Zamhareer (4)
زمہریر (4)
ہانیہ کی پیدائش سے جہاں مصروفیت بڑھی وہیں کچھ میرا دل بھی آباد ہوا۔ میں نے ہانیہ سے صرف محبت کی مگر فیض نے عشق کیا۔ دفتر سے آنے کے بعد ہانیہ صرف فیض کے پاس ہوتی۔ گزرے وقتوں میں فہد کی بھی شادی ہو گئی اور مزے کی بات کہ اس کی بیوی ثمرہ مجھ سے ملتی جلتی تھی اور فہد اس کے ساتھ بہت خوش تھا۔ دونوں ماشاءاللہ چہکتے رہتے تھے۔ مجھے ان کو خوش دیکھ کر رشک آتا۔
خلوص اور محبت کی اپنی ہی خوبصورتی اور گداز ہے۔ محبت کی وہ قوس قزح ثمرہ کے چہرے کا ہالہ کیے اسے حسین تر بنا رہی تھی۔ میرا دل محبت کے اس گداز سے نا آشنا تھا بلکہ فیض کی بے فیض سنگت سے تو اب میرا دل بھی قطرہ قطرہ مردہ ہو کر سنگ مرمر ہوتا جا رہا تھا۔
ہم ایک عمر سے واقف ہیں ہمیں نہ سمجھاؤ
کہ لطف کیا ہے مرے مہرباں۔ ستم کیا ہے؟
وقت ریت کے ذرے کی طرح جھڑتا رہا۔ ان گزرتے وقتوں میں بہت تبدیلیاں آئیں۔ نانی، میری دوست اور ہمراز، میری شفیق ساس اور میری بے زبان ماں گزر گئیں۔ عطرت کی شادی ہو گئی۔ مدحت، ریاض چھوڑ کر فلوریڈا میں سیٹل ہو گئی۔ شہزاد باہر پڑھنے چلا گیا۔ مجھے پتہ ہے وہ اب وطن نہیں لوٹنے والا۔ ڈالر تو شہزاد کی طرف سے ابا کے لیے بے شک آتے رہیں گے مگر شہزاد نہیں آئے گا کہ ابا اور اس کا رشتہ کبھی ایسا رہا ہی نہیں جو اس کو واپس کھینچے۔ ان کے رشتے میں محبت نہیں تھی، صرف خوف اور مجبورََ تابعداری جو یقیناً ایک بے نمو رشتہ تھا۔
عطرت ابا کے گھر کے قریب ہی رہتی ہے اور ابا کی دیکھ رکھ کرتی ہے۔ عطرت ہمیشہ سے محبتی اور دوسروں کے کام آنے والی رہی ہے۔ میں جب مہینے دو مہینے پر ابا کے گھر کا چکر لگاتی ہوں تو ابا بے تکان امی کی باتیں کرتے ہیں۔ مجھے ان پر ترس بھی آتا ہے اور بے تحاشا غصہ بھی۔ میرا دل چاہتا ہے کہ ان سے پوچھوں کہ ابا! امی کے جیتے جی تو ان کی قدر نہ کی اب سنگ مرمر کی قبر کا فائدہ؟
جس کو زندگی میں ہمیشہ ناشاد و نا آسودہ رکھا اب اس کی مدح سرائی سے اپنے گلٹ کو کیوں چھپا رہے ہیں؟
مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ اب ان کی خوبصورتی کے قصیدے پڑھنے کی کیا تک ہے؟
پتہ نہیں ہم لوگ مردوں کو انمول اور زندوں کو رول کیوں دیتے ہیں؟
زندگی میں محبت کرو۔ جیتے جی قدر کرو۔ مرنے کے بعد کونج کی طرح کرلانے کا کیا فائدہ؟
مگر اب انہیں کیا بولوں؟
