1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Sabrina Aur Surrender Kaur (2)

Sabrina Aur Surrender Kaur (2)

سبرینا اور سریندر کور (2)

میں اپنا بیڈ روم چھوڑ کر ممی جی کے بیڈ کے ساتھ قالین پر گدا بچھا کر لیٹ جاتی اور جانے راتوں میں کتنی بار اٹھ اٹھ کر انہیں دیکھتی، ان کے سینے کے اتار چڑھاؤ پر گہری نظر رکھتی اور ان کی نبض ٹٹولتی۔ میں نے یونیورسٹی چھوڑ دی، دکان کو بھی خیر آباد کہا، اپنے آپ کو مکمل طور پر ممی جی کے لیے وقف کر دیا مگر ڈیڑھ سال میں سب ختم ہو گیا۔ مجھے یقین ہی نہیں آتا تھا مگر یہ ہو چکا تھا۔

ڈاکٹر جب ممی جی کی صحت سے مکمل مایوس ہو گئے تو انہوں نے ممی جی کو ہوسپس لے جانے کا مشورہ دیا تھا مگر ہم لوگ انہیں گھر لے آئے تھے۔ مجھے ان کی آخری رات اپنی پوری جزیات کے ساتھ یاد ہے۔ وہ گھور سیاہ رات، موسلادھار برستی بارش اور رہ رہ کر چمکتی کڑکتی بجلی کے سبب بڑی مہیب تھی جس سے گھبرا کر میں نے سارے پردے گرا دیے تھے۔ چھوٹی ان کی پائنتی بیٹھ کر گرم پانی کی بوتل سے ان کے ٹھنڈے یخ پیر کی سکائی کرتے ہوئے ہلکے ہاتھوں سے ان کا پیر دبا رہی تھی۔

ممی جی نے آج اصرار کر کے بیڈ پر ہی اسپنج باتھ لیا تھا اور بہت بہتر لگ رہیں تھیں۔ آج ان کی آنکھوں میں غیر معمولی چمک تھی جو مجھے اندر ہی اندر خائف کر رہی تھی۔ ممی جی نے مجھے گرو گرنتھ صاحب کا پاٹ کرنے کو کہا اور جب میں نے آدھ پون گھنٹے کے بعد کتاب بند کی تو مجھے اشارے سے اپنے قریب بلایا۔ میرا ہاتھ اپنے نحیف ہاتھوں میں لےکر دیر تک مجھے دیکھتی رہیں اور پھر بڑی ٹھہری اور صاف آواز میں صرف اتنا کہا۔

" بیٹی کبھی بھی مذہب کو اپنی محبت پر مت وارنا کہ مذہب ہی اصل ہے"۔

ہم دونوں بہنوں کی پیشانی کا بوسہ لیا اور ڈیڈی جی کے آگے ہاتھ جوڑ دیے۔ پھر تھک کر تکیہ پہ سر ڈال دیا، ان کی آنکھوں کے گوشوں سے آنسوؤں کے گہر گرتے رہے اور پھر وہ پنجر سینہ ساکن ہو گیا۔ ممی جی اتنی خاموشی سے گئیں کہ یقین سے ان کی آخری سانس کا تعین بھی مشکل ہے۔ شاید اسی گھڑی، ان کا سینہ سانس سے اور میرا سینہ آس اور محبت سے خالی ہو گیا تھا کہ مرتی ہوئی ماں کا مان رکھنے کے لیے میں زندہ سے مردہ ہو گئ تھی۔

یادوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے سب سے پہلے میں نے فون سے سم نکال کر پھینک دی اور فون شلف پر کتابوں کے ڈھیر تلے کہیں دفن ہو گیا۔ قاسم ٹورانٹو سے گھبرا کر کیلگری آ گیا مگر اب میں تھی ہی کب؟ دس دن تک وہ لا حاصل کی تگ و دو میں سر مارتا رہا پھر نا امید ہو کر چلا گیا۔ جانے دنیا کی اس بھیڑ میں کہاں ہے؟ شاد ہے یا نا شاد؟ میں جاننا بھی نہیں چاہتی مگر ایک سوال ہمیشہ میرے ذہن میں صدا بہ گنبد بن کر گونجتا رہتا ہے کہ۔

محبت ہی محبت کو کیوں مارتی ہے؟

آخر محبت ہی محبت کی دشمن کیوں؟

مجھے ممی جی سے کوئی شکایت نہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ میں زندہ نہیں۔ ان تکلیف دہ دنوں میں سبرینا اور میں ایک دوسرے کا سہارا تھے اور اکثر ہم دونوں کچھ دیر ٹم ہارٹن یا کیس پارک کے بنچ پر بیٹھ کر بے سرو پا باتیں کرتے اور بے مقصد اونچے اونچے کھوکھلے قہقہے لگاتے تھے۔ سبرینا کو میں نے اپنے گھر کا پتہ دیا تھا مگر وہ کبھی بھی میرے گھر نہیں آئی بقول اس کے، آباد گھروں کو دیکھ کر وہ شدید ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتی ہے۔

