Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shafaqat Abbasi
  4. Kaptan Ka Bayania Drust Hai Kya?

Kaptan Ka Bayania Drust Hai Kya?

کپتان کا بیانیہ درست ہے کیا؟

قارئین یہ وہ سوال ہے جس کا جواب جذباتیت سے نہیں عقل اور منطق سے سوچنا ہے۔ قارئین پاکستان میں امریکہ مخالف نعرے پاپولر تو ہو سکتے ہیں لیکن ملکی مفاد میں قطعی نہیں۔ ہم سب کو یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ پاکستان ہمیشہ ہی معاشی بحران کا شکار رہا اور خاص کر اس وقت کرونا جیسی آفت کے بعد تو معیشت تباہ ہو چکی۔

ایسے میں ورلڈ بنک، آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف جیسے "معاشی ٹرولنگ ٹول" جب امریکہ کے اثر و رسوخ میں ہوں اور خاص کر ہماری ایکسپورٹ کا 80 فیصد یورپ، امریکہ میں جاتا ہو تو کسی طرح بھی کپتان کا بیانیہ پاکستان اور پاکستانیوں کے مفاد میں نہیں۔ جیسا کہ میں کالم کے شروع میں عرض کر چکا ہوں کہ پاکستان میں امریکہ مخالف بیانیہ خوب بکتا ہے بلکہ ہاتھوں ہاتھ بکتا ہے اور کپتان کو اس بات کا اچھی طرع علم ہے۔

اس لئے کپتان اور کپتان کے کھلاڑی اپنے جلسوں میں امریکہ مخالف بیانیے کو استعمال کر رہے ہیں۔ کاش کاش کپتان اس بیانیے کو آئندہ الیکشن مہم میں استعمال کرنے کے بجائے 50 لاکھ گھروں، 1 کروڑ نوکریوں، عوام کو سستی اشیاء خورد و نوش، اور چاروں گورنر ہاؤسز اور وزیراعظم ہاؤس کی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل سٹوڈنٹس کی ڈگریوں کو میرا کپتان الیکشن مہم میں استعمال کرتا تو عوام کپتان کے ساتھ ہوتی۔

لیکن کپتان جب اپنے کئیے وعدے پورے نہیں کر سکا تو ایک روٹین کی "ڈپلومیٹک کیبل" کو عوام میں لے گیا۔ ڈی جی، آئی ایس پی آر کی پریس بریفنگ نے اس ڈپلومیٹک کیبل کے حوالے سے بہت سارے خدشات دور کر دیئے۔ پاکستان کوئی تیل اور گیس سے مالا مال ایران نہیں، اور نا ہی روس کی طرع دفاعی خود مختار۔ ہماری فضائیہ کی بڑی وار مشین ایف سولہ امریکن ہے، ہمارے سٹوڈنٹس کی ایک بڑی تعداد امریکی سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہی ہے۔

بیرونی ممالک سے پاکستان بھیجی جانے والی رمیٹینسز کا ایک بڑا حصہ یورپ اور امریکہ سے آتا ہے۔ اس لیے پی ٹی آئی یا کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت سے گزارش ہے، الیکشن مہم اور اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے کوئی بھی بیانیہ آپ کا حق ہے لیکن کس قیمت پر؟ کیا کوئی ایسا بیانیہ اپنانا چاہیے جو ملکی مفاد سے ٹکرا رہا ہو؟ کبھی نہیں، اور خاص کر عمران خان جو ایک محب وطن پاکستانی ہے، جس کی سیاسی جدوجہد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

کپتان کو اپنے اس بیانیے پر غور کرنا چاہیے کہ یہ بیانیہ کپتان کی سیاست اور پاکستان کو کس قدر نقصان پہنچا رہا ہے، اور دوسرا کپتان کو پیچھے مڑ کر دیکھنا چاہئے کہ کپتان کی کن کن غلطیوں کی وجہ سے ازلی سیاسی دشمن پی پی پی اور پی ایم ایل ن ایک ہو گئے؟ کن غلطیوں کی وجہ سے مذہبی جماعت جے یو آئی فضل الرحمان اور لبرل پیپلز پارٹی ایک ہو گئے، کن غلطیوں کی وجہ سے ساری اپوزیشن پارٹیاں ایک طرف ہو گئیں اور کپتان کی پی ٹی آئی ایک طرف؟

