Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Dil Rubaiyan o Kaj Adaiyan Dil Ki (3)

Dil Rubaiyan o Kaj Adaiyan Dil Ki (3)

دل ربائیاں و کج ادائیاں دل کی (3)

محلے کے جس اسکول میں، میں پڑھاتی تھی، وہ اسکول عبدالمنان کا تھا۔ عبدالمنان نے وہیں مجھے دیکھا اور میرے حسنِ جہاں سوز نے انہیں اپنے قدموں پہ کھڑا رہنے جوگے نہ رکھا۔ یہ شادی بڑی مشکلوں سے ہوئی کہ عبدالمنان میمن تھے اور تم جانو میمنوں میں خاندانی نظام بہت مربوط ہوتا ہے۔ جوان لڑکوں کے زور پر مسز عبدالمنان نے آسمان سر پر اٹھا لیا مگر وہی بات کہ جب مرد اپنی کرنی پر آ جائے تو سارے جواز و دلائل ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہیں۔ خواہش تو میری عبدالمنان سے شادی کی قطعاً نہیں تھی کہ پھر سے ایک ڈھلتی عمر کا شوہر مگر کمبخت مجبوری بڑا زلیل کراتی ہے اور ضرورت مند چناؤ کا اختیار بھی نہیں رکھتا۔

سو دل کی مرضی کے خلاف دماغ کی مانتے ہوئے پناہ اور تحفظ کی خاطر میں نے یہ قدم اٹھا لیا۔ من٘ان اپنے قول کے دھنی نکلے سو انہوں نے مجھے بہت چاہ اور مان سے رکھا۔ مجھے ان سے محبت تو نہ ہوئی مگر ان سے انسیت ضرور رہی اور احترام سوا۔ ان کے ساتھ گزرے آٹھ سال ہر طرح کی فکروں سے آزاد تھے۔ انہی کے ساتھ میں امریکہ آئی۔ پھر ان کی موت نے میری دنیا اندھیری کر دی اور مشقت میرا پیشہ بنی۔ امریکہ میں سو برائیاں ہوں گی مگر بہرحال یہاں محنت کی قدر ضرور ہے۔ منٌان کی موت کے بعد وال مارٹ میں پارٹ ٹائمر کی نوکری کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیمی استعداد بڑھاتی رہی اور بالآخر وال مارٹ ہی میں برانچ مینیجر بن گئی۔ عبدالمنٌان نے کافی کچھ چھوڑا تھا مگر اسے میں نے اپنے دونوں بیٹوں کے لیے ہی محفوظ رکھا اور ان کی پڑھائی لکھائی پر کبھی کمپرومائز نہیں کیا۔ اس نوکری نے جہاں مجھے اعتماد دیا وہیں معاشی خودمختاری و خوشحالی بھی۔

اسی وال مارٹ میں میری ملاقات بھاسکرن سے ہوئی۔ بھاسکرن سری لنکا سے ہیں اور جو سچ پوچھو تو خاصے کم رو بھی۔ کیا کیا جائے کہ دل کے کھیل ہی نیارے، مجھے پہلی ہی نظر میں بھاسکرن اچھا لگا۔ جانے یہ اس کی ملیح رنگت کی کشش تھی یا اس کا سراپا نیاز ہونا۔ اس کا ادب آداب باعث توجہ تھا یا اس کی انسانیت پسندی۔ وجہ کچھ بھی رہی ہو مگر بھاسکرن میری چونتیس سالہ زندگی کا پہلا مرد تھا جس کی جانب میں دل کی پوری رغبت سے راغب ہوئی تھی۔ بھاسکرن وال مارٹ میں مینیجر کی آسامی پر تعینات ہوا تھا۔ گو اس وقت وہ مسلمان نہ تھا مگر اس کا میری جانب التفات کسی سے پوشیدہ نہ تھا۔ جانے یہ لگن کب اگن بنی پتہ ہی نہیں چلا۔ بھاسکرن کی مذہب اسلام میں دلچسپی غیر معمولی تھی۔ ایک دن اس نے مجھے اپنے مسلمان ہونے کی خوشخبری سنائی اور اپنا اسلامی نام تجویز کرنے کہا۔ میں چھتیس کی ہوچکی تھی اور میرا شادی کا بالکل بھی ارادہ نہ تھا۔ ہماری عمروں میں بھی چھ سات سال کا فرق ہے اور اس فرق کے چلتے میں اس شادی پر بالکل بھی راضی نہیں تھی مگر بھاسکرن نے مجھے منا کر ہی دم لیا۔ اب ذرا قسمت دیکھو کہ میرا تیسرا شوہر مجھ سے سات سال چھوٹا اور کنوارہ بھی۔

