Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Bedad e Ishq (2)

Bedad e Ishq (2)

بیدادِ عشق (2)

میری شادی کا تجربہ خوشگوار رہا مگر شاہ کی محبت پہ اعتبار کے تذبذب نے میرے کئ خوب صورت سال نگل لیے۔ پر میں کیا کرتی؟ میں کیکڑے کی طرح ایک قدم آگے بڑھاتی تو الٹے پیروں دو قدم پیچھے ہٹتی۔ میں نے ہمیشہ شاہ کی محبت کو شک کی عینک سے دیکھا، ان کی ہر ترقی نے مجھے سہما دیا۔ ہر خوشی کا نقارہ مجھے آتے بگڑے وقت کی دھمک لگتا تھا یوں میں نے اپنے مکان کو گھر بنانے میں دس سال لگا دئیے۔

اس دوران میں تین تتری جیسی خوب صورت بیٹیوں کی ماں بن چکی تھی۔ زندگی میں بہت کچھ بدل گیا تھا۔ مام نیویارک میں ارحم کے پاس تھیں کہ اسے UNO میں بہت اچھی نوکری مل گئی تھی اور ارحم نے وہیں ایک پاکستانی فیملی میں شادی کر کے اپنا گھر بسایا اور بہت خوش تھا۔ ان دنوں میری منجھلی بیٹی کی طبیعت مستقل خراب جا رہی تھی۔ کھانسی، بہتی ناک اور سانس لینے میں دشواری۔ سب ڈاکٹروں کے پاس اس کا ایک ہی علاج تھا اور وہ تھا۔

۔ Inhaler and antihistamine

مگر یہ صرف وقتی آرام تھے شفا نہیں۔ ہم دونوں منجھلی کی صحت کے متعلق بہت فکر مند تھے۔ سال سے اوپر ہو چلا تھا اور بچی کو کوئی آرام نہ تھا۔ ہر مہینے رات برات ایمرجنسی کا ایک دو چکر لازمی تھا۔ میں مام کی کیٹرینگ کے جنون سے اس قدر دل برداشتہ تھی کہ مجھے کوکنگ سے ایک نفرت سی ہو گئی تھی اور میرے گھر کا کچن ہمیشہ باورچی کے حوالے رہا مگر منجھلی کی نا سازی طبع کے باعث اب میرا کافی وقت کچن میں گزرنے لگا تھا۔

میری چوتھی بیٹی کی آمد آمد تھی جب شاہ نے پرائیویٹ نوکری چھوڑ کر بزنس میں قدم رکھا۔ میرے منع کرنے کے باوجود ساری جمع پونجی لگا کر اور بینک سے مزید لون لیکر جمشید روڈ پر گاڑی کا شو روم کھولا۔ دو سال بزنس اچھا چلا، شاہ کے پیر اس میدان میں جمنے اور ساکھ بننے ہی لگی تھی کہ تقدیر نے راہیں بدل لیں اور سیاسی جماعتوں میں بھتے کا رواج روا ہو گیا۔ بھتہ سے انکاری ہونے پر بزنس تاراج یا پھر بندہ بند بوری میں لاش۔ بس یہی دو آپشن رہ جاتے تھے بزنس مین کے پاس۔

ان دنوں کراچی حقیقی معنوں میں اغوا برائے تاوان تھا۔ چوری، ڈکیتی عروج پر تھی اور Barriers میں جکڑا شہر اسیر اور لاچار و بے بس عوام حبس بے جا میں گرفتار۔ جب ایک ہی مہینے میں تیسری بار شاہ سے بھتہ کا مطالبہ ہوا تو شاہ بپھر گئے کہ روٹی کے لالے پڑے ہوئے تھے ایسے میں بھتہ کہاں سے جڑتا؟ ان کے انکار پر شو روم نظر آتش ہوا اور بینک نے قرضے کے عوض گھر کی قرقی کر لی۔ ہم لوگ راتوں رات فٹ پاتھ پہ آ چکے تھے۔

حالات کی سختیوں نے ہم دونوں کو چڑچڑا اور تند خو کر دیا تھا۔ بچیوں کے لیے اس نئے طرز زندگی سے ہم آہنگ ہونا بہت مشکل ہو رہا تھا اور مرے پہ سو درے کہ منجھلی بیٹی کی طبیعت مزید خراب ہو گئی اور ہمارے حالات اتنے ناگفتہ بہ تھے کہ میڈیکل بلز قوت استطاعت سے باہر۔ میرے تقریباً تمام زیورات بک چکے تھے پر حالات مخدوش اور اندھیرا اتنا دبیز کہ دور دور تک روشنی کی کرن مفقود۔

