Adhoori Kahani Muhabbat Ki (2)
ادھوری کہانی محبت کی (2)
افسانہ باجی کے اس راز سے اب ان کا پورا گھرانہ آشنا ہو چکا تھا اور کوئی مسئلہ یوں نہ تھا کہ وہ خوش جمال افسانہ باجی کا چچازاد بھائی تھا، آرمی میں کیپٹن اور ان لوگوں کی اندرون سندھ زمینداری بھی تھی۔ کوئی فارمل بات یا منگنی وغیرہ نہیں تو ہوئی تھی پر راوی چین ہی چین لکھتا تھا کہ دونوں گھرانے راضی باضی تھے۔ اس لو اسٹوری میں کوئی رقیب تھا اور نہ کیدو۔
دونوں پریمی پریم رس سے مست تھے۔
سنہ اسی کی دھائی تھی اور ضیاء الحق کا ظلمت بھرا دور اپنے پورے جبر و استبداد کے ساتھ جاری و ساری تھا۔ پڑوس(افغانستان) میں شدت سے جنگ جاری تھی اور میں تازہ تازہ یونیورسٹی میں آئی تھی۔ افسانہ باجی کو ایم اے کئے دو سال سے زیادہ ہو چلے تھے مگر شادی کا معاملہ ہنوز کھٹائی میں پڑا تھا کہ اس خوش جمال کی بڑی بہن کی شادی نہیں ہو پا رہی تھی۔ پھر یہ نوید آئی کہ چچی منگنی پر راضی ہو گئی ہیں مگر افسانہ باجی کی شادی ان کی بڑی نند کی رخصتی کے بعد ہی ہو گی۔ گھر بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ اب افسانہ باجی کے بعد والی بھی ماسٹرز کرچکی تھی اور دردانہ نے بھی میرے ساتھ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا تھا۔ زور و شور سے منگنی کی تیاریاں ہو رہیں تھیں اور خوش جمال کے ایکسرسائز سے واپس آتے ہی منگنی طے پا چکی تھی۔
انسان کی منصوبہ بندی اس قادر مطلق کی منصوبہ بندی کے آگے دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ اس ایکسرسائز پر خوش جمال کا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور حادثہ بھی ایسا المناک جو خوش جمال کی ساری خوشیاں نگل گیا۔ وہ زندگی سے بھرپور جوان کمر کے نیچے سے اپاہج ہو گیا۔ چھ ماہ کے طویل صبر آزما علاج کے بعد خوش جمال جب اپنے اردلی کے ساتھ افسانہ باجی کے گھر آیا تو اس کی بےچارگی پر ہر آنکھ اشک بار تھی۔ پھر خوش جمال کے لیے اس گھر کی فضا بدل گئی۔ وہ گھر جہاں پہلے سب نظریں فرش راہ رہتی تھی پہلے وہ نظریں کترائیں اور پھر کٹار بنتی چلی گئی۔ سوائے افسانہ باجی کے اس گھر کا ہر فرد اس رشتے کے خلاف تھا۔ افسانہ باجی کا برا حال تھا۔ خوش جمال کے حادثے سے لیکر اس وقت تک وہ رو رو کر ہلکان ہو چکی تھیں، آدھی بھی نہیں رہی تھیں۔ گھر کا ہر چھوٹا بڑا ان کو قائل کرنے کی کوشش کرتا کہ شادی کا یہ فیصلہ خودکشی کے مترادف ہے۔ یہ نرا جزباتی فیصلہ ہے، ازدواجی خوشی کے بغیر کوئی کیسے رہ سکتا ہے؟
عجیب آبلے جیسی صورتحال تھی۔ اس ہنستے بولتے گھر میں خاموشی نے ڈیرہ ڈال لیا تھا اور سب ایک دوسرے سے نظریں چرانے پر مجبور تھے۔
خوش جمال کے لیے یہ گھر بہت روکھا ہو گیا تھا۔ اس شیر جوان کو وہیل چیئر پر دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ جیس کسی نے دل پر تیر مارا ہے اور تیر کی انی سینے کے اندر ہی گڑی رہ گئی ہے۔
