Murree, Hadisa Ya Laparwahi?
مری، حادثہ یا لاپرواہی؟
گزشتہ سال مری حادثہ پر بذریعه کالم باعنوان (مری، حادثہ یا لاپرواہی) کچھ تجاویز دی تھیں اب جبکہ سردیوں کی آمد ہے تو سوچا اپنی تجاویز کو دہرا دوں تاکہ مری کو تحصیل سے ضلع بننے کے عمل میں انتظامات سے پچھلے سال کی طرح لاپرواہی نا برتی جائے۔
سب سے پہلے پچھلے سال مری میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر ہم اہلیان مری اور پورا پاکستان سوگوار ہونے کے ساتھ ساتھ مرحومین کی فیملیز کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔
اب آتے ہیں اس اہم ترین موضوع کی طرف، کہ یہ حادثہ تھا یا لاپرواہی؟
اب تک جتنے بھی شواہد سامنے آئے ہیں ان سی یہ صاف صاف لاپرواہی دکھائی دے رہی ہے۔ کس کس کی لاپرواہی سے یہ قیمتی جانیں، یہ پھول سے معصوم بچے ناحق مارے گئے اس کے لیے وزیراعلیٰ کی کمیٹی کی رپورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کا عبوری اور کچھ دن پہلے تفصیلی فیصلہ آ چکا ہے۔ جس میں مری میں کنکریٹ کے پہاڑ یعنی غیر قانونی بلڈنگز کی بھرمار اور اس طرح کی دوسری چیزوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
گزشتہ سال محکمہ موسمیات اور این ڈی ایم اے نے تمام متعلقہ اداروں اور حکام تک موسم کی شدت اور شدید برفباری کی واضح اور دو ٹوک اطلاعات پہنچا دی تھی تو کیوں وہ سارے انتظامات نہیں کیے گئے جو 22 اموات کے بعد کئیے گئے؟
کیوں 3500 گنجائش والی مری میں ایک لاکھ سے زیادہ گاڑیاں داخل ہونے دی گئیں؟
کیوں مری ایکسپریس وے، مری جی ٹی روڈ اور کے پی کے کی طرف سے گاڑیوں کو کنٹرول نہیں کیا گیا؟
ساری کی ساری اموات کے پی کے کی طرف سے جو روڈ مری کلڈنہ کی طرف آتی ہے اس پر ہوئیں۔ بہرحال لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کی روشنی میں جو جو لاپرواہی کا مرتکب ہوا ہو اس کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے کسی بھی تحصیل یا ضلع میں جو بھی انتظامیہ یا ایڈمنسٹریشن ہوتی ہے وہ ہوتی ہی اس طرع کے کرائسس سے نمٹنے کے لئے، ورنہ عام حالات یا حالت امن میں تو ان کو کچھ بھی نہیں کرنا پڑتا۔ وہ اپنی پوزیشن انجوائے کرتے ہیں۔ ان کی تربیت ہی کرائسس سے کیسے نمٹا جائے کے ارد گرد ہوتی ہے۔
گزشتہ سال ہوئے حادثے پر لوگوں نے حسب منشا اور حسب توفیق بہت سیاست کی۔ جو انتہائی قابل مذمت ہے۔ سیاست کے لئے بہت موقع ہوتے ہیں، خاص کر اس حکومت نے تو قدم قدم پر سیاست کے موقع مہیا کئے ہوئے ہیں تو ساری پارٹیوں کے لوگوں سے گزارش ہے کہ لاشوں اور حادثات پر سیاست مت کیا کریں۔ باقی انتظامیہ اور ایڈمنسٹریشن اور جو جو لاپرواہی کا مرتکب ہوا ہے اس پر جتنی مرضی ہے تنقید کریں۔ یہ آپ کا حق ہے۔