میں اسے کیا بتاتی کہ میرا گھر، گھر نہیں بلکہ احرام ہے جہاں چلتی پھرتی ممیاں بستی ہیں۔ پھر اس کا تبادلہ ساؤتھ ویسٹ کے کسی اسکول میں ہو گیا اور مہینے میں ایک ادھ دفعہ کسی پارک میں ہونے والی ملاقات فاصلوں کے نظر ہوئی۔ میرے وہی روز و شب تھے بلکہ اب تو میں صبح سے شام تک دکان پر ہوتی تھی۔ جسونت مستقلاً ٹورانٹو چلا گیا تھا اور چھوٹی کو وینکوور یونیورسٹی کی میڈیسن فیکلٹی میں داخلہ مل گیا تھا۔

گھر میں بس ڈیڈی جی، میں اور مستقل کی براجتی تنہائی تھی۔ ڈیڈی جی کے اکلاپے کا مداوا دارو ٹھہری اور رہی میں تو میں گھر اور دکان کے بیچ کسی بد روح کی طرح چکراتی پھرتی۔ قاسم ایک آخری بار پھر مجھے منانے آیا، ڈیڈی جی اسے دیکھ کر دکان سے باہر چلے گئے، اس سے پہلے کہ میرا مچلتا، دہائی دیتا دل اس کے پھیلے ہاتھوں پر "پیمان وفا" کا سکہ رکھ دیتا کہ سامنے والی دیوار پر ممی جی کی ہاتھ جوڑے، آنسوؤں سے لبریز شبہہ ابھر آئی۔

اور میں خاموشی سے اٹھ کر لڑکھڑاتے قدموں سے دکان کی پچھلی جانب بنے چھوٹے سے مذبح خانے میں چلی گئی اور بےبسی سے اپنی روح کو کٹتے اور پھڑکتے جان کنی کے عذاب سہتے ہوئے دیکھتی رہی۔ وقت کسی کے بھی سود و زیاں سے بے پروا مست خرامی سے گزرتا رہا۔ ڈیڈی جی کی خرابی صحت کے باعث جسونت کا اصرار تھا کہ گروسری اسٹور بند کر کے ہم دونوں اس کے پاس ٹورانٹو آ جائیں۔ چھوٹی ڈاکٹری پاس کر کے اپنے گھر کی ہو چکی تھی۔

ڈیڈی جی مجھ سے آنکھیں چراتے اور بے جرم کی سزا کاٹتے کاٹتے دل کے مریض بن چکے تھے۔ ایک رات ڈیڈی جی نے مجھے فون دیا کہ میں قاسم کو کال کروں، میں اب انہیں کیا بتاتی کہ پچھلے ہی سال قاسم نے تھک کر ایک شجر سایہ دار تلے پناہ لے لی ہے، مجھے بھی بس یہ خبر اتفاقاً ہی ملی تھی۔ میری مستقل کی خاموشی سے گھبرا کر انہوں نے کلیان سنگھ کی تصویر اور اس کا بائیو ڈیٹا میرے آگے سرکا دیا اور ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو گئے۔

کمرے میں، میں اور میری ازلی تنہائی تھی۔ کرسی پر بیٹھے بیٹھے میرا جسم اکڑ چکا تھا پر گھڑی کا بجتا گجر مجھے دوبارہ اسی رستی بستی دنیا میں وآپس کھینچ لایا۔ میں نے کلیان کی تصویر کو دیکھے بنا پلٹ دیا اور میز پر سے اس کا بائیو ڈیٹا اٹھا کر پڑھنے لگی۔ وہ امرتسر میں رہتا اور اپنی زمین داری سنبھالتا تھا۔ بس فیصلہ ہو گیا۔ میں نے کلیان کے بائیوڈیٹا پر منظور لکھ کر ڈیڈی جی کے دروازے کے نیچے سے سرکا دیا۔

صبح ہم دونوں ہی بہت دیر سے اٹھے، اس فیصلے کے سبب ناشتے پر جہاں ڈیڈی جی کے چہرے پہ چھائی شگفتگی نے ان کی عمر یک لخت پانچ چھ سال کم کر دی تھی، وہیں شکستگی نے میری بڑھا دی تھی۔ پھر سب کچھ بہت جلدی ہو گیا۔ کل ہم سب انڈیا جا رہے ہیں کہ شادی ہمارے آبائی گھر سے ہی ہو گی۔ میری انیس سال کی جلاوطنی ختم ہونے والی ہے۔