ایک دن آنٹی نے مجھے افسانہ باجی کو سمجھانے کہا۔ میں بھلا کیا بولتی بس ان کے ساتھ آنسو بہاتی رہی کہ میں اس محبت کی کہانی کے ہر راز کی امین تھی۔ مجھے یاد ہے افسانہ باجی نے بڑے درد سے کہا تھا کہ، تم پلیز امی کو سمجھاؤ نا۔
ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بہت خوش رہے گے۔ میں بہت صابر ہوں۔ میری خوشی ان کی ہمراہی اور سنگت میں ہے۔ میں بچوں کے بغیر رہ لوں گی اور اگر بچے اتنے ہی ضروری ہوئے تو ہم کوئی بچہ گود لے لینگے۔
میرے پاس اس ماہی بے آب کے لیے کوئی جواب نہیں تھا ماسوائے آنسوؤں کے۔
ایک اداس شام خوش جمال نے افسانہ باجی کو اس اذیت سے رہائی دے دی۔ اتفاق سے اس شفق رنگی شام میں افسانہ باجی کے گھر ہی تھی جب وہ اپنے اردلی کے ساتھ آئے تھے۔ اردلی سیدھے ان کی وہیل چئیر افسانہ باجی کے کمرے میں ہی لے آیا۔ انہوں نے بنا رکے اور لڑکھڑائے افسانہ باجی سے صاف اور مضبوط آواز میں معذرت کی کہ وہ ان سے شادی نہیں کر سکتے اور انہوں نے تمام وعدوں اور دعووں سے افسانہ باجی کو آزاد کر دیا۔ یہ جملے ادا کرتے ہوئے، ان کی زبان میں لکنت تو نہ تھی پر چہرہ ضبط غم سے سیاہ پڑ گیا تھا۔ پھر وہ رکے نہیں فوراً اردلی کو آواز دی اور اردلی ان کی وہیل چئیر کو دھکیلتا ہوا ہمیشہ کے لیے چلا گیا۔
یوں یہ ادھورا فسانہ تمام ہوا۔
افسانہ باجی بالکل بجھ گئی، ایسے جیسے بولنا ہی بھول گئی ہوں۔ بس ایک ٹک خلا میں گھورتی رہتی یا پھر منہ سر لپیٹ کر کسی کونے میں پڑی رہتی۔
آنٹی نے جھٹ پٹ ان کا رشتہ طے کر دیا۔ میں نے دبی زبان میں کہا بھی کہ کم از کم افسانہ باجی کو سنبھلنے کا موقع تو دیں۔
انہوں نے کہا، نہیں!
"جتنی جلدی اتنی بہتری"۔ پہلے ہی بہت وقت ضائع ہو گیا ہے۔ نئے لوگوں اور نئے ماحول میں جائے گی تو بہل جائے گی۔ آنٹی اس گھڑی مجھے بہت کٹھور لگیں جب انہوں نے کہا تھا کہ "بیٹا دل بسے نہ بسے مگر جسم فشار میں مبتلا نہ ہو ورنہ بڑی تباہیاں لاتا ہے۔ دو چار بچے ہونگے تو ان کے سبب دل بھی آباد ہو جائے گا"۔
افسانہ باجی نے اپنے آپ کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا تھا اور اس شادی کے فیصلے پر ان کی طرف سے کوئی ردعمل ظاہر نہیں ہوا۔
ان کی شادی ایک اوسط سے بھی کم صورت شخص کے ساتھ کر دی گئی جس کی واحد خوبی اس کی بھاری بھرکم ڈگری اور سات سمندر پار کا ویزہ تھا۔ وہ ایسی شادی تھی جس میں سارا گھر خوش تھا سوائے دلہن کے۔
ان کی شادی پر چچا کے گھر سے کوئی نہیں آیا تھا اور افسانہ باجی بنا ایک بھی آنسو بہائے رخصت ہو گئیں۔
آج میں پانچ دہائیاں گزار چکنے اور ممتا کی کٹھالی میں پسنے کے باوجود بھی بےیقین ہوں کہ آنٹی کا فیصلہ درست تھا یا غلط؟
عقل یہی کہتی ہے کہ ہاں! وہ مناسب فیصلہ تھا۔ شاید ہر ماں یہی فیصلہ کرتی۔
پر جانے کیوں دل کرلاتا ہے۔
اب تو زمانے گزر گئے اس قصے کو جانے دنیا کی اس بھیڑ میں افسانہ باجی کہاں ہیں؟
آسودہ ہیں یا دل زدہ کون جانے۔
خدا جانے خوش جمال کہاں سیاہ پوش ہے۔
دنیا بہرحال اپنے مدار پر قائم ہے۔