اس کے علاوہ اس حادثے کے بعد مری کے لوگوں کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے، خاص کر سوشل میڈیا پر۔ تو عرض ہے اچھے برے لوگ ہر جگہ ہر معاشرے میں ہوتے ہیں۔ جہاں ہوٹل مالکان، ریسٹورنٹ والوں اور دکاندار حضرات سے ٹورسٹ کو اوور چارجنگ کی شکایات ہیں وہی مری کے عام لوگوں نے اپنے محدود وسائل میں اتنی شدید برفباری میں دل کھول کر لوگوں کی خدمت بھی کی۔
پوری پوری رات فیملیز اور خواتین زیورات اور پیسوں کے ساتھ ویران جنگلات میں 20 اور 30 گھنٹے تک رہیں لیکن الحمد اللہ کوئی چوری یا غیر اخلاقی واقعہ رونما نہیں ہوا۔ باقی مری کے وہ ذمہ داران جن کا کام مری ایڈمنسٹریشن اور ہوٹل مالکان اور ہوٹل انتظامیہ پر ان کی غلطیوں پر سرزنش اور تنقید ہے وہ ان سے تعلقات بنانے کے بجائے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ ان اموات کو مری کو ضلع بنانے اور دوسرے پیکیجز کے پیچھے چھپنا نہیں چاہیے بلکہ لاپرواہی کے مرتکب افراد اور اداروں کو عبرت کا نشان بنانا چاییے۔
مری تحصیل ہو یا ضلع جب تک درج ذیل اقدامات نہیں کئے جاتے اس طرح کے مسائل کا سامنا رہے گا۔
مسئلہ نمبر 1۔ ٹریفک جام
مسئلہ نمبر 2۔ بجلی کا ہفتہ ہفتہ غایب ہونا
مسئلہ نمبر 3۔ مہنگائی، اوور چارجنگ
مسئلہ نمبر 4۔ ہسپتال کا شہر سے منتقلی
نمبر 1۔ ٹریفک کے حل کے لیے پارکنگ پلازے تعمیر کیئے جائیں۔ مسیاڑی اور لوئر ٹوپہ کے نزدیک بڑے بڑے پارکنگ لاٹ بنائے جائیں ان پارکنگ پلازوں اور پارکنگ لاٹ سے بڑی بسوں کے ذریعے مری شہر تک جایا جائے۔ مری میں چار ٹریفک انٹری پوائنٹ ہیں ایک مری ایکسپریس وے، دوسرا مری جی ٹی روڈ اور کے پی کے کی طرف سے جو کلڈنہ آ کر مری جی ٹی روڈ پر ملتا ہے اور چایک کشمیر کی طرف سے۔ ان چاروں پوائنٹ پر ایک مشترکہ سسٹم ہونا چاہیے جو گنجائش سے زیادہ گاڑیوں کو مری میں داخلے پر بروقت روک سکے۔ مری کی تمام روڈز کو "ون وے" کیا جائے۔
(میں نے اپنی 25 سالہ مکہ المکرمہ میں گزاری زندگی میں دنیا کا سب سے بڑا انسانی اجتماع یعنی (حج) اور گاڑیوں کا ایسا قافلہ کنٹرول ہوتے دیکھا ہے جو 3 ملین انسانوں کو منتقل کرتا ہے تو مجھے معلوم ہے میں کیا کہہ اور کیا لکھ رہا ہوں۔)
نمبر 2 بجلی۔ بجلی کی تمام لائنوں کو انڈر گراؤنڈ کیا جائے۔ چونکہ برفباری کی وجہ سے درخت اور درختوں کی بھاری شاخیں بجلی کی اوپن تاروں پر گرتی ہیں جس کی وجہ سے بجلی ہفتہ ہفتہ غایب رہتی ہے۔ جب تک یہ نہیں ہوتا تمام ہوٹل مالکان کو پابند کیا جائے کہ کم از کم دس دن تک کا متبادل ایندھن جنریٹرز کے لیے پٹرول، ڈیزل وغیرہ لازمی رکھیں۔ تاکہ ٹورسٹ کو بھاری بھرکم بل دینے پر بجلی جیسی بنیادی سہولت میسر رہے۔
مسئلہ نمبر 3 اوور چارجنگ۔ اے سی مری کو چاہیے کہ تمام ہوٹل، ریسٹورنٹ، کریانہ دکان، باربر شاپ، دھوبی سب کے نرخ نامے طے کیئے جائیں ان کو نمایاں جگہ پر آویزاں کیا جائے اور اس پر سختی سے عمل کروایا جائے۔
