Hamara Mustaqbil (2)
ہمارا مستقبل (2)
ہمارے معاشرے میں مسائل روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں لیکن ہمارے ملک کے حکمران ملک کے قرضے کے بارے میں سوچتے ہیں تو ان کے ہاتھ پاؤں اور دماغ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں لیکن اس کا حل نکالنے کے لیے ایسی سوچ پیدا کرنی چاہیے کہ ہمارے ملک کے لوگ آسانی کے ساتھ قرضے کی ادائیگی کر سکیں۔ ملک کا 116 ارب ڈالر جو قرضہ ہوا ہے یہ پانچ، دس سالوں میں نہیں ہوا ہے۔
پاکستان کو آ زاد ہوئے تقریباً ستر سال سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ اس قرضے کو کم کرنے کے لیےکچھ پالیسیاں ایسی جاری کرنی چاہیے کہ ہمارے جو نوجوان ہیں ان کے اندر سوچ تبدیل کرنی چاہیے تاکہ ہم سب مل کر کوشش کریں کہ زندگی گزارنے کے اصول بتائیں کہ زندگی کیسے بسر کرنی؟ کہ کس چیز کو کیسے استعمال کرنا ہے؟ لیکن زندگی کے اصول بنا کر اور انسانیت کو مدنظر رکھتےہوئے حالات بہتر کرنے چاہیے۔
اور رہی بات قرضے کی، موجودہ حکومت جو بھی ہوتی ہے وہ کہتی ہے کہ حالات جو بدتر ہوئے ہیں ہماری وجہ سے نہیں ہوئے، یہ حالات بدتر جو ہوئے ہیں پچھلے حکمرانوں کی وجہ سے ہوئے ہیں۔ یہ سب الزامات ان پر ڈال دیتے ہیں اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے، blame game شروع ہو جاتی ہے۔ قرضے کو کم کرنے کے لیے ایسی پالیسیاں اور اقدامات کرنے چاہئیں اور ان مسائل کو حل کرنے کے لیے حالات کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے۔
کہ قرضہ ایک سوچ ہے، قرضہ ہماری سوچنے کی صلاحیت میں اضافہ کر دیتا ہے۔ ہمارے ملک کے لوگ ایسی سوچ رکھتے ہیں کہ بیٹھے بیٹھائے قرضہ ادا ہو جانا چاہیے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم یہ کہہ جاتے ہیں کہ ہم یہ قرضہ ادا کیوں کریں؟ ہماری وجہ سے یہ تھوڑا ہوا ہے؟ پھر ہم کہتے رہتے ہیں کہ ہمارا مسلہ نہیں ہے یہ حکومت کا مسلہ ہے اس کو ادا کرنے میں ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے اب حکومت جانے اور اس کا کام جانے۔
کیوں کہ ہمارے ملک کی عوام اپنے مفاد کو مدنظر رکھتی ہے، جب حکومت کے مفادات کو نظر انداز کر دیتی ہے اپنے مفاد کی خاطر تعلیم یافتہ نظر آتے ہیں۔ جب حکومت کی بات ہوتی ہے تو پھر تربیت یافتہ ہو جاتے ہیں۔ ہماری سوچ تو ایسی ہے کہ ہم لاکھوں روپے لگا دیتے ہیں اچھا گھر بنانے میں اور اپنی ساری زندگی کی کمائی لگا دیتے ہیں کہ صاف ستھرا ماحول ہونا چاہیے۔
لیکن اگر ہمارے گھر کے سامنے ایک گٹر کا ڈھکنہ ٹوٹ جائے تو پھر ہم حکومت کی ایسی تیسی کر دیتے ہیں کہ یہ حکومت کا مسلہ ہے، اس کو حل حکومت کو کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں کی باتیں کرتے ہیں کہ آتے ہیں ووٹ لے کر چلے جاتے ہیں ان کے سامنے کچھہ نہیں کہہ سکتے جب پانی سر کے اوپر سے گزرنے کے قریب آ جاتا ہے تو پھر ہم سب لوگ ان مسائل کو حل کرنے کی بھاگ دوڑ میں لگ جاتے ہیں۔
پھر نہ ہم اپنے مفادات کو دیکھتے ہیں، نہ حکومت کے مفادات کو دیکھتے ہیں پھر ہمیں اپنے بچوں کی پڑ جاتی ہے ہم پھر یہ کہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کا مستقبل اچھا ہو جائے، اچھی سوچ رکھو گے تو اچھی تربیت ملے گی کیونکہ تربیت دیکھ کر ہی دوسرے ملک کی عوام بتا سکتی ہے کہ یہ مسلمان ہیں۔ تربیت یافتہ لوگ ہی بڑے فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہم ایک اچھی قوم ہیں، اچھی قومیں ہی اپنا اچھا مستقبل بنا سکتی ہیں۔
قائد اعظم نے بہت اچھے الفاظ میں بیان کیا تھا۔ "کہ تم مجھے پڑھی لکھی ماں دو میں تمہیں پڑھی لکھی قوم دوں گا"۔ پتہ نہیں کیا بنے گا ہماری اس قوم کا، کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ ویسے ہم اپنے آ پ کو ایک سمجھدار قوم کہتے ہیں۔