Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Zamhareer (3)

Zamhareer (3)

زمہریر (3)

جانے اب ساس کی طبیعت کیسی ہے؟

وقت الگ نہیں گزر رہا تھا۔ وقت گزاری کے لیے میں نے کمرے کا جائزہ لینا شروع کیا۔ کمرہ بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا اور بلاشبہ نفیس تھا دل کی لگن اور جاں فشانی ہر ہر چیز سے عیاں تھی۔ میں اپنی قسمت پر نازاں تھی۔ تین بجے کے قریب دروازہ کھلا اور میں نے گھونگھٹ کی اوٹ سے فیض کو اندر آتے دیکھا۔ مگر یہ کیا؟

اتنا اجڑا ہوا دلھا؟

سفید کرتے پجامے اور اسپنج کی قینچی چپل۔

نہ شیروانی نہ ہار؟ ایسا شکستہ دل سا کہ میرا دل کسی انہونی کے خیال سے بری طرح دھڑک گیا۔

فیض پلنگ کے کنارے دیوار کی طرف منہ کر کے بیٹھ گئے۔ ٹھوڑی دیر کے بعد انہوں نے کہنا شروع کیا۔ میں نہیں جانتا کہ میں آپ سے کیسے کہوں؟ مگر یہ حقیقت ہے کہ آپ وہ نہیں جس سے میں نے شادی کرنی چاہی تھی۔ مجھے اس لڑکی سے شادی کرنی تھی جس نے اس دن دروازہ کھولا تھا، جب میں انیس صاحب کے گھر فائل لینے آیا تھا۔ مجھے نہیں پتہ کہ امی کو غلط فہمی کیسے ہوئی؟

مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ اس غلطی نے مجھ سے میری خوشیاں چھین لیں۔ میری زندگی اجڑ گئی۔ آپ کے لیے بھی یہ بات یقیناََ بہت بڑا دھچکا اور تکلیف دہ ہو گی، مگر میں مجبور ہوں، میں آپ سے کوئی وعدہ نہیں کرنا چاہتا۔ ابھی میں خود بھی کچھ نہیں جانتا۔ مجھے تھوڑا سا وقت چاہیے۔ اتنا کہا اور اٹھ کر چلے گئے۔ انہوں نے اپنے پیچھے کمرے کا دروازہ نہیں بلکہ میری تقدیر کا دروازہ بند کیا تھا۔

مجھے تو سمجھ ہی میں نہیں آیا کہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے؟ ایسا تو فلموں، ڈراموں میں ہوتا ہے مگر یہ تو حقیقی زندگی ہے۔ میری جیتی جاگتی زندگی۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ ضرور مجھے وہم ہوا ہے۔ مجھے اونگھ آ گئ ہو گی اور میں نے یہ ڈراؤنا خواب دیکھا ہے، مگر میرے جسم کی کپکپی اور مسلسل بہتے آنسوؤں نے مجھے یقین دلایا کہ نہیں، یہ سب سچ ہے اور یہ میرے ہی ساتھ ہوا ہے۔ چھم سے میرے ذہن میں امی ابا کا کمرہ آ گیا۔ وہ کمرہ جو مجھے بہت بے جان اور ٹھنڈا اور ٹھٹھرا ہوا لگتا تھا۔

مگر یہ کمرہ، میری حجلہ عروسی، یہ تو چشم زدن میں زمہریر بن گیا، زمہریر جہنم کا سرد ترین طبقہ۔ میرا جسم شل ہو چکا تھا۔ میں سمجھتی تھی کہ ترکے میں صرف جائیداد ملتی ہے مجھے تو یہ علم ہی نہیں تھا کہ ماؤں کے دکھ اور بد قسمتی بھی ورثے میں ملتی ہے۔ میں کب تک روتی رہی مجھے نہیں خبر مگر مجھے یہ ضرور معلوم تھا کہ اب یہ رونا زندگی بھر کا رونا ہے۔