مسئلہ نمبر 4۔ مری سول اسپتال کو فوراً شہر کے اندر سے کسی ایسی جگہ منتقل کیا جائے جہاں مری کی عوام اور کسی حادثے کی صورت میں ٹورسٹ کو با آسانی پہنچایا جائے۔ جن لوگوں کو مری سول ہسپتال کی لوکیشن کا اندازہ نہیں ہے ان کو بتاتا چلوں کہ اتنی رش والی جگہ پر یہ ہسپتال ہے کہ برفانی سیزن اور گرمیوں کے سیزن میں اس ہسپتال تک ایمرجنسی میں کسی ایمبولینس کی رسائی ممکن نہیں۔
آخر میں محترم ایم این اے اور ایم پی اے اور تمام منتخب نمائندوں سے عرض ہے کہ ہر سال شدید برفباری میں ٹورسٹ کے علاوہ اپنے ان غریب ووٹرز کا خیال رکھا کریں جو اپنے ووٹ سے آپ کو ایوانوں تک پہنچاتے ہیں گزارش ہے کہ مری کی برفباری سے متاثرہ یونین کونسلوں روات، مسیاڑی، چرہان سہربگلہ اور گھوڑا گلی کی لنک روڈز پر بھی توجہ دی جائے لنک روڈز بند ہونے سے ان یوسیز کے لوگ بہت پریشان ہوتے ہیں اللہ نا کرے کوئی بیمار ہو جائے، کسی کو ہسپتال لانا ہو جو لنک روڈوں کی بندش سے نا ممکن ہے۔
لوگوں کے گھروں میں ایندھن اور راشن کی شدید کمی ہے۔ شدید برفباری میں آپ کے ووٹر آپ کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ٹورسٹ کے ساتھ ساتھ اپنے ووٹرز پر بھی توجہ دیں۔ مری جہاں جہاں لنک رودز نہیں ہیں فوراً لنک روڈ بنائی جائیں۔ جہاں مرمت کی ضرورت ہے مرمت کی جائے اور جو لنک روڈز ہر سال برفباری سے دس دس دن بند رہتی ہیں ان کو کھولنے کے اقدامات کیے جانے چاہیے۔ یہ آپ کو ویسے بھی کرنا چاہیے لیکن اب جبکہ انتخابات کی خبریں بھی چل رہیں ہیں تو یہ آپ کے لیے اور بھی ضروری ہو جانا چاہئے۔
بہرحال گزشتہ سال کے حادثے نے جہاں انتظامیہ، سیاستدانوں کو نقصان پہنچایا وہاں مری میں کاروباری لوگوں کو بھی شدید نقصان ہوا۔ بلکہ اب دوبارہ سردیوں کا آغاز ہو رہا ہے اور لوگوں کا نقصان جاری و ساری ہے۔ یہاں مری میں سیاحت سے منسلک ہر ہر آدمی چاہے وہ کسی ہوٹل کا مالک ہے یا ہاکر یا دکاندار، یا ٹیکسی والا، یا گھوڑے پر سیر کرانے والا، سب کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ آج سے دس بیس سال پہلے لوگوں کے پاس مری کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا۔
تو لوگوں کی مجبوری تھی مری آنا۔ اب سوات موٹر وے، ناران، کاغان تک آسان رسائی، نیلم ویلی اور نتھیا گلی جیسے آپشن کی موجودگی میں لوگوں کو مری لانا ہم مری والوں کی مجبوری بن گئی ہے۔ اس لئے ہم سب کو اپنے روئیے میں تبدیلی لانا پڑے گی اور ٹورازم سے منسلک افراد کو ٹورسٹ کو روزی کا ذریعہ اور رحمت خداوندی سمجھ کر عزت دینی ہوگی، آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر طرح کے حادثات سے محفوظ رکھے آمین۔