Zamhareer (2)
زمہریر (2)
نانی چھوٹے قد کی قدرے فربہی کی طرف مائل، خوش باش، حاضر جواب اور مزاجاً ہنسواڑ تھیں۔ مدحت شاید ان پر ہی گئی تھی، زندہ دل اور خوش باش۔ پتہ نہیں امی کس پر پڑ گئی تھیں؟ اس بار جب نانی آئیں تو میرے پکوان سے بہت متاثر ہوئیں اور میری بہت تعریف کی۔ میں نے نانی سے کہا کہ مجھے کچھ روایتی پکوان بھی سکھا دیں، سو اس روز دن کے کھانے کے بعد ہم دونوں نانی نواسی کچن میں مصروف تھے۔ نانی مجھے منگوچھی اور محبوبی بنانا سکھا رہی تھیں کہ اچانک میں نے کہا۔
"نانی آپ کو امی کی شادی ابا سے نہیں کرنی چاہیے تھی۔ "
نانی یک دم بہت افسردہ ہو گئ اور کہنے لگی مجھے اگر انیس کی پسندیدگی کا علم ہوتا تو کیا میں اپنی بیٹی کو اس عذاب میں جھونکتی؟ ہم لوگ تو اعتبار اور بے خبری میں مارے گئے۔
امی اسی رنجش کے سبب آپ سے بات نہیں کرتی نا؟
ہاں مہتاب نے مجھے آج تک اس بات کے لیے معاف نہیں کیا۔
کیسے معاف کریں نانی ان کی تو زندگی ہی رل گئی۔ ابا نے بہت زیادتی کی۔ وہ جن کو پسند کرتے تھے ان کے لیے ان کو اسٹینڈ لینا چاہیے تھا۔ کم ہمتی مردوں کو زیب نہیں دیتی۔ عاشقوں کی سب سے بری قسم بزدل عاشق ہیں۔ ابا میں جب نبھانے کی صلاحیت نہیں تھی تو ان کو امی سے شادی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ ابا کو کوئی حق نہیں تھا امی کو زندہ درگور کرنے کا۔ اگر بسانا نہیں تھا تو بیاہا ہی کیوں؟
مگر نانی مجھے ایک اور بات بھی سمجھ میں نہیں آتی۔ امی ابا کا دل نہیں جیت سکیں چلو مان لیا مگر انہوں نے ہم لوگوں سے دل کیوں نہیں لگایا؟
ہم چاروں تو ان کی اولاد ہیں، ہمارے لیے اپنے دل کو کشادہ کیوں نہیں کیا؟
کیا ہم لوگ ان کے جینے اور خوش رہنے کی وجہ نہیں بن سکتے تھے؟
ایک بے قدرے کی محبت سے محرومی پر انہوں نے اپنا دل محبت کے لیے کیوں بند کر لیا؟
سچ نانی مجھے امی سے بہت شکایت ہے۔ وہ ابا کے روئیے پر احتجاج کیوں نہیں کرتیں؟
ابا کو ان کے فرائض کیوں نہیں یاد دلاتیں؟
ہم لوگوں سے محبت کیوں نہیں کرتیں؟
اے دیوانی تو نہیں ہو گئ ثروت؟
ماں اور بھلا اپنے بچوں سے پیار نہ کرے؟
نانی نے ذرا ناراضگی سے کہا۔
پتہ نہیں نانی محسوس تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہم لوگ آپ کو کلسے کلسے نہیں لگتے؟
امی کو تو اپنے آپ سے ہی محبت نہیں ہے نانی تو کسی اور سے محبت کیا ہو گی؟
نانی! میں اور عطرت بھی آپ سب لوگوں کی طرح خوبصورت ہو جاتے تو بھلا اس کی کاریگری میں کیا کمی آ جانی تھی؟
ہائے اللہ نہ کرے، کیسی باتیں کرتی ہو ثروت؟
تم دونوں ماشاءاللہ بہت پیاری اور پرکشش ہو۔ پھر نانی نے بڑی سنجیدگی سے کہا کہ بیٹا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں نے انسان کو بہترین شکل میں تخلیق کیا ہے۔ اس لیے ہر انسان مکمل اور خوبصورت ہے۔ نانی یہ بات اللہ تعالیٰ نے تو فرما دی پر اس کے بندے ماننے کو تیار نہیں۔ وہ جب تک سامنے والے کے سارے عیوب گنوا کر اس کو اس کی اپنی نظروں میں بونا نہ کر دیں ان کا جی نہیں بھرتا۔