اللہ بھلا کرے شاہ کے بچپن کے دوست حزیفہ کا جس نے اپنی اینکسی میں ہم لوگوں کو سر چھپانے کے لئے جگہ دے دی تھی۔ میں منجھلی بیٹی کی خرابی صحت کے باعث بہت جاں فشانی سے کھانا بناتی تھی اور حیران کن بات کے ہوبہو مام کے انداز میں پکاتی تھی۔ عجیب بات ہے نا کہ مام کے اس فن کو جو ہم لوگوں کا کفیل تھا، جس کے بل پر گھر کی دال روٹی چلتی تھی، اسی فن سے مجھے شدید چڑ تھی کہ اس بزنس نے مام کو اپنے میں اس قدر الجھا لیا تھا کہ ان کے پاس ہم دونوں بچوں کے لیے وقت ہی نہیں ہوتا تھا۔

مجھے یاد ہے میری میٹرک کی فیرول پارٹی تھی اور میں اپنے ہاتھوں میں تین چار جوڑے لیکر ان کے بیڈ روم میں گئی تھی جہاں وہ کسی مقابلے میں شرکت کی تیاریوں میں مصروف تھیں۔ میرے پارٹی پر پہنے جانے والے جوڑے کے استفسار پر انہوں نے کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا جس پر میں نے نہایت بد تمیزی سے چیختے ہوئے کہا تھا کہ

"آپ ہمیشہ ایسے ہی کرتی ہیں۔ ہم لوگ کہاں؟

آپ کو تو اپنا بزنس اور شہرت پیاری ہے "

اور پھر پیر پٹختی اپنے کمرے میں بند ہو گئی تھی۔

پر اب اس دور ابتلا میں مبتلا ہو کر مجھے مام کی کٹھنایوں کا اندازہ ہو رہا ہے۔ عورت جب گھر کا مرد بنتی ہے تو اسے چومکھی لڑنی پڑتی ہے اور مام تو پہلے ہی بدن بریدہ اور دل دریدہ تھیں مگر پھر بھی حالات کے آگے سپر نہیں ڈالی تھی۔ میں پکانے میں نت نئے تجربات کرتی گئی اور ان سب کا منجھلی کی صحت پر خوش گوار اثر ہوا بلکہ منجھلی کے ڈاکٹر جس سے اب ہمارے دوستانہ مراسم استوار ہو چکے تھے، انہوں نے بھی میری ریسیپیز اپنے مختلف مریضوں کو دی اور سبھوں کو ان کے استعمال سے افاقہ محسوس ہوا۔

شاہ پر بڑا بوجھ تھا اور وہ ڈپریشن کی کھائی میں گرنے والے ہی تھے کہ اپنی قوت ارادی کے بل بوتے پر انہوں نے اپنے آپ کو سنبھال لیا۔ ایک شب آدھی رات کے قریب میری آنکھیں کھلی تو دیکھا شاہ بے قراری سے کمرے میں ٹہل رہے ہیں۔ مجھے اٹھا دیکھ کر لپک کر میرے پاس آئے اور میری پیٹھ سہلاتے ہوئے کہا کہ "سلویٰ ہم لوگ تباہ ہو چکے ہیں مگر ابھی بھی ہمارے پاس بہت کچھ ہے کہ تم میرے پاس ہو، میں تمہارے ساتھ ہوں اور ہم دونوں کے بچے ہماری متاع ہمارے پاس ہے۔

ہم اکٹھے رہے تو اس مالی بحران کو جھیل لیں گے لیکن اگر خاندان بکھر گیا تو ہم سب برباد و تہی دست ہو جائیں گے۔ ہمیں ایک دوسرے کا سہارا اور ڈھال بننا ہو گا سلویٰ۔ میرا ساتھ دو گی نا؟"شاہ کے لہجے میں مان اور آنکھوں میں یقین تھا۔ شاہ نے میری بہت ہمت بڑھائی اور حزیفہ بھائی کی اجازت سے میں نے اینکسی کے کچن سے اپنا "اسپیشل نیڈ کچن" شروع کیا اور گیراج کو مختصر سی دکان بنالی۔

