Urdu Ki Haiat, Lehja Aur Banawat
اُردو کی ہیت، لہجہ اور بناوٹ
آریا قوم کے ہندوستان میں داخل ہونے سے قبل ہندوستان کے قومی باشندے مختلف زبانیں بولتے تھے، اور بعض زبانوں کے حروفِ تہجی تصویری خط وغیرہ بھی ایجاد ہوگے تھے۔ مگر جب آریا، سر زمینِ ہند میں داخل ہوئے تو سنسکرت پروان چڑھانے لگی۔ سنسکرت لسانی اعتبار سے بہترین زبانوں میں شمار ہونے لگی۔ کیونکہ اِس میں باہمی گُفتگُو اور مافی الضمیر بیان کرنا، دیگر زبانوں کے مقابلے میں نہایت آسان تھا، اور ذخیرہِ الفاظ بھی اس وقت کی رائج زبانوں سے زیادہ تھا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ مقامی بولیوں اور سنسکرت کے ملاپ سے، ایک نیا لہجہ وجود میں آنے لگا جو پراکرت کہلایا۔ جس نے پورے خطے میں اپنے قدم جمائے۔
ابھی اِس زبان کو عوامی زبان بنے زیادہ دیر نہ گُزری تھی، کہ چند صدیوں کا سفر ہی طے ہوا تھا، کہ عوامی بول چال اور حروفِ تہجی کی حامل ایک اور زبان " برج بھاشا " وجود میں آنے لگی۔ اِس خطے میں پہلے پہل اسی زبان میں تالیف کا سلسلہ شُروع ہوا، تو اُسے عام بول چال کے علاوہ، ادبی اور رابطے کی زبان ہونے کا شرف بھی حاصل ہو گیا۔ برج بھاشا کی قواعد کی تالیف مرتب کرنے والے اُجین کے درباری پنڈت، دراردچی کی کتاب " پراکرت پرکاش " میں درج کردہ الفاظ آج بھی اُردو زبان میں شامل ہیں۔ ہر زبان اپنے اندر ایک رومانیت رکھتی ہے، بشرط یہ کہ کس لہجہ میں بولی جارہی ہے۔
اِس موجودہ عہد میں سینکڑوں زبانیں اپنے خطے، قبائل اور ریاستی سطح پر بولی جارہی ہیں۔ مگر سب لوگ تمام زبانوں سے واقف نہیں۔ اگر کوئی سیکھنا چاہے تو گنتی کی چار، پانچ زبانیں ہی سیکھ پائے گا۔ ہر زبان کا کوئی خطہ تو ہو سکتا ہے، مگر زبان کا کوئی مذہب یا دین نہیں ہوتا ہے۔ یہ عقائد اور روایات سے بالاتر ہوتی ہے۔ ہندوستان کی وجہِ شہرت یہ بھی ہے، کہ سونے کی چڑیا کہلانے والا یہ خطہ، مختلف اقوام اور طالعِ آزماؤں کی زد میں رہا، اور ہر آنے والا اپنی ثقافت اور زبان کے نقوش چھوڑ دیتا، اور برج بھاشا سے ہندی کو فروغ ملا تو مختلف حملہ آوروں کے سبب اُردو کا وجود عمل میں آیا، اور یہ لشکری زبان کا لقب پا کر نئی زبان کے طور پر رائج ہوئی۔
جس میں تُرکی، ہندی، عربی، فارسی، سنسکرت اور دیگر کئی زبانوں کے الفاظ باہم ہونے سے اُردو کی بناوٹ، ہیت اور لہجہ میں شیریں بیانی کا عنصر بھی شامل ہو گیا، اور یہ عوامی رابطے کی زبان بن گئی۔ اِس میں کوئی شُبہ نہیں ہے کہ جب زبانیں اپنے ارتقائی مراحل سے گزرتی ہیں تو مذہبی، ریاستی اور معاشرتی قدریں توڑ پھوڑ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ جن سے نئی اقدار اور روایات جنم لیتی ہیں۔ وہیں اپنے برتاؤ کے سبب، دوسروں تک اپنے خیالات کو منتقل کرنے کا بہترین ذریعہ بھی تالیف کرتی ہیں۔