اور اسلام آباد ہائی کورٹ کا الیکشن کمیشن کو یہ حکم کہ جلد از جلد پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کیا جائے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا توشہ خانہ سے انگوٹھی، ہار اور گھڑی کی فروخت کی بات کرنا اور پنجاب سے فرح گجر "خان" کی داستانیں آنے والے کڑے وقت کی پیشگی اطلاع دے رہی ہیں۔ ملک ریاض کی بیٹی سے گفتگو (جس میں کروڑوں کی ہیرے کی انگوٹھی اور اس انگوٹھی کے بدلے اپنے نا جائز کام کروانا۔) نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

لیکن جاتے جاتے کپتان موجودہ حکومت کو ایک ایسی گلے کی ہڈی دے گیا جو نا موجودہ حکومت سے نگلی جا رہی ہے اور نا اگلی جا رہی ہے۔ وہ ہے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں، جس کو کپتان کی حکومت کے خاتمے تک 180 روپے فی لیٹر تک ہونا چاہیے تھا۔ وہ 150 پر برقرار رکھ کر اربوں کی سبسیڈی اور ہچکولے کھاتے خزانے پر اربوں کا بوجھ۔ جبکہ موجودہ خادم پاکستان کی حکومت نے پہلے تو فیصلوں میں تاخیر کی، کسی کے اشارے یا تھپکی کا انتظار کرتے رہے۔

چونکہ ن لیگ میں اکیلے یہ سکت نہیں تھی کہ پٹرولیم مصنوعات کا سارا بوجھ خود اٹھاتی۔ اس لئیے جب "بڑے گھر" سے تھپکی ملی تو پٹرول جو کپتان نے 150 روپے پر رکھا تھا۔ شہباز سپیڈ اس کو بہت سپیڈ سے 235 فی لیٹر پر لے گئی۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اس اضافے سے ضروریات زندگی کی ہر چیز مہنگی ہو گئی۔ جس کا بڑے گھر پہ اثر صفر، پی ڈی ایم کی ساری جماعتوں پر 5 فیصد اور ن لیگ پر 95 فیصد پڑا ہے۔

مہنگائی کی اس لہر نے غریب، مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس کی چیخیں نکال دی ہیں۔ جس کا سارا ملبہ ن لیگ پر گر رہا ہے، زرداری صاحب، شہباز شریف صاحب کو وزارت عظمیٰ کی آگ میں جھونک کر مزے سے اگلے الیکشن کی صف بندی، بلاول کی بحیثیت وزیر خارجہ ٹریننگ اور مستقبل میں بلاول بطور وزیراعظم پاکستان کی امید لگائے زرداری صاحب اپنے پتے بہت احتیاط اور ہوشیاری سے کھیل رہے ہیں۔

ن لیگ بھی سیاسی کھلاڑی ہے۔ ن لیگ کا پلان یہ ہے کہ جون 2023 تک معیشت کچھ بہتر کر کے، مہنگائی میں پسی عوام کو بجٹ جون 2023 میں کچھ ریلیف دے کر اگست 2023 تک الیکشن کرا دیں، لیکن یہ پاکستان ہے۔ پاکستانی سیاست میں کبھی ایک ہفتہ بھی بہت ہوتا ہے۔ ادھر تو سال سے زیادہ عرصہ پڑا ہے، ن لیگ کی اگر بڑے گھر سے بنی رہی تو اسمبلی کی مدت ایک سال بڑھائی بھی جا سکتی ہے۔ مخصوص حالات میں آئین پاکستان جس کی اجازت دیتا ہے تو پھر الیکشن 2024 اگست تک بھی جا سکتے ہیں۔

قارئین ان سب تلخ خبروں اور بد ترین معاشی حالات میں ایک خوشخبری یہ ہےکہ بہت ممکن ہے "فنانشل ایکش ٹاسک فورس" FATF کی جانب سے پاکستان کی ریٹنگ بہتر ہو جائے۔ دوسرا امریکی سفیر سے آئی ایم ایف پروگرام کے بارے میں مدد سے ممکن ہے آئی ایم ایف سے ریلیف مل جائے اور چائنہ اور عرب دوست ممالک سے امداد پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی اونچی اڑان کو قابو کر سکے۔

اگر ڈالر 170، 180 تک آ جاتا ہے اور انٹرنیشنل مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی واقع ہو جائے اور پاکستان میں بارشوں سے بہتر ہوتا موسم جس سے بجلی کی طلب میں کمی سے لوڈشیڈنگ میں کمی، یہ سب چیزیں ن لیگ کے لئے لاٹری ثابت ہوں گی۔ لاٹری اس لیے کہ اس میں ن لیگ کا کمال کم اور انٹرنیشنل حالات اور موسمی تبدیلی کا کمال زیادہ ہے۔

اللہ کرے جو ہو پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے بہتر ہو۔

Check Also

Ye Breed Aur Hai

By Mubashir Ali Zaidi