شاہ نے دکان کے پوسٹرز بنائے اور جگہ جگہ بانٹے بلکہ کئی دیواروں پر خود لئ سے چسپاں بھی کئے۔ شاہ سہی معنوں میں رفیق حیات ثابت ہوئے۔ میں کچن سنبھالتی اور وہ بچیوں کی دیکھ رکھ کرتے۔ ہفتہ وار ہول سیل مارکیٹ جا کر گروسری کرتے اور سارا سامان رکشے پر لاد کر گھر لاتے۔ وہ شخص جس کے کپڑوں کی کریز بھی خراب نہیں ہوتی تھی وہ اب عام سی جینز اور ٹی شرٹ میں خنداں پیشانی کے ساتھ معمولی سے معمولی کام بھی کر رہا تھا۔

وہ بیک وقت بچیوں کا باپ، ان کا دوست، قصہ گو اور جوکر سب کچھ تھا۔ شاہ نے اس مشکل وقت کو تحمل سے جھیلا گو کہ وہ خود شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے مگر خاندان کو بکھرنے سے بچا لیا۔ میرا special need kitchen کامیابی سے چل پڑا اور آہستہ آہستہ ہمارے حالات سنبھلنے لگے۔ تین سال کے بعد قسمت نے یاوری کی اور شاہ واپس اپنی کورپوریٹ دنیا میں چلے گئے مگر یہ مشکل وقت جاتے ہوئے ہم سبھوں کو ایک مضبوطی اور اعتماد دے گیا۔

واقعی پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، پاپا کا پاش پاش کیا ہوا اعتماد شاہ نے ان بریک ایبل Unbreakable کر کے لوٹا دیا۔ ارحم نے مجھے بتایا تھا کہ پاپا بہت بیمار رہنے لگے تھے اور ان کی رنگوں اور روشنیوں کی دنیا ان کی پرانی فلموں کی طرح ڈبہ بند گرد پوش ہو چکی تھی۔ تماشا ختم ہوا اور اداکار اذیت ناک تنہائی کے حوالے اور اس بے کس حوالگی نے پرانے رشتے یاد کے پردے پر متحرک کر دئیے۔ ارحم چھ سال قبل ان سے گلاسگو جا کے مل چکا تھا اور بتا رہا تھا کہ وہ مجھے بہت یاد کرتے ہیں اور بات کرنا چاہتے ہیں۔

میں نے بات کرنے سے انکار کر دیا کہ میں ان کی یاد میں رو تو سکتی ہوں اور روتی بھی ہوں مگر انہیں معاف نہیں کر سکتی۔ میرے دل میں مقیم ان کی محبت کا گوشہ پتھرا گیا ہے۔ میں جانتی تھی کہ میں انکار کر کے اپنے لیے پچھتاوے اکٹھے کر رہی ہوں مگر کچھ معاملات اپنے اختیار میں نہیں ہوتے اور دل بے طرح باغی ہو جاتا ہے۔ مجھ میں ظرف کی کمی ہے یا پھر شاید پاپا کے خون کی تاثیر کے انہی کی طرح مجھے بھی پلٹ کر نہ دیکھنے کا دستور جینز میں ودیعت ہوا ہے۔

میں نے ان سے بات نہیں کی حالانکہ یہ وہ انسان تھے جن سے میں نے عشق کیا تھا مگر انہوں نے محبت کو ایسا بے مول کیا کہ میرا رشتوں پر سے اعتبار ہی اٹھ گیا۔ محبت غیور ہی نہیں منتقیم بھی ہوتی ہے اور اپنی بے توقیری کسی صورت نہیں بخشتی۔ شاید محبت اور نفرت کے مابین دیوار بھی یاجوج ماجوج کی دیوار ہی جیسی ہے جو وقت کے تسلسل کے کسی لمحے میں بے وفائی کے چاٹے جانے کے سبب ڈھے جاتی ہے اور نفرت یاجوج ماجوج کی مانند بپھر کر پورے وجود پر قابض ہو جاتی ہے۔

2016 میں پاپا چھیاسی سال کی عمر میں گلاسگو میں تنہا اپنے اپارٹمنٹ میں مردہ حالت میں پائے گئے اور اخبار کی ایک کالمی خبر میں ان کی پر شکوہ زندگی رقم ہو کر قصہ پارینہ ہو گئ۔ میں آج بھی بے یقین ہوں کہ آیا میں نے ان سے واقعی نفرت کی یا ان کی بے وفائی اور لا تعلقی کا شدید دکھ، غصے میں نفرت کا روپ دھار گیا۔

Check Also

Baray Maidan Ka Khilari

By Muhammad Saqib