Tijarat Ke Kuch Bunyadi Asool
تجارت کے کچھ بنیادی اصول
تجارت کے کچھ بنیادی اصول ہوتے ہیں۔ یہ اصول آج کے نہیں بلکہ ہزاروں سال پرانے ہیں۔ انٹرنیٹ نے اس کی رفتار بہت تیز کر دی ہے۔ اصول یہ ہے کہ دو الگ الگ مقامات پر پراڈکٹ کی الگ قیمتیں ہوتی ہیں ایک جگہ سے خرید کر دوسری جگہ بیچنا بنیادی تجارت ہے۔
ایک نوجوان کو جانتا ہوں جس نے چار سال میں بیس لاکھ کے سرمائے کو دو کروڑ میں بدل دیا۔ اس نے بنیادی اصول کو تھام لیا اور اس کی کامیابی کے پیچھے سرمائے سے زیادہ اس کی اپنی محنت اور لگن تھی۔ لگن کے بغیر یہ سب ممکن نہیں ہوتا۔ فیس بک ریلز، یوٹیوب شارٹس اور ٹک ٹاک وغیرہ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ انسان کا ارتکاز کم ہوتا جا رہا ہے کوئی بھی اپنے مقصد پر concentrate نہیں ہو پاتا۔
اس نوجوان نے اکتاہٹ کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا اور روزانہ کی بنیاد پر پچاس ساٹھ پراڈکٹس کو نوٹ کرتا رہا مختلف ممالک کے آن لائن سٹورز پہ ان کی قیمت دیکھتا اور ایک کیٹلاگ سا بناتا رہتا۔ ایک سے دو ماہ میں اس کے پاس کافی ڈیٹا جمع ہو چکا تھا۔ اس نے alloy steel کے کچھ پراڈکٹس پہ انگلی رکھی اور اسے بار بار پرکھنے لگا۔ کسٹم اور پورٹ کے کلیئرنگ ایجنٹس سے رابطہ کیا اور مزید معلومات لیں۔
آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ paktradeinfo ڈاٹ کام پہ آپ کسی بھی پراڈکٹ کی پچھلی امپورٹس چیک کر سکتے ہیں اور یہ انفارمیشن کراچی پورٹ فری میں آن لائن دیتا ہے۔ خیر اس نوجوان نے مارکیٹ کمپیرژن کے بعد امپورٹ شروع کی اور پہلی کنسائمنٹ میں چالیس دن لگے۔ ساڑھے تین لاکھ فی ٹن میں پڑنے والا پراڈکٹ پونے پانچ لاکھ میں فروخت کیا۔ چالیس دن میں 35 فیصد کا خوبصورت منافع بلاسود مکمل جائز طریقے سے وصول کرکے نوجوان نے ابتدا کی۔
بیس لاکھ کو 27 لاکھ کرنے میں چالیس دن لگتے ہیں اگر لگن ہو، محنت اور ٹیکنالوجی کا درست استعمال کیا جائے۔ یہ نوجوان آج بھی موٹر سائیکل پر شہر بھر گھومتا ہے۔ سوشل میڈیا استعمال نہیں کرتا۔ چاہے تو ہنڈا سوک لے سکتا ہے لیکن اسے معلوم ہے کہ سوک میں رقم پھنسانے سے بہتر ٹریڈ کی جائے۔ اسی ملک کے کچھ بدنصیب نوجوان لاکھوں روپے دے کر ڈنکی مارتے ہیں یورپی ممالک میں گدھا مزدوری کرتے ہیں لیکن یہاں محنت کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔
یہ ملک بزنس کرنے والے کے لئے جنت ہے لیکن جنت میں داخلے سے پہلے پل صراط بہت ہیں۔ لگن ہو تو یہاں سرمایہ داری وہ منافع دے سکتی ہے جو دنیا کے کسی اور ملک میں ممکن نہیں۔