میں بلاشبہ قسمت کی دھنی کہ مجھے بےحساب چاہا تو گیا ہی مگر مجھے خوشی ہے کہ میں بھی محبت کی حلاوت سے آشنا ہوئی۔ جہاں معشوق بننے کا اپنا مزہ اور غرور ہے وہیں عاشق ہونا بھی جزبات کی معراج۔ یقین کرو عطرت مجھے کوئی پچھتاوا نہیں۔ میں نے زندگی اپنی شرائط پر گزاری اور میں اپنے تمام فیصلوں کی ذمہ داری خود قبول کرتی ہوں۔ ہاں ایک خلش کہو یا پشیمانی ضرور ہے۔ اب اس عمر میں آ کر جب میں اپنے ماں باپ کا رویہ سوچتی ہوں تو وہ مجھے خود غرض کم اور مجبور زیادہ محسوس ہوتے ہیں۔ کاش میں ان سے معافی مانگ سکتی۔ بس یہی ایک کسک ہے ورنہ زندگی سے مجھے کوئی شکایت نہیں۔ میں اگر خوب خوب آزمائی گئی تو اس ذات بے نیاز نے مجھے نوازا بھی بےحساب۔ بس ایسی ہی کھٹی میٹھی ہے زندگی اور میرا یقین کرو عشق توفیق ہے گناہ نہیں۔

لو تین تہائی رات بیت گئی میری بیتی میں۔ کچھ تم بھی تو اپنی بپتا سناؤ عطرت!

حوریہ نے لگاوٹ سے پوچھا۔

میری کہانی!

میری کہانی میں ایسا کچھ خاص نہیں، وہی پچھتر فیصدی پاکستانی عورتوں والی گھسی پٹی کہانی۔ تعلیم سے فارغ ہوئی تو ماں باپ نے اپنے بھانویں ڈھنگ کا لڑکا ڈھونڈ کر بیاہ دیا۔ میرا سسرال نیک نام تھا۔ لڑکا تعلیم یافتہ، خوش شکل اور برسرِ روزگار۔ اچھا کھاتا کماتا اور چھوٹا خاندان یعنی پرفیکٹ میچ۔ اب مصیبت بس اتنی ہے کہ ساری جانچ پڑتال ظاہری ہی ہوتی ہے۔ من کا کھوٹ تو بھوگنے پر ہی کھلتا ہے۔ جانے حبیب کو کس بات کی insecurity تھی کہ انہیں مجھ پر بھروسہ ہی نہیں تھا۔ قدم قدم پر روک ٹوک۔ یہاں کیوں کھڑی ہو؟

کس کے خیالوں میں گم ہو جو دوسری بار آواز دینے کی نوبت آئی۔

اکیلے ہی اکیلے مسکرا کیوں رہی تھیں؟

باتھ روم میں اتنا وقت کیوں لگا؟

اچھا پہن لوں تو پیشانی شکن آلودہ، بدحال رہوں تو سوال کہ کس کے فراق میں سنگھار تیاگ دیا؟

سنا ہے کہ فلا کزن تمھارے گھر بہت آتا تھا؟

یہ اور ایسے ہی ہزارہا بے تکے سوالات۔

پاکستان میں کبھی میکے نہ اکیلے جانے دیا اور نہ ہی کبھی رات برات رکنے دیا۔ حتیٰ کے ابا کے انتقال پر بھی تین دن وہاں میرے ساتھ ہی رہے اور خاندان بھر کی واہ واہ بھی سمیٹی کہ کیسا لائق داماد ہے جبکہ سچ تو یہ کہ اکیلے میں مجھے امی کے گلے لگ کر رونے کا موقع تک نہیں دیا۔

امریکہ آ کر مجھے اطمینان تھا کہ یہاں تو کسی سے شناسائی ہی نہیں، اس لیے میری جان امن میں رہے گی، مگر کہاں!

