Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sardar Azhar Rehman
  4. Robotic Force

Robotic Force

روبوٹک فورس

سیالکوٹ کی بزنس کمیونٹی نے پریانتھا کمار کے خاندان کے لیے ایک لاکھ ڈالر اکٹھا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ رقم اس ذہنی اذیت اور جذباتی شکست وریخت کا مداوا تو ہر گز نہیں ہو سکتی جس سے اس خاندان کو گذرنا پڑا مگر یہ پاکستان کا وہ روشن چہرہ ہے جس کی مثال شاید دنیا میں کہیں اور نہ ملے۔ مصدقہ سچائی پر ہم اپنا تن، من، دھن قربان کرنے والے لوگ ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ سچائی کو پرکھنے کے لیے فہم و فراست اور عقل و دانش کا استعمال ہمیں نہیں سکھایا گیا۔ یہی ہماری معصومیت ہے جس کا مفاد پرست ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ سیالکوٹ واقعے کے اصل مجرم بھی یہی نامعلوم مفاد پرست ہیں۔ معصومیت کی حد کہاں ختم اور مفاد پرستی کا سلسلہ کہاں سے شروع ہو کر کہاں تک پہنچتا ہے؟ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے کی ذمّہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔

ایسے ہی اور بہت سے سوال اس مظلوم غیر ملکی کے سفّاکانہ قتل کے بعد پھن اٹھا کر کھڑے ہو گئے ہیں جنھیں اس سے قبل ہم بے نیازی اور موقع پرستی کی بین بجا کر سُلا ڈالتے تھے۔ مثلاً یہ کہ معصوم عوام کی ذہن سازی کا عمل کیسے انجام پاتا ہے؟ اس میں رسمی اور غیر رسمی تعلیم کا کتنا عمل دخل ہے؟ میڈیا کس حد تک اثر انداز ہوتا ہے؟ اور سب سے بڑھ کر فہمِ دین کے معاملے میں رائے عامّہ کی تشکیل کا ذمّہ دار کون ہے؟ دینی مجالس میں تقاریر کے موضوعات اور معیار کیا ہوتا ہے؟ نیز خطباتِ جمعہ میں کون سے موضوعات زیرِ بحث لائے جاتے ہیں؟

یہ سوال بھی اپنی جگہ بے حد اہمیت کا حامل ہے کہ جس معاشرے میں دین ایک پیشے کی حیثیت رکھتا ہو وہاں مختلف احکامِ الٰہی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے اور ان سے مادی فوائد سمیٹنے والے طبقے کے محاسبے کا کوئی قانون کیوں موجود نہیں؟ گلی گلی پھیلے اس نیٹ ورک پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی آخر کیا وجہ ہے؟ کیا لاؤڈ اسپیکر پر کوئی بھی کچھ بھی بول سکتا ہے؟ کیا اللہ، رسول اور قرآن کا صرف لفظوں کی حد تک لبادہ کافی ہے؟ کیا حرمت بھی صرف لفظوں کی ہے یا ان کاغذوں کی جن پر وہ لکھے گئے ہیں؟ معنی اور مفہوم کی کوئی حرمت نہیں؟ کیا دین فروشی کی دکانوں اور فتویٰ سازی کے کارخانوں سے انکار ممکن ہے؟ جہاں سے جیب میں زرِ کامل عیار لے کر گھومنے والا سکّہ رائج الوقت کے عوض کچھ بھی خرید سکتا ہے۔ کچھ بھی ڈھلوا سکتا ہے۔ یہ گاہک غیر ملکی یا ملک دشمن بھی ہو تو کسے پرواہ ہو گی۔ تاجر نے اپنا مال بیچنا ہے اور کارخانہ دار نے اپنی مشینیں چلانی ہیں۔ ایسے ماحول میں اس طرح کے واقعات کے پسِ پردہ عوامل کی تلاش اور نشان دہی آخر کس کی ذمّہ داری ہے؟

