Dard e Fazun
درد فزوں
ہائے میرے بال
ہائے میرے بال
ارے روکو روکو، کوئی طلحہ سے ہانیہ کے بال چھڑاؤ۔ دادی، طلحہ اور ہانیہ تک پہچنے کی تگ و دَو کے ساتھ ساتھ زور زور سے سب کو آوازیں بھی دیے رہی تھیں۔ بڑی مشکلوں سے طلحہ کی مٹھی سے ہانیہ کے بال چھڑائے گئے۔ پورے گھر میں مستقل طلحہ کے نام کی پکار رہتی تھی۔ پرسو رحمہ شکایت کر رہی تھی کہ اس کے ہوم ورک پر طلحہ نے کلر پنسل پھیر دی تھی، جس پر ٹیچر نے رحمہ کی سرزش کی۔ یہ شکائتیں روز کا معمول تھیں۔
طلحہ کو ناشتا کرانا بھی گویا ایک کار زار تھا کہ وہ کچھ بھی کھانے سے انکاری۔ ڈائپر بدلنا مانو طبل جنگ بجانا۔ جب تک تینوں بہنیں اسکول میں ہوتی، وہ اپنے میں مگن کھیلتا رہتا ہے، مگر جیسے ہی بہنیں اسکول سے گھر لوٹتی، اسے سو فیصد دادی کی توجہ چاہیے ہوتی، اتنی زیادہ کہ دادی بچیوں کا یونی فارم بدلوانے یا ان سے ان کے اسکول میں گزرے دن کا احوال لینے سے بھی قاصر رہتیں۔
وہ انتہائی ضدی اور غصیل ہو چلا تھا اور اس کے کھلونے اس کی ٹھوکروں کے زد میں ہوتے۔ ہر چیز توڑنا دل پسند مشغلہ اور جس بچے کے ہاتھ میں جو بھی چیز ہوتی، اسے وہی چاہیے ہوتی۔ گھر بھر کی جان ضق میں تھی۔ یہ وہ باتیں ہیں، جو میں اب سنتے سنتے چھ سال کا ہو چکا ہوں۔ یہ باتیں یقیناً میری یادداشت میں نہیں تھیں، مگر گھر میں ہر ایک کے منہ سے تواتر کے ساتھ دہرائے جانے پر، مجھے ایسی ازبر ہوئی کہ اب یادداشت ہی کا حصہ لگتی ہیں۔
دبلا پتلا نازک خوب صورت نقوش والا بچہ، جو پہلے ہنستا بہت تھا پر اب روتا بہت، کندھوں تک آتے لمبے گھنگھریالے آخروٹی بال۔ جس کی بادم جیسی آنکھوں پر لمبی گھینری پلکیں سایہ فگن رہتیں اور آنکھوں میں ٹھہرا ٹھٹھرا دکھ چونکا دیتا۔ اکثر لوگ اس کے نازک نقوش اور پونی کی وجہ سے اسے لڑکی سمجھتے تھے۔ وہ رات میں بھی بے چین نیند سوتا، بلکہ سوتا کم اور جگتا زیادہ۔
مجھے یاد ہے کہ میں بس تایا کہ بیسمنٹ ہی میں خود کو قدرے محفوظ محسوس کرتا تھا۔ میں چھت سے لٹکتے گول جھولے ہی میں وقتی طور پر سکون پاتا، وہ جھولا، جس ہم میں سب اکٹھے گھس کر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ عرصے تک میں اس جھولے میں اکیلا بیٹھ کر سب کو نام بنام پکارا کرتا تھا، مگر میری پکار کہیں خلا ہی میں گونجتی رہ جاتی کہ کبھی اس پکار کا جواب آیا ہی نہیں۔
میری یادداشت پر صرف ایک اذیت ناک رات حاوی ہے، جس کی خوفناکی نہ مجھے سونے دیتی ہے اور نہ کچھ سوچنے جوگے چھوڑتی ہے۔ میں یاداشت کے اس فریم میں، اسی لمحے کا قیدی ہوں۔ میں دنوں بولایا بولایا پھرا کرتا تھا۔ گھر میں آنے والے لوگوں کا ہجوم تھا مگر میں ان میں سے بہت کم لوگوں کو پہنچانتا تھا۔ جانے میری وہ مانوس اور عزیز شکلیں کہاں گم ہو گئی تھیں؟
انہیں آوازیں دے دے کر میرا گلا بیٹھ چکا تھا اور رو رو کر میرے آنسو بھی خشک ہو گئے تھے۔
مما، مما تم کہاں ہو؟
Where are you mamma
عثمان بھیا اور حفصہ آپا کہاں چھپ گئے ہیں؟
زید جو میرا سب سے زیادہ خیال رکھتا تھا اور میں جس کا دلارا بھائی تھا۔ وہ کہاں ہے؟
تایا ابو، تائی جان، زہرا آپی، یہ سب لوگ کہاں کھو گئے؟
وہ تمام لوگ جو میری پہلی پکار پر مجھے لپک کر تھام لیتے تھے، وہ سارے کے سارے محبت بھرے بازو کس دیس گئے؟ وہ سب اتنے کٹھور کیسے ہو گئے کہ ان پر نہ میرا رونا اثر کرتا ہے اور نہ ہی بھوکے رہنا۔ مما تو مجھے محبت سے گود میں بیٹھا کر نوالہ بنا بنا کر کھلایا کرتی تھیں کہ انہی دنوں میں نے نیا نیا ہاتھوں میں روٹی پکڑنا سیکھا تھا۔ زید میرا پیارا بھائی، جو میری دلجوئی میں سب سے آگے آگے رہتا تھا وہ کہاں ہے؟
میرے وہ سب عزیز اور قیمتی لوگ کن وادیوں میں گم ہو گے ہیں؟
وہ سب کہاں ہیں کہ ان پر میرے تمام اشک و نالے بے اثر کیوں؟
نہ کوئی سوال، نہ جواب، بس ایک جامد گمبھیر چپ۔
میں کبھی نہیں بھول سکتا کہ اس رات مہمانوں سے گھر بھرا ہوا تھا، تایا جان اور ان کی فیملی اور چچا اور ان کی فیملی سب ہی تو موجود تھے۔ گھر میں خوشیاں اور قہقہے تھے اور باربی کیو کی اشتہا انگیز مہک نے سب کو باغ کے پچھلے حصے میں ڈیک پر جمع ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ بابا باربی کیو میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ ہاں، اس دن کینیڈا کا یوم آزادی بھی تو تھا اور محلے میں رات گئے تک آتشبازی جاری رہی تھی۔
ہم سب نے عقبی لان سے آتشبازی کو انجوائے کیا تھا اور ہم سب بے حد خوش تھے۔ زندگی کس قدر پر مسرت اور خوشگوار تھی۔ میں مما کی گرم و محفوظ گود ہی میں جانے کب سو گیا تھا۔ پھر، پھر، ہر طرف آگ ہی آگ تھی اور میں باہر سائیڈ واک پر بابا کی گود میں تھا، تینوں آپا بھی روتی ہوئی ساتھ ہی کھڑی تھیں۔ باہر لوگ تھے، بہت سارے لوگ، تیز روشنیوں والی چیختی فائر بریگیڈز تیزی سے سائرن بچاتی بھاگی چلی آ رہی تھیں۔
ہم میں سے کچھ افراد گھر کے باہر ڈرائیو وے پر موجود تھے۔ مگر گھر کے اندر بھی تو بہت سارے قیمتی لوگ تھے، وہ کہاں ہیں؟ وہ لوگ جو میری زندگی، میری خوشی اور میری رونق تھے۔ شکر کہ کچھ ابھی بھی میرے ساتھ ہیں، مگر میرے بہت سارے پیارے ہمیشہ کے لیے کھو گئے ہیں۔ ایسے لوگ جن کے بغیر مجھے جینا نہیں آتا۔ بس پھر مجھے صرف اور صرف غصہ آتا تھا۔
کس پر؟ یہ میں نہیں جانتا، مگر میں اپنی بے بسی و بے کسی کے سبب شدید شاکی تھا۔ اب مزید اذیت یہ ہے کہ میرے پیاروں کی یادیں بھی دھندلانے لگیں ہیں۔ کہتے ہیں کہ مقتول کی ساکت آنکھوں میں اس کے قاتل کی تصویر ہوتی ہے۔ میرے آنکھوں میں بھی اس قاتل لمحے کی تصویر ثبت ہے۔ اس بھڑکتی آگ کی شبیہ جس نے مجھ سے میرے رشتے چھینے، میری خوشیاں اور میرے پیارے ہمیشہ کے لیے چھین لیے۔