میرا دل کچھ یوں بھی رنجیدہ تھا کہ ان دنوں میری، میرے متوقع سسرال والوں کے سامنے پریڈ شروع ہو چکی تھی اور وہ لوگ بڑے آرام سے میرے ہی منہ پر مجھے مسترد کر کے مدحت کا ہاتھ مانگ لیتے تھے۔ واقعی حسن کے پاس کتنے اضافی نمبر ہوتے ہیں۔ بڑا وزن ہوتا ہے حسن میں۔ جب دو تین بار یہی قصہ ہوا تو ابا نے سختی سے کہ دیا کہ اب ایسے کسی مہمان کے سامنے مدحت نہیں آئے گی۔
مجھے مدحت پر بھی ترس آتا تھا کہ بیچاری بے قصور ہوتے ہوئے بھی خفت میں مبتلا تھی۔ وہ مجھ سے نظریں چراتی تھی حالانکہ مجھے اس سے رتی بھر شکایت نہیں تھی۔ مجھے دوسال ہو گئے تھے انٹر کئے۔ میں اب یکسانیت سے بور ہونا شروع ہو گئی تھی اور اپنی نمائش سے شدید بے زار بھی۔ ایک دن دروازے پر کوئی دن دو بجے بیل ہوئی۔ شہزاد نہا رہا تھا سو مدحت نے دروازہ کھولا۔
ابا کے دفتر سے کوئی صاحب تھے اور ابا کی ضروری فائل مانگ رہے تھے جو آج ابا دفتر لے جانا بھول گئے تھے۔ مدحت نے آ کر مجھ سے پوچھا۔ میں نے کہا ہاں ابا کے بیڈ سائیڈ پر نیلے رنگ کی فائل رکھی ہے وہ ان صاحب کو دے دو۔ ایک گھنٹے پہلے ابا کا فون آیا تھا کہ ابا دفتر سے کسی کو بھیج رہے ہیں فائل کے لیے۔ ہفتے کی شام کو ہمارے گھر اچانک ایک خاتون مٹھائی کے ساتھ آئیں اور میرا رشتہ مانگا۔
حیران کن بات یہ کہ مجھے دیکھنے کے باوجود رشتے پر اصرار کیا۔ ابا اس قدر خوش تھے کہ انہوں نے اسی وقت اقرار کر لیا۔ لڑکی والے جو روایتی طور پر سوچنے اور مشورہ کرنے کے لیے وقت مانگتے ہیں اس کا بھی تکلف نہیں کیا۔ وہ خاتون بھی نیک اور سیدھی سادی سی تھیں۔ انہوں نے شگون کا پیسہ میرے ہاتھ پر رکھ کر میری پیشانی کو بوسہ دیا اور کہا کہ اب یہ میرے بیٹے کی امانت ہے آپ کے گھر۔
ان کے جانے کے بعد ابا نے بتایا کہ ان کا بیٹا ابا کے دفتر میں ہی کام کرتا ہے اور ابا اس کی لیاقت اور اخلاق کے بہت مداح تھے۔ اس دن زندگی میں پہلی بار میں نے ابا کو اتنا خوش اور جوش و جزبے سے باتیں کرتے سنا۔ وہ امی کو بتا رہے تھے کہ کوئی دو سال پہلے ہی اس لڑکے نے جوائن کیا ہے اور اپنی لیاقت کے سبب وقت سے پہلے ترقی بھی لے لی ہے۔ نہایت تمیز دار اور سوجھ بوجھ والا ہے۔
پھر ذرا ہلکی آواز میں امی کو بتایا کہ اس کو تو ہر شخص اپنا داماد بنانے کا خواہش مند تھا اور یہ ان کی بھی آرزو تھی۔ پھر انہوں نے فٹا فٹ فیصل آباد کال کر کے نانی اور ماموں اختر کو اطلاع دی، گو کہ ماموں اختر ابا کی گڈ بک میں نہیں تھے۔ ابا کی خوشی دیکھ کر تو ایسا لگ رہا تھا کہ آج تو وہ سات خون بھی معاف کر دینگے۔ میں حیران تھی کہ میری ماٹھی شکل اور قسمت نے جیک پوٹ کیسے ہٹ کر لیا؟ پھر دل نے تسلی دی کہ بھئی معجزے ابھی بھی ہوتے ہیں۔
اس دن پہلی بار گھر مجھے اپنے خوابوں جیسا گھر لگا۔ خوشی سے چہکتا ہوا، جزبوں کی گرمائش سے لبریز محفوظ گھر۔ شادی کی تاریخ تین ماہ بعد کی تھی، اس بیچ میری ہونے والی ساس صرف ایک بار آئیں میرے کپڑوں اور جوتوں کے ناپ کے لیے اور معذرت بھی کی کہ گٹھیا کے مرض کی وجہ سے باوجود دل چاہنے کے وہ زیادہ نہیں آ سکیں گی۔ اس دفعہ وہ فیض کی تصویر بھی لیتی آئیں تھی کہ بھئ لڑکی بھی تو اپنے ہونے والے دولھا کو دیکھ لے۔
تصویر دیکھ کر تو میں دم بخود تھی، اس قدر خوش کے ساتویں آسمان کی تشبیہ بھی کم ہے۔ اس دن مدحت نے فیض کی تصویر دیکھ کر ہنستے ہوئے کہا کہ "احسان مانو میرا ثروت کہ میری وجہ سے پچھلے سارے رشتے نہ ہوئے ورنہ تم کو یہ گلفام کیسے ملتا؟" جانے کیوں مجھے مدحت کا یہ تبصرہ اچھا نہیں لگا۔ نانی شادی کی وجہ سے ایک ماہ پہلے ہی آ گئ تھیں۔ فیصل آباد سے بھی فون پر نانی کا ہدایت نامہ ابا کے لئے برابر آتا رہا تھا۔
سچ ہے کہ نانی نے خاصی حد تک امی کے سرد روئیے کی تلافی کی ہوئی تھی۔ ان دنوں گھر کا ماحول بہت خوشگوار تھا۔ نانی نے شادی کی تقریب کے لیے مدحت اور عطرت کے لیے بہت ہی خوبصورت غرارہ سوٹ تیار کروایا تھا۔ شادی کے دن میں پالر سے تیار ہوئی اور میں خود کو پہچانے سے قاصر تھی۔ پالر والیاں بھی جادوگرنیاں ہی ہوتی ہیں، انہوں نے نوکرانی کو سینڈریلا بنا دیا تھا۔
میں بہت خوش خوش پالر سے شہزاد اور ہمایوں بھائی (اختر ماموں کے بیٹے) کے ساتھ شادی حال پہنچی مگر میں مدحت کو دیکھ کر سکتے میں رہ گئ۔ وہ اس قدر حسین لگ رہی تھی غرارہ سوٹ میں کہ مجھے زندگی میں پہلی بار وہ زہر لگی۔ آج نہیں! آج تو صرف میرا دن تھا۔ آج مجھ سے زیادہ اچھا لگنے کا حق کسی کو نہیں ہونا چاہیے۔
مجھے اس پل اپنے اللہ سے بھی شکوہ ہوا، ٹھیک ہے مدحت کو وہ بے شک خوبصورت بناتا پر اپنے خزانے سے حسن کی دو چار چھینٹ مجھ پر بھی گرا دیتا تو اس کے خزانے میں کون سی کمی آ جاتی؟ مگر اس لمحے تک میں چاہنے اور ہونے کے فرق کے عذاب سے واقف نہیں تھی۔ میرے سارے وسوسوں اور اندیشوں کے بر خلاف خیریت سے نکاح ہو گیا۔ نکاح کے بعد دولھا کے زنان خانے میں آنے کا غلغلہ اٹھا۔
آرسی مصحف کی رسم میں میں نے دھڑکتے دل سے آئینہ پر نظر ڈالی مگر فیض نے ایک اچٹتی سی نظر مجھ پر ڈالی اور بس۔ جب وہ اسٹیج سے اتر کر جا رہے تھے تو اپنی والدہ کے پاس رکھ کر کچھ کہا اور پھر تیزی سے نکلتے چلے گئے۔ میری چھٹی حس مجھے کچھ گڑ بڑ کا سگنل دے رہی تھی۔ پھر ایک دم سے افراتفری سی مچ گئی۔ پتہ چلا میری ساس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ ابا نے ہبڑ دھبڑ میں کھانا لگوایا اور پھر رخصتی کر دی گئی۔ کچھ عجیب غیر فطری سی صورت حال تھی۔
گاڑی میں میری ساس میرے ساتھ بیٹھی تھیں، فیض آگے بیٹھے تھے اور فہد میرا دیور گاڑی چلا رہا تھا۔ پورے راستے مکمل خاموشی رہی۔ گھر پہنچ کر کوئی رسم نہیں ہوئی، میری ساس نے کسی کو کہا کہ دلہن تھک گئ ہو گی اس کو کمرے میں پہنچا دو۔ وہ خاتون میرے ساتھ بیٹھی اور اپنا تعارف کرایا، وہ پڑوسن تھیں اور ان کا نام صبا تھا۔ انہوں نے پانی کا پوچھا؟
میرا حلق پیاس سے تڑخ رہا تھا بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ بھوک سے میرا برا حال تھا۔ دن میں پالر کے چکر میں اور گھر آ کر مارے ایکسائٹمنٹ (excitement) میں کچھ کھایا نہیں گیا اور رخصتی کی ایسی بھگڈر مچی کہ کسی کو دلہن کے کھانے کا خیال ہی نہیں رہا۔ اب میں صبا سے کیا کہتی؟ مارے لحاظ کے خاموش بیٹھی رہی۔ تقریباً ایک بجے وہ اجازت لیکر چلی گئی۔ مجھے باہر کی فکر تھی کہ آخر ہوا کیا ہے؟