Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shafaqat Abbasi
  4. Idaron Ko Ghair Janibdar Rehna Chahiye, Magar Siyasatdan?

Idaron Ko Ghair Janibdar Rehna Chahiye, Magar Siyasatdan?

اداروں کو غیر جانبدار رہنا چاہیے، مگر سیاستدان؟

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کا ہر سیاستدان ہر وقت ہاتھ میں پالش اور برش لے کر کھڑا ہوتا ہے۔ بس جوتا آگے آنے کی دیر ہوتی ہے۔ مثلاً ن لیگ ضیاء الحق کی پیداوار کے ساتھ ساتھ مشرف این آر او اور 2018 کے الیکشن سے تین ماہ پہلے شہباز شریف کی کیبنٹ تک فائنل ہو گئی تھی۔ پی پی پی بھٹو کی پھانسی کے باوجود اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت اور مشرف سے این آر او، پی ٹی آئی 20 سالہ جدوجہد کے باوجود سلیکٹڈ اور ان کے سر پر کسی کا ہاتھ ہے، کہلواتے کہلواتے چار سال گزار گئی۔

یہ ووٹ، یہ الیکشن، سب گورکھ دھندا ہے۔ معصوم عوام نے یہ مردہ باد اور وہ زندہ باد کے نعرے مار مار کر تیسری نسل غربت کی لکیر سے نیچے پہنچا دی۔ مطلب تین وقت کا کھانا بھی میسر نہیں اور جن کے نعرے مارتے رہے ان کے کتے بھی امپورٹڈ پانی اور خوراک کھا رہے ہیں۔ آخر کب تک ایسا چلے گا؟ پھر ہمارے سیاستدانوں نے اپنی لڑائیوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ 74 سال گزرنے کے باوجود سیاسی نا بالغ ہیں۔ خارجہ پالیسی ہو، کشمیر ہو یا ایٹمی ہتھیار حتیٰ کہ سی پیک، آج بھی عوام سیاستدانوں سے زیادہ اداروں پر اعتماد کرتے ہیں۔

یہ عوام کا اداروں پر اعتماد جہاں اداروں کے لئے نیک شگون ہے وہاں سیاستدانوں کے لیئے لمحہ فکریہ ہے۔ ہمارے سیاستدان جب بھوکی، ننگی، قرض میں جکڑی قوم جس کی اکثریت دو وقت کی روٹی سے محروم ہے کو چھوڑ کر یورپ کے بڑے بڑے گھروں میں رہتے ہیں اور دولت سے مالا مال عرب شہزادوں کی سی زندگی گزارتے ہیں اور پھر یہ بھی خدشہ کہ یہ گھر غریب عوام کے پیسے چوری کر کے بنائے گئے ہیں تو آپ سوچیں عوام کے دل پر کیا گزرتی ہو گی؟

قارئین یہ تو بیرون ملک ان کی جائیدادوں کا حال ہے۔ اب ذرا ملک کے اندر کی صورت حال ملاحظہ فرمائیں۔ جب ایک غریب آدمی 2018 میں 150 روپے ملنے والا ایک لیٹر کھانے کا تیل جب 600 روپے میں خرید کر گھر پہنچ کر ٹی وی آن کرتا ہے تو وزراء، وزراء اعلیٰ، صدر، وزیراعظم، گورنرز کو دس دس، بیس بیس گاڑیوں کے قافلوں میں دیکھتا ہے تو اس کا خون کھولتا ہے۔

قارئین یہ ارب پتی اور کھرب پتی لوگ جو سرکاری گاڑیاں اور پولیس گارڈز استعمال کرتے ہیں ان کا خرچہ عام غریب پاکستانی اٹھاتا ہے۔ حالانکہ یہ لوگ اس قدر امیر ہیں کہ اس طرع کا بلکہ اس سے کہیں گنا بڑا پروٹوکول یہ لوگ خود برداشت کر سکتے ہیں۔ یہ بڑے بڑے ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس، صوبائی اور قومی اسمبلی کی عالیشان بلڈنگز، اور ایکڑوں پر پھیلے گورنر ہاؤسز کسی طرع بھی قرض میں جکڑی، بھوکی ننگی قوم کے لیڈروں کے شایانِ شان نہیں۔

قارئین گزشتہ دنوں ایک ٹی وی ٹاک شو کے دوران ایک سینئر صحافی کے اس انکشاف نے کہ پاکستانی اشرافیہ پر سالانہ 17 ارب ڈالر خرچ ہوتا ہے۔ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ چونکہ موجودہ حکومت نے صرف ایک ارب ڈالر کے لئیے IMF کے آگے نا صرف اپنی ناک رگڑی بلکہ مہنگائی کی صورت میں 22 کروڑ عوام کی ناک بھی رگڑوائی۔ اور قارئین پاکستانی اشرافیہ کا 100 ارب ڈالر بیرون ملک بنکوں میں کیشن یا بیرون ملک اثاثوں کی صورت میں پڑا ہے۔

قارئین یہ ساری باتیں لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کو ایسے اقدامات اٹھانے چاہیے کہ عوام کو اس بات کا احساس ہو کہ میرا لیڈر، میرا حکمران مجھ میں سے ہے۔ میرا حکمران میرا خیر خواہ ہے۔ اگر میں 150 روپے والا کھانے کا تیل 600 روپے میں خرید کر کھا رہا ہوں اور 250 روپے پٹرول برداشت کر رہا ہوں جس سے ضروریات زندگی کی ہر چیز مہنگی ہو گئی تو میرے حکمران بھی بیرون ملک اپنی تمام جائیدادیں اور اثاثے بیچ کر پاکستان لے کر آئیں اور پاکستان کے اندر پروٹوکول، اور مراعات کے نام پر جو 17 ارب ڈالر سالانہ خرچ ہوتا ہے اس کو 7 ارب ڈالر تک لے کر آئیں اور 10 ارب ڈالر اس قوم کو بچت کا تحفہ دیں۔

قارئین بنگلہ دیش کو ہم "کیس سٹڈی" کے طور پر لے کر اپنی ڈوبتی معیشت کو بہتر کر سکتے ہیں۔ قارئین مشکلات کے دنوں میں وزیراعظم بنگلہ دیش نے اپنے وزراء کے سوٹ پہننے پر پابندی لگا دی تھی۔ تاکہ اے سی کا استعمال کم سے کم ہو۔ آج بنگلہ دیش کے فارن ریزرو 80 بلین ڈالر ہیں اور پاکستان کے با مشکل 16 بلین ڈالر، اور بنگلہ دیشی ٹکا کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ شرمندگی کی حد تک گرا ہوا ہے، عوام بہت قربانیاں دے چکی۔ اب حکمرانوں کی باری ہے کہ وہ قربانیاں دیں اور اپنی قربانیوں سے عوام کی ہمدردی اور ملکی معیشت میں بہتری لانے کا اس سے بہترین موقع اور کیا ہو گا؟

Check Also

Baray Maidan Ka Khilari

By Muhammad Saqib