مسجد شاید کہیں قریب ہی تھی کیونکہ فجر کی اذان واضح سنائی دے رہی تھی۔ مجھے اور تو کچھ سمجھ میں نہیں آیا مگر میرے دل نے کہا اس کو پکارو جو سب کی سنتا ہے اور ہر وقت سنتا ہے۔ اپنے عروسی جوڑے ہی میں، میں نے وضو کیا، قطعاً اس بات سے بے خبر کہ پانی کی دھار زیادہ تیز تھی یا میرے آنسوؤں کی رفتار۔ وہ عجیب نماز تھی، نہ قبلے کی سمت کا پتا نہ جائے نماز میسر مگر جیسی بھی نماز تھی، پڑھنے کے بعد دل ضرور ذرا ٹھہرا تھا۔

میں زمین ہی پر بیٹھی ہوئی تھی کہ دروازہ دوبارہ کھلا اور میری ساس ہاتھوں میں ٹرے لیے اندر داخل ہوئیں۔ میں نے کھڑے ہوتے ہوئے انہیں سلام کیا اور ان کے ہاتھوں سے ٹرے لیکر بیڈ سائیڈ پر رکھ دی۔ انہوں نے چائے کی کپ میرے ہاتھوں میں پکڑا دی اور ساتھ ہی بسکٹ بھی گو کہ بھوک اور غم سے کلیجہ اینٹھ رہا تھا مگر وہ بسکٹ مجھ سے نگلی نہیں جا رہی تھی۔ جیسے تیسے چائے ختم ہوئی۔

ساس نے کہا کہ بیٹی جو ہو چکا اس پر تبصرہ لا حاصل ہے کیونکہ یہی مشیت تھی کہ لکھنے والے نے ایسے ہی لکھا تھا۔ اب سنبھلنا اور سنبھالنا کیسے ہے اس کو سوچنا ہے۔ تم دونوں کے لیے یہ شدید جھٹکا ہے مگر میری بچی پہل تم کو ہی کرنی پڑے گی۔ اس لیے نہیں کہ تم میری بہو ہو بلکہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت میں بہت صبر و ضبط، برداشت اور لچک رکھی ہے۔ بیٹا گھر عورت ہی بناتی ہے۔ مشکل کام ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں۔

جب اللہ تعالیٰ نے تمہارا نصیب فیض سے جوڑا ہے تو وہ بے نیاز دل بھی ضرور جوڑے گا۔ تم اپنا دل برا مت کرو۔ آج بے شک تمہارا نہیں مگر ان شاءاللہ کل تمہارا ہی ہے کہ نکاح مزاق نہیں، اللہ تعالیٰ نے اس میں بہت برکت رکھی ہوتی ہے۔ میں کیا جواب دیتی؟ میرے پاس کوئی جواب تھا نہیں۔ بیان تو وہ کرتے ہیں جن پر پڑتی نہیں جو بھگت رہے ہوتے ہیں وہ تو بس حیران اور ششدر رہ جاتے ہیں اب تو سب کچھ نصیب پر ہی منحصر تھا۔

نصیب! جس کی میں کبھی بھی سکندر نہیں رہی تھی۔

دن کے گیارہ بجے میرے دیور نے دروازے پر دستک دے کر مجھے امی ابا کے آنے کی اطلاع دی۔ کہا بھابھی امی بیمار ہیں سو لیٹی ہیں اور فیض کو میں نے نیند کی دوا دے دی تھی اس لیے سو رہا ہے۔ بھابھی پلیز سنبھال لیجیے گا۔ بات گھر ہی میں رہے تو اچھا ہے۔ ڈرائینگ روم میں امی ابا اور شہزاد ناشتہ لیکر آئے تھے۔ میں نے اپنی مقدور بھر ایکٹنگ کی۔ ساس بیچاری کی خرابی طبیعت کا نقشہ کھینچا اور پھر امی کو ساس سے ملانے ان کے کمرے میں لے گئی۔

