Alfaaz Karte Hain Maail, Qaail, Ghaail
الفاظ کرتے ہیں مائل، قائل، گھائل
انسان کو اللہ تعالیٰ اشرف المخلوقات کا درجہ اور زمین پر اپنا نائب مقرر کیا۔ انسان کو نطق سے نوازا جو اسے فضیلت بخشتا ہے۔ انسان بولنا تو بہت جلدی سیکھ جاتا ہے۔ مگر کب، کیا، کتنا اور کیسا بولنا ہے یہ سیکھنے میں بعض اوقات تمام عمر بھی ناکافی ہوتی ہے۔ الفاظ کی دنیا بڑی وسیع و مربوط ہے۔ الفاظ صرف حروف کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ بہت پر اثر ہوتے ہیں۔
ان کی اپنی ہیت و ماہیت ہوتی ہے، یہ صرف ساخت و معنویت ہی نہیں رکھتے بلکہ ان کی روح بھی ہوتی ہے۔ اور ان الفاظ کی تاثیر کو مہمیز کرتا ہے، لہجہ۔
رس گھولتے شریں لفظوں کی تاثیر سے خوشبو آتی ہے
انداز بیاں سے، لہجے سے تقریر سے خوشبو آتی ہے
الفاظ کی حرمت کا پاس رکھنا از بس ضروری کہ الفاظ و محاورات بھی لباس کی طرح انسانی شخصیت کے عکاس ہوتے ہیں۔ ہمارے خیلات، احساسات اور جذبات، اظہار کے لیے الفاظ کے مرہون منت ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے اور میرے بندوں سے کہہ دیجیے کہ وہ بہت اچھی بات منہ سے نکالا کریں کیوں کہ شیطان آپس میں فساد ڈلواتا ہے، بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ سورہ اسراء آیت نمبر 53
اکثریت اپنی مجلسی زندگی میں عموماً خوش مزاج و خوش گفتار اور الفاظ کے چناؤ میں قدرے محتاط بھی مگر بد قسمتی سے خانگی زندگی اور قریب ترین رشتوں میں ہم میں سے بیشتر اس عمل سے قطعی لاپروا۔ وجہ شاید غیر مشروط محبت کا یقین یا پھر اپنے قوام ہونے کا غرور۔ گفتگو کے دوران کہنے، بولنے اور بکنے کا فرق روا نہ رکھنا سنگین ترین غلطی ہے۔ الفاظ اپنی تاثیر میں مسیحا بھی اور زہر ہلاہل بھی۔ زخم بھی اور مرہم و دست عیسیٰ بھی۔
یہ بولنے والے کی استعداد اور ظرف پر منحصر ہے کہ وہ اپنے مستعمل الفاظ سے دلوں کا قفل کھولتا ہے یا اپنی قدر و منزلت کھوتے ہوئے اپنی عزت رولتا ہے۔
لفظوں سے بنا انساں لفظوں ہی میں رہتا ہے
لفظوں سے سنورتا ہے، لفظوں سے بگڑتا ہے
ابراھیم ہوش
گھریلو زندگی کا سکون اور پایداری زوج کے نطق میں پوشیدہ ہے۔ گفتگو کا فن ایک ایسا بے بہا انعام ہے۔ جو آدمی کو دلوں میں زندہ رکھتا ہے۔ انسان کی اپنی عزت اور سلامتی اس کی اپنی زبان میں پوشیدہ ہے۔ شیطان، ہمارا ازلی دشمن ہے اور مستقل ہماری گھات میں، اس کا اصل وار ہی خانگی زندگی پر ہوتا ہے کہ گھروں کا انتشار، معاشرتی انتشار کا باعث بھی۔
کہتے ہیں کہ شیطان کا دربار سجا تھا اور اس کے چیلے آ آ کر ابلیس کو اپنی کارکردگی سے آگاہ کر رہے تھے۔ اس کے ایک چیلے نے کہا آقا، آج میں نے بد زبانی کے باعث ایک گھر توڑوا دیا اور اس گھر کا شیرازہ بکھیر دیا۔ ابلیس یہ سنتے ہی اپنے تخت سے اچھل کر کھڑا ہو گیا اور اسے گلے لگا کر تھپکی دی اور کہا یہی تو اصلی کارنامہ ہے اور یہی ہمارا ہدف۔
اکثر گھروں کے ٹوٹنے کے پیچھے زبان کی تلخی اور رویے کی سختی ہوتی ہے۔ ہمارے سامنے حضرت انس بن مالکؓ خادم رسول ﷺ کی روشن مثال موجود ہے۔ حضرت انس کی والدہ نے انہیں حضور ﷺ کی خدمت پر مامور کیا تھا۔ خدمت کے ان دس سالوں میں آقا کریم ﷺ نے حضرت انسؓ کی کسی خطا و ادا پر سرزنش تو بڑی بات " اف " بھی نہیں کہا۔
ازواج مطہرات کی زندگیاں ہمارے سامنے ہیں۔ آقائے نامدار ﷺ نے دونوں جہانوں کی سرداری کے باوجود بعض اوقات ازواج کا نا رواں رویہ بھی خنداں پیشانی سے برداشت کیا۔ خانگی زندگی ہو یا مجلسی، بول چال میں احتیاط، لفظوں کا مناسب چناؤ اور لہجے کا رس و نرماہٹ ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔
اماں عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ رسول خدا ﷺنے فرمایا کہ مومن اپنے حسن خلق کی وجہ سے روزہ رکھنے والے اور رات بھر عبادت کرنے والے کے درجے کو حاصل کر لیتا ہے۔ (ابو داؤد)
کس قدر آسان اور قابلِ عمل نیکی۔ ذرا سا تحمل اور برداشت کس قدر بیش بہا جزا و درجے کی بلندی سے سرفراز کر سکتا ہے۔
سورہ بقرہ میں ارشاد ربانی ہے کہ "اور حق کو باطل کے ساتھ غلط ملط نہ کرو اور نہ حق چھپاؤ، تمھیں تو خود اس کا علم ہے"۔
جب بھی کوئی معاملہ درپیش ہو، اس پر غور و خوص اور اس کی چھان بین ضروری ہے۔ خاص کر آج کل جب کہ میڈیا ہماری خلوت گاہوں میں بھی سرائیت کر چکا ہے اور اب تو ہر شخص کی اپنی اپنی ڈفلی اور سب کا اپنا اپنا راگ ہے۔ سو معاملات کی تحقیق اور چھان بین از بس ضروری۔ ہمارے کندھوں پر کاتبین بیٹھے ہیں۔ جو ہماری زبان سے ادا کیے گئے ہر ہر لفظ کو اور ہمارے ہر چھوٹے بڑے عمل کو لکھ رہے ہیں۔
ہماری آخری سانس تک ان کا قلم رواں رہے گا۔ صرف ہمارے الفاظ کی ہی پکڑ نہیں بلکہ ہمارے لائیک، ڈس لائیک اور ہمارے تبصرے سب کے سب لکھے جا رہے ہیں اور روز حشر ان سب پر مواخذہ ہو گا۔ کیا ہم واقعی اس بوجھ کے متحمل ہیں؟ سوشل میڈیا چونکہ اب سب ہی کی دسترس میں ہے سو بے تحاشا لکھا جا رہا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ بس لکھا اور بولا ہی جا رہا ہے۔
یعنی ناپا تولا کچھ بھی نہیں۔ کس کے سر پر خاک ڈالی، کس کی ردا سرے بازار اچھالی، ان باتوں سے قطعی بے خبر و بے پروا۔ ریٹینگ کی دوڑ اور بریگنگ نیوز کے خبط میں مبتلا ہم شرافت کی حدود پھلانگتے چلے جا رہے ہیں۔ کبھی اخبار اور ریڈیو سکھنے سکھانے کا مرکز ہوا کرتے تھے، پر اب وہاں زبان و بیان میں فاش غلطیوں کی بھر مار ہے۔ زرد صحافت کی دسترس سے کسی عزت و ناموس محفوظ نہیں۔
کسی کی عزت ہو یا غم ہر چیز کو کیش کیا جاتا ہے اور میڈیا ایک منڈی بن چکا ہے۔ اس طرز عمل کو روکنا بہت ضروری ہے اور اس اجتماعی معاشرتی بے حسی کا تدارک وقت کی اہم ترین ضرورت بھی۔ ہمیں الفاظ کو سوچ سمجھ کر برتنا ہوگا کہ الفاظ چاہے ہؤا کے دوش پر سوار ہوں یا برقی لہروں کے ذریعے بکھرے جائیں یہ حشر اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں سو خدارا انہیں مرہم اور دلاسہ ہی رہنے دیجیے۔
ہمیں اپنے نوک قلم کو تلوار بنا کر دلوں کا قتل عام اور عزتوں کی پامالی سے مکمل اجتناب کرنا ہو گا۔ الفاظ اس قدر طاقتور کہ یہ مائل، قائل اور گھائل کرسکتے ہیں۔ سو ان سے دغا نہ کیا جائے بلکہ انہیں دعا ہی رہنے دیا جائے۔ دنیا میں نفرت کی بڑی فروانی ہے اور سیاست نے انسانوں کو مذہب، مسلک، ذات پات اور رنگ و نسل کے خانوں میں قید کر دیا گیا ہے۔
اس تقسیم کی بنا پر رگوں میں نفرت کا زہر سرائیت کر چکا ہے۔ ہمیں لفظوں کا سہارا لے کر اس زہر کا تریاق ڈھونڈنا ہے۔ انسان کو انسان سے جوڑنا ہے تا کہ ہماری نسلیں اس خونریزی اور بربریت سے بچ سکیں۔ جس سے ہم اور ہمارے آباؤ اجداد گزرتے آئے ہیں۔ یہ کام صرف ہمارے عمل اور الفاظ ہی کر سکتے ہیں
تیرے نطق میں ہے عجب جانفزائی
شکستہ دلوں کو ہے تو مومیائی
دنیا میں امن و آشتی سے رہنے کے لیے نرم اور کومل لفظوں کی اشد ضرورت۔ لفظوں کو کوڑا یا تازیانہ نہ بنائیں بلکہ نرمل اور کومل لفظوں سے وہ پل تعمیر کریں، جو دلوں سے دلوں کے رابطے کو بحال کرے۔ یقیناً ہمارا حسن سلوک اور لفظوں کا عجز و گداز ہی یہ معجزہ برپا کر سکتا ہے۔ جگر کے پیغام کو عام کیجیے اور دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کی کوشش میں اپنا حصہ ڈالیں۔
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