Mind Games
مائنڈ گیمز
کیسے مزے کی بات ہے کہ دماغ ہمیشہ اندھیرے میں رہتا ہے۔ ہم رحم مادر میں پنپ جاتے ہیں، وہاں روشنی نہیں ہوتی۔ پیدائش کے بعد بھی ہمارا دماغ کھوپڑی کے مضبوط حصار میں محفوظ رہتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ تمام روشنی، رنگ، خوشبو اور ذائقے کبھی بھی دماغ تک نہیں پہنچ سکتے۔ سورج کو دیکھیں تو آنکھیں چندھیا جاتی ہیں مگر اس روشنی کا ایک بھی ذرہ دماغ کے اندر کبھی نہیں جا پاتا۔ وہ اندھیرے کا گھر ہے۔ کوئی خوشبو، رنگ ذائقہ نہیں پہنچ پایا۔ پشتو شاعر غنی خان بہت خوبصورت مصرعے میں دودھ اور شہد کو زبان کا خیال کہتے ہیں۔ (دہ ادم دہ جبے خیال دے، دا سپلمے اور انگبین)۔
یہ سب نیوران کا کھیل ہے۔ کان میں پڑنے والی آوازیں ہیں یا آنکھوں میں داخل ہونے والی روشنی، زبان پہ رکھا تُرش و شیریں ہو یا ناک میں داخل ہونے والی خوشبوئیں، سبھی بجلی کی لہروں میں تبدیل ہو کر نیوران کے ذریعے دماغ تک پہنچتی ہیں۔ اور ہمیں ان سب چیزوں کا احساس ہوتا ہے ان میں فرق معلوم ہوتا ہے۔ یہ بجلی کی لہریں جسم میں پیدا کرنے کے لئے ہم الیکٹرولائٹ کھاتے ہیں۔ نمک سے ملنے والا سوڈیم، پھلوں سبزیوں سے ملے والا پوٹاشیم اور میگنیشیم ہمارے برقی نظام کو سنبھالتے ہیں۔
اگر آپ نے میٹرکس فلم دیکھی ہے تو اس میں کمپیوٹر دنیا پر قبضہ کرکے انسانوں سے بجلی بنانے کا کام لیتے ہیں۔ یہی الیکٹرولائٹ ہمارے دماغ سے پورے جسم کو سگنل بھیجتے ہیں دل کا دھڑکنا اسی کرنٹ سے ممکن ہو پاتا ہے۔ اب یہاں ایک مزے کی چیز ہوتی ہے۔ کرونا وائرس ہمارے ناک سے دماغ تک جانے والے اس سگنل کو روک دیتا ہے جس سے ہم سونگھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ بو ناک میں جاتی ہے دماغ تک نہیں پہنچتی۔
ایک اور مرض میں ایسی چیزیں نظر آتی ہیں جو اصل میں موجود نہیں ہوتیں۔ یہ وہ الیکٹرک سگنل ہوتے ہیں جو آنکھ سے نہیں آتے بلکہ دماغ کے اندر خرابی سے پیدا ہوتے ہیں۔ خواب ایسے ہی سگنلز سے دکھائی دیتے ہیں۔ آنکھیں بند ہوتی ہیں لیکن دماغ دیکھ رہا ہوتا ہے۔ جب یہ خرابی لگاتار بڑھتی رہے تو بیماری بن جاتی ہے جسے شیزوفرینیا کہتے ہیں۔ انسان کو hallucinations اور delusion ہوتے ہیں۔ یہ دو الگ چیزیں ہیں۔
ہیلوسینیشن میں غیر حقیقی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور لوگ نظر آتے ہیں۔ اس شخص کے لئے یہ سو فیصد حقیقی ہوتے ہیں۔ کیونکہ دماغ بالکل حقیقی منظر بنا کر پیش کر رہا ہوتا ہے۔ ان کو زیادہ تر اندھیرے میں یا تنہائی میں ایسا ہوتا ہے۔ یہ لوگ اپنے غیر حقیقی دوست تک بنا لیتے ہیں اور ان سے باتیں کرتے ہیں۔ انہیں چھو بھی سکتے ہیں اور گلے لگانے، گود میں سر رکھنے تک کے احساسات ہوتے ہیں۔
ڈیلوژن میں خیالات منتشر ہوتے ہیں۔ جیسے کسی کو لگتا ہے کہ کوئی اس کا دماغ پڑھ رہا ہے، یا اس سے زبردستی کوئی کام کروا رہا ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ ٹی وی پر ان کے لئے پیغامات نشر ہو رہے ہیں وہ ہر چیز کو اپنے لئے اشارے سمجھنے لگتے ہیں۔ یا ان کو لگتا ہے کہ سب لوگ ان کے دشمن ہو گئے ہیں۔
یہ سارا کھیل الیکٹولائٹس، ہارمون اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے کمپلیکس کیمیکل سے رچتا ہے۔ بچپن کی محرومیوں، جینیاتی تبدیلی، پے درپے شکست، خاندانی مسائل وغیرہ سے یہ چیزیں مزید تیزی سے پیدا ہوتی ہیں۔ انسان شعور کی ابتداء سے ہی ان غیر حقیقی چیزوں کو سچ سمجھتا اور سمجھاتا رہا ہے۔ کسی چیز کے بارے میں بہت زیادہ شدت سے سوچنے یا پڑھنے سے یہ مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ لمبا عرصہ تنہائی میں رہنے سے یہ ہوتا ہے۔
انسان کے توہمات ایسے ہی پیدا ہوئے۔ کسی شیزوفرینیا کے مریض نے کوے کو مہمان اور بلی کو بدشگونی سے ملا دیا۔ اس کے قریبی لوگوں نے اس شخص کو قابل اعتماد trusted سمجھ کر بات پھیلا دی۔ اور یہ چیزیں آج تک چل رہی ہیں باپ دادا کو درست سمجھ کر وہم کاپی پیسٹ ہو رہے ہیں۔ اب ان بیماریوں کا بہت حد تک علاج دریافت کر لیا گیا ہے۔ ان سارے illusion کو سچ ماننے والے مریض ہیں۔ مریضوں کی ہاں میں ہاں ملانے والے معصوم ہیں۔