ابا کوئی پون گھنٹہ بیٹھے مگر واپسی پر ان کے چہرے پر تفکر کی پرچھائیں بہت گہری تھیں۔ دوسرے دن ولیمہ بھی مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ بخیر و خوبی نبٹا۔ دعوتوں کے لیے معذرت کر لی گئی سب سے وہی بہانہ "امی کی بیماری"۔ چوتھے دن فہد واپس دمام روانہ ہوا۔ جانے سے پہلے اس بیچارے نے اپنے طور پر مقدور بھر تسلی دلاسہ دیا۔ اس رات یہ فرق پڑا کہ فیض اپنے کمرے میں واپس آ گئے، ورنہ گزشتہ تین دنوں سے ان کا قیام فہد کے کمرے میں تھا۔

اگلے دن سے میں نے بھی دلہناپے کا چولا اتار پھینکا اور گھر کو سنبھال لیا۔ ساس میری بہت اچھی تھیں، وہ دن بھر مجھے ادھر ادھر کے قصے میں الجھائے رکھتی۔ خدا خدا کر کے فیض کی چھٹیاں ختم ہوئی اور ان کے کام پر جانے سے میری زندگی قدرے آسان ہو گئ۔ ابا کے گھر سے بس فون بھر ہی تعلق تھا اور فون پر ہی بات ہو جاتی تھی۔ مدحت اور عطرت میرے بدل جانے کا شکوہ کرتی اور میں ہنس ہنس کر پردہ رکھتی۔

شادی کے کوئی ایک ماہ بعد کی بات ہے کہ عطرت نے بتایا کہ امی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور میرا دل بے چین ہو گیا۔ میں نے اپنی ساس سے تذکرہ کر دیا۔ شام میں فیض کی دفتر سے واپسی پر وہ فیض کے سر ہو گئیں کہ دلہن کو میکے لے کے جاؤ۔ اس دن پہلی بار میں گھر سے نکلی۔ جب شہزاد نے مجھے بتایا تھا کہ فیض بھائی کے پاس نیلی کلٹس ہے تو ان تین مہینوں میں جانے کتنی بار میں خیالوں ہی خیالوں میں فیض کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر اڑی اڑی پھری تھی۔

آج حقیقتاً گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے میرے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ بیٹھتے ہوئے ایسے ہی نظر فیض پر پڑ گئی تو ان کی آنکھوں کی سرخی میں مجھے ان کے ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں بخوبی نظر آئیں۔ ابا کے گھر فیض ایسے زمین پر نظر گاڑے بیٹھے رہے جیسے گم شدہ سوئی ڈھونڈ رہے ہوں۔ پھر ابا سے اجازت لیکر کسی کام سے چلے گئے۔ میں امی کے پاس ہی بیٹھی تھی کہ ابا نے آہستہ سے پوچھا "اس دن" دروازہ کس نے کھولا تھا؟

میرا جواب تھا "مدحت"۔

پھر ایسا لگا کہ اس کمرے میں کوئی متنفس نہیں بلکہ صرف تین ہیولے ہیں۔

ابا نے مدحت کی تعلیم مکمل ہونے کا بھی انتظار نہیں کیا اور جلد ہی مدحت کی شادی کر دی اور رشتہ طے کرتے وقت اس بات کو مدنظر رکھا کہ لڑکا باہر سیٹل ہو۔ مدحت عمران کے ساتھ ریاض روانہ ہو گئی اور میرے ذہن سے ایک بوجھ اترا۔ میری زندگی اپنی تمام تر بے رنگینی کے ساتھ گھسٹ رہی تھی کہ بھیک سے پیٹ تو پلتا ہے دل نہیں۔ بھلا اوس چاٹے سے کبھی پیاس بھی بجھی ہے؟ ایسی ہی کسی شب بے الفت کا دُر "ہانیہ" کسی بیش بہا خزانے کی مانند میری گدڑی میں ڈال دی گئی۔

Check Also

Khyber Pakhtunkhwa Ka Jahannam

By Najam Wali Khan