Aqeede
عقیدے
مسلمان دوست یہ تحریر نہ پڑھیں۔ جو منع کرنے کے باوجود پڑھ لیں وہ دلی معذرت قبول فرمائیں۔
عقیدے میں بندھا انسان اپنے دماغ میں ایک الگ دنیا بسا لیتا ہے۔ اس کے نزدیک صحیح اور غلط کے پیمانے یکسر مختلف ہو جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ اس حال میں رہنے کے بعد وہ اپنے ذہن میں بنی اس دنیا کو عین درست سمجھنے لگتا ہے اور اس کے خلاف جانے والی ہر بات، ہر نظریے اور ہر عمل کو سراسر غلط سمجھتا ہے۔ ہر عقیدے کا یہی حال ہے۔ عقیدہ بس مان لینے کو کہتے ہیں۔ اس مان لینے میں کوئی جبر نہیں ہوتا اور اگر کوئی دلیل، ثبوت یا گواہ عقیدے کے مخالف ہو جائے تو عقیدہ درست کرنے کی بجائے ثبوت، گواہ اور دلیل کو جھٹلا دیا جاتا ہے۔ یہ ساری بات سراسر فرد سے متعلق کی جا رہی ہے۔ مثال پیش کرتا ہوں۔
ایک کٹر سنی دوست کو محرم کے دنوں میں انسانیت کا درد جاگا۔ انہوں نے مجھ سے اپنا درد بانٹتے ہوئے کہا کہ اہلِ تشیع بہت ظالم ہوتے ہیں اپنے دو تین سال کے بچوں کو بھی زخمی کر دیتے ہیں اور انہیں عزاداری کی ٹریننگ دیتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا اتنے چھوٹے بچوں کو زخمی کرنا واقعی غلط ہے؟ انہوں نے بتایا کہ وہ بچوں پہ ظلم کے سراسر خلاف ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ سب مسلمان اور یہودی بھی نومولود کا ختنہ کرتے ہیں بیچارے بچے کا عضو کاٹ کر خون بہاتے ہیں بچہ روتا ہے، چلاتا ہے اس بارے میں کیا خیال ہے؟ کہنے لگے وہ تو ایمان کا حصہ ہے۔ یعنی فقط ان کا ایمان ہی ایمان ہے۔
آگے سنیے۔ دہلی میں بوراری کے علاقے میں ایک ہی گھر کے گیارہ افراد نے بیک وقت خوش کر لی۔ ان گیارہ افراد میں تینوں پیڑھی کے لوگ تھے والدہ ساٹھ سال سے بڑی تھی مرد، عورتیں بھی اور سکونل میں پڑھتے بچے بھی تھے۔ سب خواندہ تھے اور ماسٹر ڈگری ہولڈر تھے۔ فاقہ کش بھی نہ تھے، اچھا کماتے ہوئے مڈل کلاس کے پروقار لوگ تھے۔ ایک آدمی پر بھگوان کا سایہ اترتا تھا، وہ آنکھیں بند کرتا اور مرے لوگوں سے بات کرتا تھا۔ سب گھر والوں کو تاکید تھی کہ یہ راز گھر سے باہر نہ جائے ورنہ سب برباد ہوں گے۔ اس انسان نے سب کو خاص دن جمع ہو کر پوجا کرنے کا کہا اور اس کے بعد گردن میں رسی ڈال کر لٹکنے کا حکم دیا۔
سب کو بھروسہ تھا بھگوان بچا لیں گے۔ بھگوان ہوتے تو بچانے آ بھی جاتے مگر دیکھا گیا ہے کہ بوراری ہو یا کربلا، بھگوان نہیں آیا کرتے۔ اس واقعے پہ ایک دوست نے آج بہت گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ ان کے نزدیک اس واقعے سے انسانیت شرما گئی۔ کیونکہ اس شخص نے عقیدے کے چکر میں اپنی ماں اور بیوی کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں تک کو مار ڈالا تھا۔ دوست بتا رہا تھا کہ کوئی انسان ایسا ظالم کیسے ہو سکتا ہے؟ ہمارے دوست کو اس شخص پہ بہت شدید غصہ تھا۔ میں نے پوچھا کہ اگر یہ شخص بھگوان کے نام پہ اپنے بچے کا گلا کاٹ دیتا تب کیسا ہوتا؟ دوست کی آنکھوں میں گویا خون اتر آیا۔ اسے یہ شدید گھٹیا اور گھناؤنا کام لگا۔ اسے ریلیکس کرنے کے بعد اسے بتایا کہ یہ ہوتا رہتا ہے۔
ابراہیم ؑنے بھی خدا کو خواب میں دیکھا تو اپنے بیٹے کو چھری کے نیچے لٹا دیا۔ واقعات جیسے بھی رہے ہوں مگر زندگی میں کبھی ایک بار بھی ہمارے دوست نے خوابوں اور الہام کی بنیاد پر اپنے 8سالہ بیٹے پر چھری چلانے کی مذمت نہیں کی ہو گی۔ عقیدے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ سنی کو شیعہ کا بچہ زخمی ہونے پہ درد ہوتا ہے۔ اپنے بچے کو زخمی کر دیتا ہے اور اس پہ خوشی بھی مناتا ہے۔ بوراری واقعے پہ آنسو بہانے والوں کے آنسو تب نہیں بہتے جب وہ ابوالانبیا کے خطاب دے رہے ہوتے ہیں؟ عقیدے زہن میں ایک الگ ہی دنیا بنا لیتے ہیں۔ اسی کو حق سمجھتے ہیں اور اس کے خلاف دلیل، ثبوت یا گواہ سامنے ہو تو مسترد کر دیتے ہیں۔
مجھے اس بات کا اقرار ہے کہ میری یہ تحریر ہزار غلطیوں پہ مشتمل ہے اس لئے بس پڑھ کر بھلا دیں۔ اللہ سب کا بھلا کرے۔