ابھی ہمیں کچھ اندازہ نہیں کہ اس واقعے کی آڑ میں پردے کے پیچھےکونسا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور اس کی ڈور کتنی دور سے ہلائی جا رہی ہے؟ مگر ایک بات طے ہے کہ گلی گلی میں بارود ہم نے خود مہیا کیا ہے۔ دشمن کا کام بے حد آسان ہے اس نے اس بارود کو صرف تیلی دکھانی ہے۔ آبادی کے اعدادوشمار دیکھے جائیں تو پاکستان میں نوجوانوں کا تناسب شاید دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ عمران خان بھی اکثر اس کا ذکر کرتے ہیں۔ مگر کیا وہ یہ بات بھی جانتے ہیں کہ پاکستانی نوجوانوں کی توانائی کی بھاپ کس بھٹّی میں مقید ہے؟ اس کے اخراجی والو کی ناب گھمانے والے ہاتھ کس کے ہیں؟ کہیں یہ ہاتھ بکاؤ تو نہیں؟

یہ اتنا بڑا خطرہ ہے کہ اگر وزیراعظم اس کا ادراک کر سکیں تو ان کی نیند اُڑ جائے مگر انھیں دعوے کرنے اور بڑھکیں مارنے سے ہی فرصت نہیں۔ فرماتے ہیں دوبارہ ایسا واقعہ نہیں ہونے دوں گا۔ بندۂ خدا آپ ہاتھی کے کان میں سوئے ہوئے ہیں۔ تواتر سے ایسے واقعات ہو رہے ہیں۔ یہ بچارا تو غیر ملکی تھا اور کچھ زیادہ ہی بے دردی سے مارا گیا اس لیے لائم لائٹ میں آ گیا ورنہ تاریک راہوں میں مارے جانے والے بھی بہت ہیں جن کی خبر ہی نہیں بنتی۔ نہ ان کا خاندان دہائی مچاتا ہے اور نہ میڈیا متوجہ ہوتا ہے۔ نہ مدعی نہ شہادت، خونِ خاک نشیناں۔ ان کی بابت حضورِ والا کیا ارشاد فرمائیں گے؟

صرف لیپا پوتی نہیں بلکہ جرّاحی کی ضرورت ہے۔ گلی گلی پھیلے ڈیٹونیٹرز کو ڈی فیوز کرنے کی ضرورت ہے۔ آہ! بے چاری نوجوان نسل! آخر ان کا کیا قصور ہے؟ یہی کہ دین کی محبت میں یہ دین فروش شعبدہ بازوں کے چنگل میں پھنس گئے۔ ویڈیوز دیکھیں تو اکثریت بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی کی سرحدوں پر جھولتے معصوم چہرے ہیں۔ اکثر ایسے موقعوں پر اسی ایج گروپ کے بچے پیش یش ہوتے ہیں۔ چلیں آپ نے فوٹیج میں نظر آنے والوں کو گرفتار کر لیا۔ آپ نے سو کالڈ ماسٹر مائنڈ بھی پکڑ لیا۔ آپ نے ان کو سزا بھی دے دی۔ عبرتناک سزا! مگر ذرا یہ بھی تو سوچیں اتنی سفاکیت کے بعد سیلفیاں بنانے اور انھیں اپلوڈ کرنے والوں کی ذہن سازی کہاں، کب اور کیسے ہوئی؟ کیا اسکی ذمّہ داری کسی پر عائد نہیں ہوتی؟

ذہن سازی کی یہ فیکٹریاں کہاں ہیں؟ کس کے زیرِ سایہ کام کرتی ہیں؟ اور ریاست ان پر ہاتھ ڈالنے سے گریزاں کیوں رہتی ہے؟ اگر خلوصِ نیت سے کُھرا تلاش کیا جائے تو اصل مجرموں تک پہنچنا چنداں دشوار نہیں مگر اس کے بعد حوصلے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ ہماری اپنی بنائی ہوئی روبوٹک فورس اب ہاتھ سے نکلی جا رہی ہے۔ ابھی بھی وقت ہے جو کمانڈز ہم نے شروع میں لگائی تھیں انھیں تبدیل کر لیں۔ کانٹا بدل دیں۔ مگر کیا ریاستی سطح پر اس کا شعور اور ہمت موجود ہے؟

Check Also

Final Call

By Umar Khan Jozvi