے بسی کے آثار لئے ٹھوکریں کھا رہا ہے، اے کاش اسکو سمجھ آئے کہ اس عمر میں کوئی اچھائی یا ایسا کام اسکے ہاتھ سے ہوجائے کہ جو بروز معشر اسکی مغفرت کا سبب بنے لیکن لگتا ہے یہ بھی ناممکنات میں سے ہے۔ بیوی کے قتل سے آلودہ ہاتھ اور زہن اچھائی پر معمور نہیں ہوسکتے اور نہ اس کے حصے میں کوئی نیکی یا نیک عمل ہوتا نظر آتا ہے۔
بحرکیف اقتدار کی جنگ جاری ہے۔ حوس نفس کی اس جنگ میں سبھی کے ضمیروں کے سودے ایمان کی خلاصی کے چند لمحے باقی رہ گئے ہیں، شیطان کی مرید تو کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی شکل میں بک جائیں گے، مگر کچھ لوگ بچیں اور جو بچیں گے وہی اہل ایمان اور محب وطن ٹھرائیں گے اب یہ اہل کفر اور اہل ایمان کا قرعہ کس کے نام پر نکلے گا یہ آنے والا وقت ثابت کردے گا۔
مسلمان اور ضمیر فروشی یہ بظاہر تو بلکل متضاد چیزیں ہیں۔ مگر آج کا مسلمان ضمیر فروشی کو اپنی کامیابی اور بقا سمجھ رہا ہے، دراصل یہ نادان اس خسارے کے سودے سے واقف نہیں اور نہ اسکی سمجھ ہے، اسکی وجہ بھی زندگی بھر کی حرام خوری ہے کہتے ہیں کہ حرام کے ایک لقمے سے چالیس دن کی عبادت قبول نہیں ہوتی انہوں نے تو گزشتہ چالیس سالوں سے حرام خوری کی سنچریاں بنائی ہوئی ہیں، دوسرے لفظوں میں لہو منہ لگ گیا ہے۔
لہو منہ لگنے کا مطلب ہے سب کچھ جائز است۔ ضمیر فروشی میں ازل سے مسلمان کافروں سے سبقت لے گئے ہیں۔ اس پر مفصل کالم انشاء اللہ آنے والے دنوں میں اگر زندگی نے وفا کی تو قارئین کو ضرور پڑھنے کو ملے گا۔ انشاء اللہ گزشتہ پچھتر سال سے یہ عوامی نمائندے ملکی معیشت کے ساتھ مسلسل کھلواڑ کرتے آ رہے ہیں اور بے چارے لاچار و بے یارو مددگار عوام ان نمائندوں کے ہاتھوں یرغمال ہوتے آئے ہیں۔
پچھلے پینتیس چالیس سال سے یہ عیاش پرست حکمران خدمت کے نام پر لوٹ مار کرتے آئے ہیں۔ حکمران خاندان کے فرد نے ایک مسلمان ملک کے حکمران کے سامنے یہ بیان دیا۔ اور میں نے یہی کہا کہ جب میں آیا ہوں تو آپ سمجھیں (گے) کہ شاید مانگنے آیا ہے۔ میں مانگنے نہیں آیا، لیکن مجبوری ہے، ہمارا جس طرح ماضی میں، پچھتر سال میں، ماضی میں ہمارا ہاتھ بٹایا ہے۔
کچھ عرصہ آپ ہاتھ بٹا دیں تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ انشاء اللہ ہم پوری قوم دن رات محنت کریں گے، پسینہ گرائیں گے، (لیکن) اپنے پاؤں پہ کھڑے ہونگے۔ اس رقت انگیز بیان پر بڑے بڑوں کی آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں مگر صد حیف اس بے شرم عوام کے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگی۔ دراصل ہمارا نیک طینت حکمران غیر ملکی حکمران کے سامنے گڑ گڑاتے ہوئے یہ التماس کر رہا تھا۔
کہ عوام نے گزشتہ پچھتر سال سے اقتدار پر قبضہ جمائے رکھا، اپنی تنخواہوں اور سہولیات کی مد میں اربوں روپے قومی خزانے سے لوٹے، بینکوں سے قرضہ لیا اور بعد میں معاف کروا لیا اور سارا بوجھ حکمرانوں اور اُن کے معصوم بچوں پر ڈال دیا۔ حالانکہ یہ عوام تو سرکاری رہائش گاہوں کو بعد از ریٹائرمنٹ چھوڑنا پسند نہیں کرتے۔ چور بازاری کی عادت میں مبتلا یہ حکمران پہلے خود گندم اور چینی باہر بھجواتے ہیں۔
اور چند ماہ بعد وہی گندم اور چینی مہنگے داموں درآمد کر لیتے ہیں۔ معصوم حکمرانوں کو کوسنے اور طعنے دینے والی اِس عوام نے کبھی اپنی خود احتسابی نہیں کی اور نہ ہی کبھی نیک نام اور شرافت کی اوجِ ثریا پہ فائز حکمرانوں کے بے پناہ احسانات کا شکریہ ادا کیا۔ بھوک اور افلاس سے نڈھال حکمرانوں نے اپنے اور اپنے معصوم بچوں کے پیٹ کاٹ کر، اپنے کپڑے بیچ کر اس لے پالک عوام کا خیال رکھا ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے، ان عیاش پرست اور بے ضمیر حکمرانوں کو سبق سکھانے کا ہے تو قوم پوری طرح تیاری کریں اور یہ چور ضمیر فروش جہاں ملیں انکی بہترین طریقے سے عزت افزئی کریں عزت افزائی بھی ایسی کہ آئیندہ انکو ایسے گھٹیا فعل سر انجام دینے میں سو بار سوچنا پڑے۔