1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Hum Rahe Na Hum (2)

Hum Rahe Na Hum (2)

ہم رہے نہ ہم (2)

اتنے میں چچی کی دبی دبی چیخ سنائی دی اور انہوں نے جلیل چچا کو بتایا کہ سیما زندہ ہے۔ بس میں یہ سنتے ہی بے تابی سے درخت سے نیچے اتر آیا۔ مجھے سلامت دیکھ کر جلیل چچا بے اختیار مجھے گلے لگا کر رونے لگے مگر میں نے ان کا ہاتھ جھٹک کر اپنے آپ چھڑوایا اور منی سے لپٹ کر چیخ چیخ کر رونے لگا۔ چچی نے لپک کر میرے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا اور کہا نہ نہ ظفر بچہ، ابھی خطرہ ٹلا نہیں۔

چچی نے اپنی ساتھ لائی چادر سے اماں کو ڈھانپ دیا اور جلیل چچا نے زخمی سیما کو احتیاط سے گود میں لیا اور چچی نے میرا ہاتھ پکڑا اور اندھیری گلی میں ادھر ادھر دیکھ کر کسی کے نہ ہونے کا اطمینان کرتے ہوئے جلدی سے اپنے گھر میں گھس گئیں۔ ہم دونوں بھائی بہن کو انہوں نے گھر کے پچھواڑے بنی اناج کی کوٹھری میں چھپا دیا۔ رات بھر دونوں میاں بیوی باری باری چکر لگاتے رہے۔ تین دن ہم لوگ انہیں کے گھر چھپے رہے۔

میرا ذہن ماؤف تھا اور مجھے چپ لگ گئی تھی۔ سیما بہت بہتر تھی مگر اسے ابھی بھی بخار تھا۔ اس کے دائیں شانے پر کلہاڑی کا گہرا گھاؤ لگا تھا مگر اصل وار اماں نے اپنی جان پر جھیلا تھا۔ سیما اماں کے نیچے دب گئی تھی اور بلوائیوں نے اسے مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا۔ جلیل چچا نے بتایا کہ بڑی آپا نے کنواں میں کود کر اپنی جان دے دی اور

چھوٹی آپا۔

چھوٹی آپا کو بلوائی مال غنیمت جان کر اپنے ساتھ اٹھا لے گئے۔

چوتھے دن صبح صبح پاکستان آرمی آئی اور جلیل چچا نے کسی تدبیر سے ہمیں ان کے حوالے کیا۔ جانے اماں، ابا، اکبر بھیا اور بڑی آپا کی تدفین ہوئی کہ نہیں مگر میرے خوابوں میں وہ سب ہمیشہ بے گور و کفن ہی آتے ہیں۔ اللہ کرے کہ عرصے پہلے چھوٹی آپا مر چکی ہوں مگر یہ بھی سچ کہ ان کا خیال آتے ہی مجھے اپنی زندگی سے شدید نفرت ہو جاتی ہے۔ فوجی ہمیں چاٹگام لے آئے اور سر بہادر عبدالرب نشتر اسکول کے کیمپ میں بھرتی کرا گئے۔

یہیں ابا کے دوست ظہور چچا اور ان کی فیملی بھی پناہ گزین تھی۔ انہوں نے ہم دونوں بھائی بہن کو اپنے سائے عافیت میں لے لیا۔ تین سال وہاں کیمپ میں رہنے کے بعد ہم سب مغربی پاکستان جو اب جانے کس بے ضمیر کی فراست سے "نیا پاکستان" کہلانے لگا تھا، پہنچے۔ اورنگی میں ظہور چچا نے جھگی ڈالی اور زندگی لشٹم پشٹم شروع ہو گئی۔ سیما کے کندھے کا زخم بھر چکا تھا مگر گہرا نشان کندھے ہی پر نہیں بلکہ دل و دماغ پر بھی ثبت تھا۔

مغربی پاکستان پہنچ کر سکون سے بیٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ ضیاء کا دور سیاہ ملک کو نگل گیا اور لگ بھگ ایک دہائی سے زیادہ حکومت کے نشے میں سرشار میں رہتے ہوئے اس نے جی بھر کے مذہب اور شخصی آزادی کو مسخ کیا۔ میرا تو لڑکپن سے بڑھاپا آ گیا مگر پاکستان کبھی مشکلات سے نکلا ہی نہیں، وجہ بڑی سادہ "لیڈران کی بد نیتی اور عوام کی بے شعوری" یہ دو عوامل پاکستان کی جڑوں میں بیٹھ گئے ہیں اور اب شاید نجات ممکن ہی نہیں۔

میں نے مشقت بھری زندگی گزاری، پتھر ڈھونے سے لے کر کلرک اور پھر اکاؤنٹنٹ بننے تک ان تھک محنت شاقہ کا سفر ہے۔ بڑے ابا اور سیما پھوپھی کی شادی ظہور چچا کے بیٹا، بیٹی سے ہوئی اور میری ساس میرے شوہر انعام کی پیدائش پر زچگی کے دوران کسی پیچیدگی کے سبب جاں بر نہ ہو سکیں اور انعام کو بڑے ابا اور امی نے پالا۔ اب تو میں خود بڑھاپے کی دہلیز پر ہوں اور اب نہ تو امی رہیں اور نہ ہی انعام۔

