Chaos
کیوس
جہان chaos سے عبارت ہے۔ ایٹم کے مرکز کی وائبریشن سے کہکشاؤں کے ٹکرانے تک ہر چیز میں شدید افراتفری ہے۔ اس chaos کو دیکھنے کے لئے اور سمجھنے کے لئے لمبا عرصہ درکار ہے۔ ہم ستر اسی سال جینے والی مخلوق کیسے جان سکتے ہیں کہ چاند اور سورج ہمیشہ سے اپنے وقت پر طلوع و غروب ہوتے ہیں۔
ہم سطح زمین پہ رہتے ہیں اور پہلے مشاہدے میں زمین کو چپٹا مان لیتے ہیں۔ زمین کو گول سمجھنے کے لئے ہمیں دلائل دینے پڑتے ہیں تجربات کرنے پڑتے ہیں۔ کیونکہ ہماری نظر اتنی دور نہیں دیکھ پاتی۔ اسی طرح ہمیں لگتا ہے کہ چاند سورج ہمیشہ سے مقررہ وقت پر نکلتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ اس کلینڈر کو بنے ابھی دو ہزار سال ہی ہوئے ہیں یہ اتنا چھوٹا عرصہ ہے کہ اسے بنیاد مان کر ہم یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ چاند اور سورج ہمیشہ سے اسی مقررہ وقت پر نکلتے ڈوبتے رہے ہیں۔
یہ چاند ہماری دنیا سے ہر سال 3. 8 سینٹی میٹر دور چلا جاتا ہے۔ یہ دوری کچھ بھی نہیں مگر ملین سال پہلے یہ آج کی نسبت 38 کلومیٹر قریب تھا۔ چن ماہی دور جا رہا ہے۔۔ جب چاند کی عمر 30ہزار سال تھی تو یہ چھ دن میں زمین کا چکر مکمل کر لیتا تھا۔ جب زمین پر فوٹوسینتھسز کی شروعات ہو رہی تھی تب چاند 18 دن میں چکر مکمل کرتا تھا۔
تب چودھویں رات کا چاند آدھا ہوتا تھا اور نویں کا چاند مکمل ہوتا تھا۔ ابھی انسان کو دنیا میں آئے وقت ہی کتنا ہوا ہے؟ انسان جدید ہے انسان کا لٹریچر بھی جدید ہے اور انسان کا یہ دعویٰ بھی جدید اور غلط ہے کہ کائنات کا نظام پرفیکٹ اور مکمل ہے۔ اس سلسلے میں چاند اور سورج کے وقت پر آنے اور جانے کی دلیل بھی بےبنیاد ہے۔
کوئی ہوتا جو پہلے دن سے یہ سب دیکھ رہا ہوتا تو ہمیں سمجھاتا کہ کتنا chaos بھرا ہوا ہے۔ کچھ بھی پرفیکٹ نہیں ہے۔ کوئی بھی مقررہ وقت کا پالن نہیں کر رہا۔ اگر یہ گردش گریٹ ڈیزائن ہو تو جان لیجئے کہ چین میں بنے دنیا کے بڑے آبی ڈیم بننے سے دنیا کے گھومنے کی رفتار کم ہو گئی ہے۔۔
یہ اجرام فلکی ہر سال اپنی گردش کے اوقات میں چند مائکرو سیکنڈ کی ڈنڈی مار جاتے ہیں۔ یہ اپنی مگن میں مست ہیں۔ اور وہ اپنی مگن میں مست ہیں جنہیں لگتا ہے یہ بننے سے لے کر آج تک کسی حکم کے زیر اثر مقررہ انداز میں چل رہے ہیں۔۔