Naat Goi Tareekh Ke Aaine Mein
نعت گوئی تاریخ کے آئینے میں
ربیع الاول کے مہینے میں کو چہ کو چہ نگر نگر بقعۃ نور بنتا ہے۔ عا شقان رسولﷺ اپنے اپنے انداز میں گلہائے عقیدت پیش کرتے ہیں۔ میری بھی خواہش تھی کہ اس مو قع پر اپنے احساسات کو ضبط تحریر میں لاوں مگر پھر خیال آتا کہ محسن انسا نیت ﷺ کے اوصاف جمیلہ بیان کرنے والوں نے تو عمر خضر مستعار لے کر آپ ﷺ کے محاسن بیان کرنے میں لگا دی، مقررین نے فصاحت و بلاغت اور جوش خطابت کے تمام ریکا رڈ توڑ ڈالے، پڑھنے والوں نے عقیدت و احترام جیسے الفاظ کو نئے معنی اور نیا روپ بخشا لیکن یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ہم نے سمندر سے چند قطرے لے کر اپنی پیاس بجھانے کی سعی نا تمام کی ہے، ہم نے تو سیرت مصطفی ﷺ کے سدا بہار گلشن سے چند پھو ل لے کر قلب و روح اور جاں کو معطر کرنے کی اپنی سی کو شش کی ہے۔ مگر حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔
کائنات کی وہ عظیم ترین ہستی جس کی شان میں نذرانہ عقیدت پیش کر نے کو ہر زمانے نے اپنے لئے اعزاز گر دانا، اس محبوب کبر یا کی شان اقدس میں کچھ کہنا مجھ جیسے گنہگاروں کے لئے یقینا سورج کو چراغ دکھانے سے بھی کہیں زیادہ دشوار کام ہے۔ میرے پیغمبر ﷺ کی مدح سرا ئی میں تو غیر مسلم قلمکار نے بھی ایسی ایسی شہرہ آفاق کتا بیں لکھی ہیں کہ پڑھنے والے اش اش کر اٹھتے ہیں۔ جب ربیع الاول کا آغاز ہو تے ہی نورانی محافل سجنے لگتی ہیں تو میرا دل چا ہتا ہے کہ ان ہاتھوں کو چوم لوں جو عشق مصطفی ﷺ میں ڈوب کر اتنی پیاری نعتیں لکھتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ نعت آ نحضور ﷺ کا ایسا زندہ جاوید معجزہ ہے جس کا ظہور ان کی حیات طیبہ سے ہوا اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا نعت صدیوں سے کہی جا رہی ہے، لکھی جا رہی ہے، پڑھی جا رہی ہے، سنی جا رہی ہے، اور شعراء نے اپنے قلم کے ذریعے گلہائے عقیدت پیش کئے اور سننے والوں نے نوائے سروش سمجھ کر نعت سنی۔ میرے ذہن میں یہ رسول ﷺ مقبول سے بے حد انس و شغف رکھتے ہیں مگر کیا محمد ﷺ کی زند گی میں بھی نعتیں پڑھی جا تی تھیں؟
حضرت حسان بن ثا بت کا نام تو نعت گو ئی کے حوالے سے بہت معروف ہے اور انہیں شاعر دربار رسالت ﷺ کہا جاتا ہے مگر ان کے علا وہ بھی کم از کم 34صحابہ نے آ نحضور ﷺ کی حیات طیبہ میں نعت لکھی اور کہی جن میں حضرت ابو بکر ، حضرت عثمان غنی ، حضرت عمر فاروق ، حضرت علی، حضرت عباس بن ابی طالب، حضرت فاطمہ ، حضرت بنت عبدالمطلب، حضرت عائشہ اور حضرت حمزہ کے نام نامی شامل ہیں۔ اس سے بڑا معجزہ اور کیا ہو گا کہ آج تک جتنے بھی مسلمان شاعر گزرے ہیں ان میں کوئی ایسا نہیں جس نے نعت نہ لکھی ہو۔ حضرت خواجہ فرید الدین، نظام الدین او لیا، امیر خسرو، سید عبدالقادر جیلانی، ایک طویل فہرست ہے۔ نامور شعرا اور بزرگان دین کی یوں تو نعت اردو، عر بی، پنجا بی، سندھی، سرا ئیکی، فا رسی، سمیت بہت سی زبانوں میں کہی گئی ہے۔ لیکن جو شہرت و مقبولیت شیخ سعدی کی عر بی زبا ن میں شہرت و مقبولیت شیخ سعدی عربی زبان میں لکھی رباعی کو نصیب ہوئی وہ کسی اور کلام کے حصے میں نہیں آ ئی۔
بلغ العلٰی بکمالہ
کشف الدجی ٰ بجمالہ
حسنت جمیع خصا لحہ
صلو علیہ و آ لہ
روا یت ہے کہ شیخ سعدی اس رباعی کے تین مصرعے لکھ چکے تھے اور چو تھا مصرع ذہن میں نہیں آ رہا تھا، بہت پریشا ن تھے اسی اثناء میں محبو ب رب آنحضور ﷺ کا دیدار نصیب ہوا اور بشارت ہوئی کہ چو تھا مصرع یہ کر لو "صلو علیہ و آلہ" یوں یہ تا ریخی رباعی مکمل ہو ئی۔ غیر مسلم شعراء نے بھی نعت لکھنے میں بہت کر دار ادا کیا ہے۔ بے شمار غیر مسلم شعراء نے بہت کمال نعتیں لکھیں با لخصوص برصغیر کے ہندو شعرا کی نعتیں پڑھ کر تو یقین نہیں آ تا کہ یہ نعت کسی غیر مسلم نے لکھی ہو گی۔ پنڈت دیا شنکر، چھنو لال دلگیر، گوپی ناتھ امن، پنڈت برج دتا، فرا ق گورکھپوری، جگن ناتھ وغیرہ میں دیگر کی طویل فہرست ہے ہندو شعراء کی۔
مسلم شعراء بھی بے پناہ نعت گوئی میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔ جن میں مولانا احمد رضا خان بریلوی نے بھی بہت کمال نعتیں لکھی ہیں۔ اور دیگر میں مظفر وارثی، حفیظ تائب، نعیم صدیقی، احمد ندیم قا سمی، ماہر القادری، بشیر حسین نا ظم اور ضمیر جعفری نے بھی نعت گو ئی کو ایک نیا اسلوب بخشا ہے۔ میرے نزدیک نعت محض ایک صنف شاعری نہیں بلکہ ذات اقدس ﷺ کے جمالیاتی تسلسل کا عنوان و اظہار ہے سیرت مصطفی کا کاغذی پیر ہن ہے لہذا قافیے، استعاریے، تمثیلات اور تخیل کو اس کسوٹی پر رکھنا ضروری ہے کہ ہماری قصیدہ گوئی مبالغہ آرائی کی حدعبور کرکے کوئی اور روپ اختیار نہ کرے۔ شعراء نبی مہرباں ﷺ کو معاملات رسول کی طرف متوجہ کریں تاکہ عشق کے حقیقی تقا ضے آ شکار ہوں اور لو گوں کو معلوم ہو کہ سب سے بہتر نعت تو وہ ہے جو نوک قلم کے بجائے اسوہ رسول ﷺ پر عمل کی جائے ہو۔