Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saqib Ur Rehman
  4. Ghalib Ke Sher

Ghalib Ke Sher

غالب کے شعر

کل غالب کے شعر اور کافی کے پیگ واسطے کسی محبوبہ کی خواہش ظاہر کی تھی، محبوبہ میسر نہ ہوئی تو نعمان بھائی کو دھر لیا۔ بہت زور سے غالب آیا ہوا تھا تو ان کی بیٹھک میں چند مصرعے سن سنا لئے۔ ہم سناتے رہے اور نعمان لہکتے رہے۔ میر کے دو مصرعے ایسے اٹھائے کہ اگر تقی میر شریکِ محفل ہوتے تو آبدیدہ ہو جاتے۔ فرماتے ہیں:

ایک ناوک نے اس کی مژگاں کے

طائر سدرہ تک شکار کیا

فکر کی پرواز پر نظر کیجئے۔ میر یہاں کہتے ہیں کہ یار کے موئے چشم تیر کی مانند ہیں اور ایک پلک کی مار ایسی ہے کہ سات آسمان چیر کر سدرتہ المنتہٰی کے پار درخت پر بیٹھے پرندے کا شکار کر جائے۔ جہاں جبریلؑ کے پنکھ جلے وہاں یار کے مژگاں کامیابی سے مشن پورا کر گئے۔ ان پلکوں کی جرآت، پہنچ اور نشانے کی پختگی پر صدقے واری جانے کا دل چاہتا ہے۔ اگلے شعر میں لکھا ہے:

صد رگ جاں کو تاب دے باہم

تیری زلفوں کا ایک تار کیا

تخیل کی بلندی دیکھیں۔ نسوں کا جال بچھا ہوا ہے نالیوں میں خون جاری ہے اور اب ان سینکڑوں نالیوں کو پکڑ کر مروڑ لیا جائے، رگوں کی رسی بُن لی جائے اور کھینچ کر لمبا کر لیا جائے تب یار کے زلف کا ایک بال بنتا ہے۔ واللہ اس قدر exaggeration اور اتنا شدید مبالغہ ہونے کے باوجود اس شعر کی روانی پر کیسا پیار آ رہا ہے۔ تاب کا لفظ اپنے تمام تر ممکن مفاہیم کے ساتھ یہاں موجود ہے سوچتے جائیں جھومتے جائیں۔

نعمان آغا نے اس پر جس انداز میں داد دی واللہ مزا ہی آ گیا۔ اس دنیا میں عذاب الٰہی کی سب سے بڑی صورت یا تو برادران یوسف ہیں یا بدذوق دوست۔ غالب کے شعر کا تذکرہ نہ ہو تو بات مکمل نہیں ہوتی۔ دل پر ایک سیاہ رنگ کا نقطہ ہوتا ہے اسے سویدا کہتے ہیں۔ تو غالب کا شعر ہوا کہ:

دل آشفتگاں خالِ کنجِ دہن کے

سویدا میں سیرِ عدم دیکھتے ہیں

اب اگر یار کے ہونٹوں کے پاس ہی تِل جیسی عیاش چیز موجود ہو تو پھر عشاق چاہے اس تل پہ مریں یا سویدا کے بلیک ہول میں معدوم ہو جائیں۔ غائب ہو جائیں جہاں سے پھر اپنی بھی خبر نہیں آتی۔ حدا کا مبالغہ ہے لیکن خوبصورت ہے۔ شعر ہو چکے اب کافی کا وقت ہے۔ آپ بھی سجسٹ کریں کس کے ساتھ بیٹھ کر غالب کا حظ اٹھائیں۔

Check Also

Ye Breed Aur Hai

By Mubashir Ali Zaidi