Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saqib Ur Rehman
  4. Ahal e Tashee Shuara Aur Urdu Adab

Ahal e Tashee Shuara Aur Urdu Adab

اہلِ تشیع شعراء اور اردو ادب

اہل تشیع شعراء نے اردو ادب پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ لکھنؤ کے دبستان پر نظر کیجئے تو جابجا مرثیے لہو گرماتے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ایک ہی واقعے کو اتنے الگ الگ طریقوں سے اتنے مختلف پیرایوں میں کیسے بیان کیا جا سکتا ہے؟ میر انیس کو پڑھا تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔ جوش ملیح آبادی کو جانا تو حد ہو گئی۔ ہر مرثیہ پڑھ کر سوچا کہ یوں بھی سوچا جا سکتا تھا۔

پھر اگلا کلام اٹھایا تو دل نے کہا اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہو گا؟ پھر آگے بڑھے تو اگلے مرثیے کی خیال آفرینی کی داد دی۔ غرض ایک قافلہ اور اس کا قافلہ سالار، ایک پانی اور پیاس، ایک خنجر اور تلوار، ایک حسینؑ ایک عباسؑ اور زینبؑ۔ یہ بہتر 72 لوگ اور مہینے بھر کا سفر۔ پھر اس پر اکیلے میر انیس کے لکھے ہوئے دس ہزار مرثیے۔ جن میں ایک کا مضمون دوسرے سے یکسر مختلف اور دبیر اور جوش کے ہزاروں مرثیے جن کے مضامین ان دس ہزار سے بالکل الگ۔

شیعت نے اردو ادب کو وہ سب دے دیا جو کسی اور طور پر کسی اور میدان میں اس نے حاصل نہ کیا۔ یوسف کی کہانی قرآن نے بیان کی اور حسینؑ کی کہانی تاریخ نے بتائی۔ حسنِ یوسف اور زلیخا کو ایسا مقام اور ایسے داستان گو نہ ملے جو حسینؑ کو میسر ہوئے۔ کہتے ہیں بنی اسرائیل کے بیس انبیاء ایک ہی دن میں شہید کئے گئے مگر یہاں حسینؑ ایک شہادت لے کر بیس کروڑ لوگوں کو ہر سال رلا رہے ہیں۔

جان تو ایک ہی ہوتی ہے۔ شہادت بھی ایک ہی بار ملتی ہے۔ کروڑوں شہید اسلام کی سر بلندی کے لئے کٹ مرے ہونگے۔ لہو اپنے خاندانوں کا بہت لوگوں نے پیش کیا ہو گا۔ طرابلس کے شہیدوں کا لہو کبھی بھی رائیگاں نہ تھا۔ مگر حسینؑ کو جتنی آنکھیں روئیں ان کا دنیا بھر کی معلوم و نامعلوم تاریخ میں کوئی بھی ثانی نہیں ہے۔ افسوس کا ایک باب کربلا ہے۔

حسینؑ کا درد بیشک اس دنیا میں سب سے زیادہ مانے جانے والا درد ہے۔ کربلا انسانی تاریخ سب سے دلخراش واقعہ ہے۔ اور اسے بیان کرنے والوں سے بڑھ کر سوز کسی اور مضمون میں نہیں۔

Check Also

Ye Breed Aur Hai

By Mubashir Ali Zaidi