انعام میری زندگی میں بہار کے جھونکے کی مانند آئے اور جب میرا اکلوتا بیٹا بلال بمشکل آٹھ سال کا تھا تو انعام جگر کے کینسر میں مبتلا ہو کر میری زندگی سے نکل گئے۔ ان کی بیماری کا پتہ ہی تب چلا جب وہ اسٹیج فور پر تھی۔ حیرت انگیز بات یہ کہ انعام نے زندگی میں کبھی بھی پان، سگریٹ یا چھالیہ کو منہ پر نہیں رکھا تھا مگر ہونی کو بھلا کون ٹال سکا ہے؟ بڑے ابا، امی اور میں، ہم تینوں مل کر بلال کو پالتے رہے۔ اب ناظم آباد کے گیارہ نمبر والے اس گھر میں تین نسل اکٹھی رہتی ہے، بڑے ابا میرے سسر یعنی ظفر ماموں، میں اور میرا اکلوتا بیٹا بلال۔

شکر ہے ظہر سے پہلے پہلے بلال، بڑے ابا کے ہمراہ گھر میں داخل ہوا۔ بڑے ابا کو دیکھتے ہی میں سمجھ گئی کہ آج پھر بڑے ابا اپنے آپ میں نہیں۔ وہ بہت تھکے ہوئے تھے سو جلدی ہی بے چین نیند سو گئے۔ میں نے بہت ہی کم بڑے ابا کو سکون کی نیند سوتے دیکھا ہے۔ ان کے کمرے کا دروازہ بھیڑ کر میں بلال کے پاس چلی آئی۔ بلال پہلے ہی بخار میں مبتلا تھا اب اس بھگدڑ نے اسے اور بھی نڈھال کر دیا۔

میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس نے محلے میں لوگوں سے بڑے ابا کے متعلق پوچھ گچھ کی تو مختار کریانے والے نے بتایا کہ اس نے بڑے ابا کو فائل سمیت مین روڈ کی طرف جاتے دیکھا تھا۔ بس یہ سن کر میرا کام آسان ہو گیا۔ میں سمجھ گیا کہ آج پھر بڑے ابا بھلیا کی دھند میں بھٹکتے پھریں گے۔ میں علاقے کے سارے اسکولوں کی خاک چھانتا رہا۔ گرلز اسکول کے چوکیدار نے تصدیق کی کہ اس وضع قطع کے بزرگ پرنسپل کے دفتر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔

میں پرنسپل کے دفتر میں دستک دے کر داخل ہو گیا۔ وہاں بڑے ابا اور پرنسپل صاحب بڑے خوشگوار ماحول میں چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے گفتگو میں مشغول تھے۔ جہاں بڑے ابا مجھے دیکھ کر الجھ سے گئے وہیں پرنسپل کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔

میں نے کہا بڑے ابا گھر چلیں۔

آپ کون ہیں برخودار؟

پرنسپل نے قدرے رکھائی سے پوچھا۔

میں بلال احمد، ان کا پوتا ہوں۔

میں نے سنجیدگی سے ان کے آگے اپنی اور بڑے ابا کی آئی ڈی کی فوٹو کاپی رکھتے ہوئے کہا۔

مبارک ہو بلال میاں میں نے آپ کے دادا کو اپنے ٹیوشن سینٹر میں استاد اپائنٹ کر لیا ہے۔

پرنسپل نے ہنستے ہوئے بڑے ابا کے ہاتھوں میں پکڑے خاکی لفافے کی طرف اشارہ کیا۔

سر معذرت! بڑے ابا یہ کام نہیں کر سکیں گے۔

میں سنجیدگی سے پرنسپل صاحب کو جواب دیا۔

کیوں میاں! ظفر صاحب تو اس پوسٹ کے لیے صائب ترین آسامی ہیں۔

پرنسپل صاحب نے نہایت حیرت سے پوچھا۔

بڑے ابا ہم دونوں کی گفتگو کو نہایت ہی لا تعلقی سے سن رہے تھے۔

میں بڑے ابا کی طرف مڑا اور ان سے پوچھا

آپ مجھے پہچانتے ہیں؟

بڑے ابا نے تذبذب سے جواب دیا کہ "آپ مانوس سے لگتے ہیں مگر یقین سے یاد نہیں آ رہا۔ "

آپ کی ابھی رہائش کہاں ہے ظفر صاحب؟

میں نے بڑے ابا سے پوچھا۔

"ریلوے کالونی پاربتی پور کواٹر نمبر 49"

بڑے ابا نے بڑی شفتگی سے جواب دیا۔

پرنسپل صاحب کے چہرے سے حیرت و دکھ ہویدا تھا۔

آئیں ظفر صاحب میں بھی ادھر، ریلوے کالونی ہی جا رہا ہوں، اکٹھے ہی چلتے ہیں۔

بڑے ابا نے گرم جوشی سے پرنسپل سے مصافحہ کیا اور خوشی خوشی میرے ساتھ ان کی آفس سے باہر نکل آئے۔

بڑے ابا اب اکثر و بیشتر حال سے کٹ کر ماضی میں جیتے ہیں، وہ دو ہزار بائیس کے کراچی میں نہیں بلکہ اپنی جنم و بھومی پاربتی پور ہی میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔

Check Also

Abba Jan Ki Hisab Wali Diary

By Mohsin Khalid Mohsin