انسان کا لباس اُس کی زبان ہوتی ہے۔ اُسے آدمی سے انسان بنانے میں اک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اُردو زبان کی خصوصیات یہ ہیں، کہ یہ مختلف زبانوں کی آمیزش سے بنی۔ اِس طرح اِس میں غنائیت اور موسیقیت کا عنصر غالب ہے، مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے، کہ ملکِ عزیز جہاں اُردو کو قومی زبان ہونے کا درجہ حاصل ہے، وہیں انگریزی طریقہِ تدریس نے اُردو کو چوپٹ کر دیا۔ آج دُنیا میں وہ زبانیں جو ریاستی اعتبار سے قومی زبانیں ہونے کا درجہ رکھتی ہیں، اور جن اقوام نے اپنی ہی زبانوں کو رابطے کی زبانیں بنایا، اور آمدنی کا بہترین ذرائع بھی اپنی زبان کے تناظر میں حاصل یا مرتب کئیے۔
جب زبان میں بہتر آمدنی کے ذرائع نہ موجود ہوں تو وہ زبان مختصراً لوگوں ہی کی رہ جاتی ہے۔ اِس بات میں کوئی شُبہ نہیں کہ، اُردو زبان میں نہ شامل ٹھوس آمدنی کے طریقے، اِس کی کمی کا سبب بنتے جارہے ہیں۔ اِس کی پستی کی ایک وجہ یہ بھی ہے، کہ ہر چند اُردو قومی زبان کا درجہ رکھتی ہے۔ اِس کے باوجود زبان کا مطلب روز مرہ کی زبان نہیں ہوتی۔ ہر زبان میں ادب اور اِس کی افزائش بھی شامل ہوتی ہے۔
جبکہ ہمارے ہاں انگریزی کو بلا وجہ فوقیت دینے کے سبب، ہماری نوجوان نسل اُردو سے دُور سے دُور ہوتی چلی جارہی ہے، اور بول چال میں بازاری لہجہ اور کُھردرے پن کا عنصر شامل ہوتا جارہا ہے۔ یا اُردو میں متبادل الفاظ کے بجائے، انگریزی الفاظ شامل کر لئے جاتے ہیں۔ جو اُردو کے زوال کا سبب بن رہے ہیں۔ اِس نوع کے لہجے سے نہ تو شرینیِ گُفتار کا پتہ چلتا ہے، اور نہ ہی اندازِ بیان کا علم ہوتا ہے۔ اِس طرح زبان اپنی کشش اور اہمیت کھو دیتی ہے۔ زبان وہ ہےجو بولی جائے تو اُس کے لہجے میں مٹھاس معلوم پڑے۔ بقول فراز
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
زبان کو زبان بنانے میں بہت سے عوامل شامل ہوتے ہیں۔ ہماری زبان میں جو بگاڑ کا سبب بنا ہے، وہ غیر ضروری اور ناپسندیدہ الفاظ کا داخل ہونا۔ مثلاً دماغ کی دہی کر دینا، میڑ گُھوم جانا اور وغیرہ وغیرہ۔ اِس نوع کی زبان میں ملاوٹ نے اُردو کی محاوراتی ہیت کو شدید نقصان پہنچایا ہے، اور ادب و احترام کے پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے، اُردو کی اطلاحات کو کُچل کے رکھ دیا ہے۔ الفاظ کی باریکی اور اِس کا صحیح استعمال رابطے کی کُنجی ہوتا ہے، مگر ہمارے ہاں نئی نسل اُردو کے حروفِ تہجی سے بھی نہ واقف ہوتے جا رہے ہیں۔
اِس کی اہم وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے، کہ میرے ہم عصر (جس میں فہرستِ اوّل میں ہوں) نوجوان جب زندگی گزارنے کے ڈھنگ تلاش کر رہے تھے، تو سائنس اور ٹیکنالوجی کے عمل داخل نے ہماری دریافت کرنے کی صلاحیتوں کو بگاڑ دیا، اور زبان کی اہمیت بتدریج کم سے کم ہوتی چلی گئی۔