گروسری میں دیر کیوں ہوئی؟

پڑوسن کو ہاتھ کیوں ہلایا؟

بیک یارڈ کی صفائی میں اتنی دیر تو نہیں لگتی؟

میں تو کبھی کبھار ہی میکے خط لکھتی کہ ہر جوابی خط مجھے چاک شدہ ہی ملتا۔ فون بھی بس اتوار کے اتوار ان کے سامنے بیٹھ کر کرنے کی اجازت تھی۔ فون کی بل وہ بہت باریک بینی سے چیک کرتے تھے۔ سچ پوچھو تومیں تنہائی کو ترس گئی تھی۔ اکیلے بھی ہوتی تو لگتا دو آنکھیں مجھے گھور رہی ہیں۔ ان کا احسان ہی تھا کہ مجھ میں ٹریکر نہیں لگوا دیا۔ نہ ان کا کوئی دوست اور نہ بچیوں کو کسی سے دوستی کرنے کی اجازت۔ نہ کہیں آنا نہ جانا، بس ایک حبس بے جا کے قیدی ہم تین نفوس۔ کنجوسی کی انتہا ایسی کہ ایک ایک سینٹ کا حساب دس دس بار دینا پڑتا۔

کئی بار دل کیا کہ گھر سے بھاگ جاؤں مگر بچیوں کا خیال پیر جکڑ لیتا۔ دن میں سو بار خیال آتا کہ 911 کال کر دوں پھر سوچتی کہوں گی کیا؟ کوئی جسمانی تشدد ہو تو ثبوت بھی دیکھاؤں۔ اس جزباتی ٹاچر کا ثبوت کہاں سے لاتی۔ اس گھٹے ماحول میں بچیاں کملانے لگی تھیں اور ان کی پڑھائی بھی متاثر ہونے لگی تھی۔ پھر خدا کو مجھ پر رحم آ گیا جب نمرہ دسویں اور حنا آٹھویں جماعت میں تھی تو ایک شام سیڑھیوں پر ان کا پیر رپٹا اور ایسے گرے کہ گردن کا مہرہ ٹوٹ گیا اور موقع پر ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کی سانس کی ڈور ٹوٹی تو ہم تینوں کی سانسیں آسان ہوئیں۔ بس پھر میں نے فل ٹائم نوکری کی، دونوں لڑکیوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ پارٹ ٹائم جابز بھی کیں اور اپنے بل بوتے پر بہترین اور اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ لڑکیوں کے زندگیوں کے فیصلے بھی کلی طور پر ان کی مرضی ہی سے ہوئے اور اب وہ دونوں اپنے اپنے گھروں میں خوش باش ہیں۔

بس یہی ہے میری کہانی۔ میں نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔

تم نے دوبارہ شادی کیوں نہ کی؟

حوریہ نے دلگیری سے پوچھا۔

شادی!

اللہ توبہ! دودھ کا جلا چھاج بھی پھونک کر پیتا ہے۔ نہ بھئی چوہیا لنڈوری ہی بھلی۔

میں اپنی تنہائی بہت انجوائے کرتی ہوں اور یہ مجھے بہت عزیز ہے۔

میں نے ہنستے ہوئے ہاتھ جوڑے۔

**

اب میں حوریہ کو کیا بتاتی کہ چولھے تو آئے دن پھٹتے ہی ہیں اور لاتعداد عورتیں اپنے سسرال اور شوہروں کی لالچ اور خواہشوں پر واری بھی جاتیں ہیں۔

بس کبھی کبھی سیڑھی کی ریلنگ کا ڈھیلا کردہ اسکرو بھی ہم مجبور بیویوں کا بھلا کر جاتا ہے۔

Check Also

Taunsa Barrage

By Zafar Iqbal Wattoo