Noor e Mohabbat
نور ِ محبت
رب تعالی نے اپنا نور دیکھا اور اس نور سے محبت کی عشق کیا، اور اس نور کو اپنا محبوب بنا کر اس کے لئیے پوری کائنات کی تخلیق فرما دی۔ اور پھر انسان پر اتنا کرم فرمایا کہ اپنا محبوب صورت انسان نوری بشر بنا کر ساری کائنات کے لئیے رحمت العالمین بنا دیا۔ اس لئیے رب تعالی نے انسان کے دل میں محبت کا پاک جذبہ رکھا مجھے لگتا ہے۔
جب رب تعالی نے آدم علیہ اسلام کی مٹی پر محبت کی اک نگاہ ڈالی تبھی انسان کی مٹی نے اس نگاہ کرم کے سب رنگ اپنے اندر جذب کر لئیے، اس نگاہ نور کی پاکیزگی کو اپنے روم روم میں سمو لیا۔ اور یوں باباۓ آدم علیہ اسلام کی مٹی کی نسبت سے یہ محبت اولادِ آدم میں منتقل ہوتی چلی گئی۔ اور تب سے انسان محبت کی اس نگاہ کا متلاشی ہے۔
اس محبت بھری نظر کی طلب اس نور کی چاہ اور تڑپ اسکی مٹی کی سرشت میں ہے۔ اسلئیے وہ محبت کا متلاشی رہتا ہے۔ یہ محبت اسے نگر نگر پھراتی ہے، اور پھر یہی محبت اسے جھکنا سکھاتی ہے۔ یہ محبت عبادت کرنا سکھاتی ہے۔ دعا مانگنا سکھاتی ہے۔ وہ محبت میں سکون کا ازل سے متلاشی ہے۔ اور اس کی مٹی میں رچی اس نگاہ کی دوبارہ دیکھنےُکی طلب اسے چین نہیں لینے دیتی۔
مٹی کے کلبوت میں اس کی روح بے چین بے کل رہتی ہے۔ روز ازل جب تمام ارواح کو اکھٹا کیا گیا اور ان سے پوچھا گیا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں تب تمام عالم کی ارواح نے یک زبان ہو کر کہا تھا بے شک تو ہی ہمارا رب ہے۔ روح نے اپنی سماعتوں میں محبت بھری آواز کے نور کو رچا لیا اور دل کو اس محبت میں سرشار کر لیا۔ اور پھر اسی عالم میں ان کو مٹی کے کلبوت میں پھونک دیا گیا۔
مٹی اور روح اس نورَ نظر کی چاہ کی طلبگار۔ انکی سماعتیں بصارتیں اس نور کو دوبارہ دیکھنے اور سننے کی پیاس میں بے کل رہتی ہیں۔ مگر انسان ان دونوں کی بے بسی کو محسوس کرتا ہے مگر سمجھ نہیں پاتا مجاز کی طلب کرتا ہے کسی آواز پر فریفتہ تو کسی صورت مٹی کی مورت پر مر مٹتا ہے۔ مگر پھر بھی تلاش ختم نہیں ہوتی کُل عالم زرہ زرہ اس نور کا شیدائی اس نور کا عاشق اس نور کا طالب۔
وہ مرکز وہ کل ہر اکائی کو اسی ایک کُل کی حاجت ہے " بس اسی کی چاہت ہے۔ وہ اس کو اپنے ڈھنگ سے کھوجنے کی کوشش میں عبادت کرتا ہے۔ کوئی رکوع میں ساکت ہے کوئی قعدے میں دم بخود ہے کوئی سجدے میں مست و الست، کوئی جلسے میں محو، کوئی ہاتھوں کے کاسے میں دعا ؤں کے سکے لےکر اس کی نظر کرم کا طالب، سب کو بس وہ ایک مطلوب ہے۔ پر وہ سب سے بے نیاز مگر بے نیازی میں بھی راہ طلب کے تڑپتے عشاق سے بے نیاز نہیں ہوتا۔
ان کے طلب کے کاسے میں اپنے محبوب کی محبت ڈال کر ان کی تڑپ کو درود پاک کے بولوں کی مٹھاس سے سکون کے نور سے بھر دیتا ہے۔ وہ کسی کو اپنے محبوب کو منواۓ بنا قبول نہیں کرتا، لاالہ الا اللہُ محمُُد االرسول اللہ کو جو دل اور روح کی گہرائیوں سے اقرار نہیں کرتا وہ اس کے دین میں داخل نہیں ہو سکتا، جو اس کے محبوب پاک کا نہیں وہ اس کی طرف نگاہ کرم نہیں ڈالتا۔
اس کی نگاہ التفات اپنے محبوب کی محبت سے مشروط ہے، اور عجب بات ہے اس ذات واحد کے محبوب کی محبت جس کو مل جاتی ہے وہ سکون راحت چین دنیا میں پا لیتا ہے وہ خود راز کائنات ہے اور اس کا راز دار صرف اس کا محبوب معراج کی رات اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ رب تعالی نے اپنے اسرار اور راز کو اپنے محبو ب پر کھولا آقا صل اللہ علیہ وسلم نے ربِ واحد کا دیدار کیا۔
محبوب اور محب کی اس ملاقات کے راز اسرار و رموز کچھ عیاں ہوۓ اور کچھ نہاں رہے۔ اس لئیے ہی محبت بھی اپنے محبت ہونے پر ناز کرتی ہے۔ اور روح کو پاکیزگی اور نور کے جذبے سے سرشار کرتی ہے "انسان اپنے پیارے آقا صل اللہ کی محبت و عشق کے نور کو پاۓ بنا کو اس نور حق کو نہیں پا سکتا یہی راز زیست ہے یہی رازِ محبت ہے جو عشاق پر کھولدیا گیا ہے۔ تبھی علامہ اقبال رحمت اللہ علیہ فرما گئے
کی محمد سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں