Ghar Ki Bat
گھر کی بات
کافی دنوں سےٹی وی خراب ہے۔ کچھ پتہ نہیں دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا سے ملنے والی خبروں کا کیا اعتبار۔ خبر پہنچتی تو فوراً سے بھی پہلے ہے، مگر شک ہی رہتا ہے۔ تصدیق ہونے تک خبر قدرے پرانی ہو چکتی ہے۔ سری لنکا کے پردیسی کی ہڈیوں کا سرمہ بنے خاصے دن گذر گئے ،مگر اس خبر کے آفٹر شاکس ابھی ختم نہیں ہوئے۔ دو جیّد علمائے کرام ان کے پاس معافی مانگنے اور یہ بتانے گئے، کہ اسلام ایسا نہیں ہے۔ مگر اس سے آگے کوئی بات نہیں کرتاکہ اسلام اگر ایسا نہیں ہے،تو اسے ایسا بنانے کی ذمّہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔
جاوید چوہدری نے ذرا کُھل کر بات کی ہے اور صاف لفظوں میں ضیاالحقی قوانین سے پِنڈ چھڑانے کا مشورہ دیا ہے۔ لگتا ہے اس حد تک برف ضرور پگھلی ہے کہ اب کم از کم بات کی جا رہی ہے۔ البتہ انھی باتوں کے درمیان پنجاب میں چوہدری برادران اور مرکز میں بظاہر مدرسوں کے پڑھے ہوئے چند وزراء، ضیاالحق کی لگائی ہوئی گرہوں پر مزید گرہیں لگانے سے بھی باز نہیں آ رہے۔ افغانستان پر او آئی سی کا اسلام آباد میں اکٹھ، اس کے بعد کی دوسری بڑی خبر تھی، جس نے پریانتھا کمار کی ٹوٹی ہوئی سوختہ ہڈیوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔
حکومتی کیمپ کے لیے تو یہ ساکھ بچاؤ مہم کا ایک مؤثر ہتھیار ثابت ہونا ہی تھا ،اور سارے ترجمانوں نے اس تنکے سے لپٹ کر خود کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے ہی تھے، مگر مخالفوں اور لبرلوں نے بھی اس کانفرنس کا کوئی مثبت پہلو مان کر نہ دیا ،اور کیڑے ہی نکالتے رہے ،جبکہ حقیقت میں صورتحال کچھ بَین بَین سی رہی اور امریکہ کے حالیہ " حوصلہ افزأ " بیان کے بعد تو پلڑا ترجمانوں کی طرف جھک گیا ہے۔
مگر اسی افغانستان (جس کے ہم مامے بنے ہوئے ہیں) سے ایک اور خبر باڑ سے متعلق بھی آئی ہے۔ یہ ویسی ہی خبر ہے ،جیسی حامد کرزئی اور اشرف غنی کے دور میں ہر تھوڑے دنوں کے وقفے سے آیا کرتی تھی ،اور ہم اس کے عادی ہو گئے تھے ،مگر کم از کم اب ہمیں اس کی توقع نہیں تھی۔ کہتے کیا ہیں جی، کہ قبائل کی تقسیم قبول نہیں، ان کا آنا جانا لگا رہتا ہے، مگر یہ بات اُدھر والے ہی کرتے ہیں، آنا جانا بھی انھی کا ہوتا ہے۔ ہماری طرف والوں نے تو کبھی یہ بات نہیں کی، نہ ان کا جانا آنا ہے اور انھوں نے جانا بھی کیا لینے ہے؟
دوسرے ڈیورنڈ لائن پر سوال اٹھانے کی کوئی تُک نہیں بنتی۔ ڈیورنڈ لائن وہی ہے جو 1893 میں متعین ہو گئی تھی اور کافی غور و خوض اور بحث و تمحیص کے بعد ہوئی تھی ،جس کا دستاویزی ریکارڈ موجود ہے۔ تکلیف اصل میں ڈیورنڈ لائن کی بھی نہیں، تکلیف صرف یہ ہے کہ کھلا آنا جانا لگا رہے اس میں رکاوٹ نہ آئے۔ ہمارے دانشوروں کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیئے اور اسے ڈیورنڈ لائن سے خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔
ان تمام خبروں کو اوور لیپ کرتی ایک خبر کے پی کے چند اضلاع کے بلدیاتی نتائج کی ہے۔ ان انتخابات کی شفافیت کی ضامن چونکہ حکومت خود ہے ،جس کی تصدیق فافن نے بھی کر دی ہے، اس لیے ان کو درست مان کر بات ہو سکتی ہے۔ حکومتی زعماء ابھی نتائج کو نامکمل سمجھ کر خوش فہمی کی خمار آلود غنودگی سے باہر آنے کو تیار نہیں، مگر خانِ اعظم ہڑبڑا کر جاگ اٹھے ہیں ،مگر اسباب کا تعین وہ بھی نہیں کر پائے۔ انھیں بہت سی باتوں کا پتہ ہو گا مگر مہنگائی کے ڈسے عوام کی نوک ِ زبان پر کیا ہے؟ اس کا یقیناً انھیں کوئی اندازہ نہیں۔ایسے میں مکمل نتائج اس سے زیادہ حیران کن ہو سکتے ہیں۔
مولانا کی اُڑان کو سب حیرت سے دیکھ رہے ہیں اور اسے افغان طالبان کا نفوذ سمجھ رہے ہیں، مگر جیسا کہ ایک کالم نگار نے لکھا ہے، عوام ہر حکومت سے کچھ عرصے بعد اُکتا جاتے ہیں، تو اس صورت میں جناب مولانا نے اپنی گاڑی پیچھے لگائی ہوئی ہے۔ ہارن بھی مسلسل بجا رہے ہیں، سواریاں تو یقیناً اٹھائیں گے۔ مسئلہ یہ ہے اور المیہ بھی یہی ہے، کہ منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ہمیں مولانا ہی دستیاب ہیں۔ نمبر بھی غالباً انھی کا بنتا ہے اور اپنی تمام تر سیاسی حرکیات (بلکہ حرکات) کے ساتھ وہ گراؤنڈ پر موجود بھی ہیں۔ بس یہی ہماری قسمت ہے۔