اب ان کے دل مہجور کو سچ کے بھالے سے کیا رنجور کروں۔ رشتوں کی مجبوری یہ بھی ہے کہ درگزر کرنا ہی پڑتا ہے، نہ چاہتے ہوئے بھی اوپری دل ہی سے سہی معافی دینی پڑتی کیونکہ اس کے علاوہ آپ کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہوتا ہے۔ سو میں بھی چپ کر کے ان کو سنتی اور اپنا بلڈ پریشر بڑھاتی ہوں۔ مجھے اپنی زندگی بھی امی کی زندگی کے مشابہ لگتی ہے، ویسی ہی بے رنگ و رس، سپاٹ، ادھوری اور بیراگی زندگی۔
بس میں نے ذرا شعوری کوشش کی اور ہانیہ کو اپنا محور بنا لیا۔ ہانیہ ہم بھائی بہنوں کی طرح محبت اور توجہ کے لیے ترسی ہوئی بچی نہیں ہے۔ وہ پر اعتماد اور عملی لڑکی ہے گو کہ ہو بہو مجھ سے مشابہ۔ جانے کیسے؟ کیوں کہ میں تو کب کا آئینہ دیکھنا چھوڑ چکی تھی۔ سچ ہے کہ ایسا کچھ تھا بھی کب دیکھنے کو؟ میرا تو روم روم فیض کو تکتا تھا۔ اس شخص سے میں نے بے پناہ محبت کی تھی۔ اتنی کہ اگر وہ میری کھال سے اپنے جوتے بنوانے کی خواہش کا اظہار کرتا تو میں بلا چوں چرا عمل پیرا ہوتی۔
میں ان سے اس قدر محبت کرتی تھی کہ ان کی اداسی مجھے بے کل رکھتی، بلکہ ایک دفعہ میں نے اپنی ساس کو ان کی دوبارہ شادی کی تجویز بھی پیش کی۔ امی سے کہا کہ ان کے جوڑ کی لڑکی دیکھ کر ان کی شادی کر دیں۔ میری جنت مکانی ساس نے مجھے بہت ڈانٹا اور مجھ سے قسم لی کہ میں کبھی فیض کے سامنے ایسی بے تکی بات منہ سے نہیں نکالوں گی۔ کاش زندگی میں بھی الجبرے کا قائدہ لاگو ہوتا کہ منفی منفی مل کر مثبت بن جاتے، مگر ہم دو ایسے ادھورے تھے جو مل کر بھی مکمل نہیں ہوتے تھے۔
اب ہم لوگ ایم اے جناح روڈ منتقل ہو چکے تھے۔ عین قائداعظم کی مزار کے مخالف سمت میں میرا پانچویں منزل پر فلیٹ تھا۔ اس کی مختصر سی بالکونی سے باغ قائد کا مزار نظر آتا تھا۔ ہانیہ سیکینڈ ائر سینٹ جوزف کالج میں تھی جب اس کےکالج میں مینا بازار کا اہتمام ہوا تھا اور محترمہ فوڈ اسٹال کے لیے اپنا نام لکھوا آئیں تھیں۔ حال ان کا یہ تھا کہ سوائے چائے بنانے کے اور کچھ نہیں آتا جاتا تھا۔
چائے بھی اس لیے کہ بابا چائے کی چاہ میں مبتلا ہیں اور دونوں باپ بیٹی ایک دوسرے کے عشق میں غرق اور میں ان دونوں کو دیکھ دیکھ کر شکر و رشک میں سجدہ ریز۔ باپ بیٹی کا رشتہ بھی دنیا کا خوبصورت ترین رشتہ ہے۔ بلاشبہ ہانیہ اس معاملے میں خوش قسمت تھی۔ اس کے ہاتھوں میں توجہ کا کاسہ نہیں تھا کہ اسے جی بھر کر چاہا اور سراہا گیا تھا۔ میں نے ہانیہ کے ساتھ اس کے کالج کے مینا بازار میں شرکت کی اور کیا خوب کی، گویا میلا ہی لوٹ لیا۔
بس جانو اللہ تعالیٰ نے میرے لیے ناممکنات کے دروازے کھول دیے۔ مینا بازار کے اگلے ہی ہفتے ہانیہ اپنی فزکس کی ٹیچر کا سندیسہ لے آئی کہ ان کے بیٹے کی سالگرہ ہے اور کیٹرنگ مجھے کرنی ہے۔ میرے ہاتھوں کے تو طوطے اڑ گئے مگر اللہ کی مدد سے میں نے یہ بازی جیت لی اور پھر اس کے بعد مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔ بس اب کامرانیاں ہی کامرانیاں مقدر تھیں۔ ہانیہ نے پمفلٹ بنا کر بلڈنگ میں بانٹ دیے پھر تو میرے لیے آڈر پورا کرنا مشکل ہو گیا۔
یہاں بھی ہانیہ نے ہی معاملہ سنبھالا اور کہا امی یہ سب بہت زیادہ محنت طلب ہے، آپ کیٹرنگ چھوڑیئے اور کوگنگ کلاس گھر پر شروع کیجیے اور پھر فیض کے ساتھ مل کر اس نے یو ٹیوب پر میرا کوکنگ چینل بنا دیا۔ اب آج، چھ سال بعد میں پلٹ کے پیچھے دیکھتی ہوں تو حیران ہوں کہ مجھ نا چیز کو میرے ربّ نے کیمیاء بنا دیا۔ میری کامیابی کا سہرا میری بیٹی کے سر ہے۔
عموماً ماں باپ اولاد کا مستقبل بناتے ہیں مگر میرے کیس میں معاملہ الٹ ہے میری بیٹی نے مجھے زندگی کی جوت دی اور میرے بنجر دل کو نخلستان بنا دیا۔ مجھے ایک پر اعتماد اور با عمل زندگی دی۔ میرے ہزاروں، لاکھوں فین ہیں (مجھ کم نما کے! خدا کی قدرت ہے) اس توقیر اور پیار نے دل کو ایسا سیراب کیا کہ میں اپنے آپ سے محبت کرنے لگی۔ یقین مانیں دو محبتیں بہت ضروری ہیں۔
۔ اللہ تعالیٰ سے محبت کہ یہ محبت ایمان کا تقاضا اور انسان کے عرفان کا زینہ ہے۔ یہ محبت کی بہت ہی اعلیٰ اور پاکیزہ ترین قسم ہے۔ یہ رتبہ اور مقام سب کو حاصل نہیں ہوتا پتہ مارنا پڑتا ہے کہ زم زم ایڑیاں رگڑے بغیر کب میسر آتا ہے۔
۔ دوسری اپنے آپ سے محبت۔ یہ چھوٹا کام ہے۔ یہ میرے جیسے بونے اور بالشتیے ذرا سی کوشش سے کر سکتے ہیں۔ اپنے آپ سے محبت ضرور کیجیے کیونکہ کنواں وہی آباد ہوتا ہے جس سے لوگ ڈول بھر بھر کر پانی لے جاتے ہیں۔ باریابی اسی در کو نصیب ہوتی ہے جہاں سے آسانیاں اور فیض بانٹے جاتے ہیں۔ انسان جب خود سے محبت کرتا ہے، اپنے آپ سے راضی اور اندر سے خوش باش ہوتا ہے تبھی معاشرے کے لیے بھی کارآمد ثابت ہوتا ہے۔
سوال تو اب بھی ہیں میرے پاس مگر اب شکوے کم اور شکر گزاری زیادہ ہے۔ اب تو معجزہ یہ ہے کہ فیض بھی مائل بہ کرم ہیں مگر کیا کیجیے کہ اب دل سائل ہی نہیں رہا۔ شاید جزبوں کی بھی عمر ہوتی ہے، ایک ایکسپائری ڈیٹ اور میعاد۔ جزبوں کو پزیرائی نہ ملے تو وہ بے توجہی کے سبب ٹھٹھر جاتے ہیں، بن موت مر جاتے ہیں، بن موسم کی برسات بھلا کب سیراب کرتی ہے؟
وہ ملتفت ہوئے، جب دل مبتلا کو حاجت نہیں رہی
کیا کیجیے کہ اب ہمیں دل کی وہ چاہت نہیں رہی۔