میں نہیں جانتی کہ کلیان کے ساتھ کا فیصلہ صحیح ہے یا غلط مگر مجھے ڈیڈی جی کو احساس جرم سے بھی تو مکت کرنا ہے اور اس جگہ جہاں میں نے اپنا وجود اور دل کا قرار کھویا ہے، اس جگہ سے مجھے فرار اور خلاصی بھی تو چاہیے۔ شاید میری مٹی ہی میرا مرہم ہو۔ ہوائی اڈے پہ وہی روایتی گہما گہمی تھی۔ بس میں اور ڈیڈی جی ساتھ تھے کہ باقی دونوں، جسونت اور اس کی فیملی اور چھوٹی کی فیملی شادی سے کوئی پانچ سات دن پہلے امرتسر پہنچے گی۔

میں نے ٹم ہارٹن سے ڈیڈی جی کے لیے ڈبل ڈبل اور کروسانٹ لے کر انہیں دیا اور خود کافی کا بڑا گھونٹ لے کر قدم آدم شیشے کے باہر لائن سے کھڑے دیو ہیکلِ جہازوں کو دیکھنے لگی۔ یکایک کسی نے پیچھے سے مجھے اپنی بانہوں کے گھیرے میں لے لیا اور شینل 5 کی مسحورکن خوشبو نے اطراف کو معطر کر دیا۔ میں نے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے سامنے سجی بنی خوشی سے دمکتی ہوئی آسودہ عورت کو دیکھا۔ وقت کے ہزارویں حصے میں اس کی آنکھوں کے جلتے قمقمے مجھے ماضی کی پہچان دلا گئے اور میں نے خوشی سے اسے بھینچتے ہوئے کہا

سبرینا!

کیسی ہو؟ اور یہ سب۔

کیا جیک پوٹ ہٹ کر لیا؟

اس نے ہنستے ہوئے ہاتھ بڑھا کر اپنے قریب کھڑے ایک ہینڈسم بندے کو کھینچا اور کہا ہاں! یہ رہا میرا جیک پوٹ۔ یہ ابویا اوٹینو Otieno Obuya ہے، میرا میاں۔ ابھی دو مہینے پہلے ہماری شادی ہوئی ہے۔ میں اپنی شادی کا بلاوا دینے تمہاری شوپ پر آئی تھی مگر تمہارے پڑوسی دکاندار نے بتایا کہ تم لوگ دکان بیچ چکے ہو۔ شرسار سی کیفیت مبتلا ہم دونوں قریبی صوفے پر بیٹھ گئے اور سبرینا نے بتایا کہ اس کی زندگی تو ڈزنی لینڈ کی پریوں کی کہانیوں کی مانند کایا کلپ ہو گئی۔

ابویا، ہارٹ اسپیشلسٹ ہے اور کینیا سے کیلگری کانفرنس میں شرکت کے غرض سے پانچ دن کے لیے آیا تھا۔ ہوٹل فیر مونٹ جہاں وہ ٹھہرا ہوا تھا، سبرینا وہیں صفائی کے عملے کی ہیڈ تھی۔ وہاں اتفاقاً ملاقات ہوئی اور ابویا سبرینا کا ایسا اسیر ہوا کہ وہ ہر مہینے کیلگری کا پھیرا لگانے لگا اور یہ طوفانی عشق بالآخر شادی پر منتج ہوا۔ خوشی سبرینا کے روم روم سے پھوٹی پڑ رہی تھی۔ میں نے اس کے گھر والوں کی خیریت پوچھی۔

کہنے لگی منجھلا بھائی تو ویسے ہی نشئی ہے مگر باقی دونوں بھائیوں اور ایک بہن کو اس نے راہ پر لگا دیا ہے۔ تمہیں پتہ ہے سریندر میں اب ہمیشہ کے لیے کینیا وآپس جا رہی ہوں۔ اس نے خوشی سے چہکتے ہوئے بتایا۔ پندرہ سال میں نے اس شہر میں اپنی جان کھپائی اور اس شہر نے مجھے بے پناہ نوازا۔ اس شہر نے مجھے میرے بھائیوں اور بہن کا نہ صرف بہترین مستقل دیا بلکہ مجھے میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی ابویا کی شکل میں دی۔

میں اب مستقل نیروبی میں رہوں گی، تم اپنا ہنی مون منانے نیروبی میرے پاس آنا، مجھے بے انتہا خوشی ہو گی تمہاری میزبانی کر کے۔ سبرینا کے فلائٹ کا اعلان ہو رہا تھا، ہم دونوں نے ایک بار پھر زور دار جھپی ڈالی اور وہ مسکراتی، ہاتھ ہلاتی ابویا کا ہاتھ تھامے نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ میں بھی کلیان کے ساتھ اپنے بہتر مستقبل کی دعا مانگتی ہوئی ڈیڈی جی کے پاس آ کر بیٹھ گئ۔ ہماری فلائٹ کے ڈپارچر کا اعلان کسی بھی لمحے متوقع تھا اور شیشے کے باہر صبح کا اجلا پھیل رہا تھا۔

Check Also

Khoobsurti Ke Kaarobar Ka Badsurat Chehra

By Asifa Ambreen Qazi